یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ زندگی اور زندہ معاشرے قفس و جبر میں پنپ نہیں سکتے۔ سانس کی ڈور اور آزادی کی اُڑان قائم رہنی چاہیے۔ ظلم و ستم کی فضا میں سانسیں رک اور روحیں پراگندہ ہوجاتی ہیں معاشروں میں انصاف ختم ہوجائے تو وہ اپنی موت آپ مرجاتے ہیں۔چہروں پر طمانیت اور قلب و روح میں آسودگی تبھی اُترتی ہے جب چار کھونٹ امن اور حق تلفی کی فضا نہ ہو۔ یقینا انسانی معاشروں کا بقا امن اور انصاف کے قیام میں ہے۔ قرون وسطیٰ ہو یا آج کا دورپولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا قیام اسی اہم مقصد کے حصول کے لیے وجود میں لایا جاتا ہے۔تاہم اگر یہ ادارے اور ان میں موجود افسران و اہلکار فرائض منصبی کی ادائیگی میں کسی بھی وجہ سے سست روی کا شکار ہوجائیں تو نتیجے میں نہ تو انسانی معاشروں میں انصاف کی فراہمی ممکن رہتی ہے اور نہ ہی جرائم کا خاتمہ۔ آپ نظر گھما کر دیکھ لیں، انہیں معاشروں نے ترقی کی جہاں ان حقائق سے صرف ِنظر کرنے کے بجائے،انصاف اور جرائم کے خاتمے کو یقینی بنایا گیا۔ مملکت خداداد پاکستان کے موجودہ اور گزشتہ ادوار پر نظر دوڑائی جائے تو یہاں بھی حالت ِ زار کچھ حوصلہ افزا نہیں آتی۔ سندھ میں اس وقت عملاً ڈاکو راج نظر آتا ہے۔ بڑی اور بین الصوبائی شاہراہیں بھی اس وقت ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ افراد کی دسترس سے دور نہیں۔ کراچی ہو یا سندھ کے کسی بھی حصے کے تاجر، بزنس مین یا شہری، بڑھتی ہوئی ڈکیتی، راہزنی اور جرائم کی وارداتوں پر چاکِ گریباں نظر آتے ہیں۔ کچے کے ڈاکو ؤں نے پنجاب کے بعد اب اس وقت سندھ کا رخ کر لیا ہے کراچی کی صورت حال دیکھیں تو وہ بھی زیادہ مختلف نہیں آتی۔ ابھی چند روز قبل ہی ایک مصروف شاہراہ پر موجود پٹرول پمپ کوکچھ ڈاکوؤں نے گن پوائنٹ پر لوٹ لیا۔ اس دوران وہاں موجود سیکڑوں افراد بے بسی سے ڈاکوؤں کی دیدہ دلیری اور پٹرول پمپ کے مالک اور وہاں موجود افراد کے لٹنے کا براہ راست نظار ہ کرتے رہے۔ اگر صوبہ پنجاب کی بات کریں تو یہاں بھی عوام کو ملی جلی حالت ِ زارکا سامنا ہے۔ راولپنڈی، گوجرانوالہ، قصور اور فیصل آباد سمیت جنوبی پنجاب کے کئی اضلاع ایسے ہیں جہاں جرائم کی وارداتوں میں گزشتہ برسوں کی نسبت کئی گنا اضافہ ہوا ہے تاہم پنجاب کے کچھ ایسے اضلاع بھی یقینا موجود ہیں جہاں ان دگرگوں حالات کے باوجود جرائم میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اسے حوالے سے صوبائی دارالحکومت لاہور سرِ فہرست نظر آتا ہے۔ لاہور میں حیرت انگیز طور پر گزشتہ کچھ عرصہ میں جرائم کے گراف میں تنزلی دیکھنے میں آرہی ہے۔ جہاں تک وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا تعلق ہے تو اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے ہی دن سے صوبہ میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے میں خاصی سنجیدہ اور مصروف ِعمل نظر آتی ہیں۔
اعدادوشمار پر نظر دوڑانے سے پہلے یہ جانناضروری ہوگا کہ اس کی اصل وجوہات کیا ہیں۔باریک بینی سے غور کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ لاہور میں سنگین جرائم میں کمی اور امن و امان کی بہتری میں سی سی پی لاہور بلال صدیق کمیانہ کی پروفیشنل اور مضبوط کمانڈ کا مرکزی کردار ہے۔بظاہر کم گو اور میڈیا کی سرخیوں سے قدرے دور رہنے والے بلال صدیقی کمیانہ نے اپنی پروفیشنل پولیسنگ کی بدولت لاہور پولیس کو متحرک کر رکھا ہے۔ ان کے ماتحت افسران کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اپنے کمانڈر سے غلط بیانی کرکے ان سے اصل حقائق نہیں چھپا سکتے۔ ان کے دور میں لاہور میں غیر قانونی قبضے کا کوئی ایک واقعہ بھی رونما نہیں ہوا۔ خاص طور پر مال روڈ پر واقع کروڑوں روپے مالیت کی ایک تاریخی بلڈنگ پر انہوں نے جس اندازمیں طاقتور افراد کی جانب سے غیر قانونی قبضے کو روکا وہ یقینا قابل ستائش ہے۔ سی سی پی لاہور بلال صدیق کمیانہ نے جب چارج سنبھالا تو اس وقت لاہور میں کھلے عام منشیات فروشی اپنے عروج پر تھی جس میں وہ بڑی کامیابی سے بڑی حد تک کمی لانے میں کامیاب رہے۔ اسی طرح جرائم کے سدِ باب میں ایس ایس پی علی رضا کا کردار بھی خاصا نمایاں ہے۔ انہوں نے بھی خود کو ایک بہترین پروفیشنل پولیس افسر ثابت کیا ہے۔امسال پہلے تین مہینوں میں لاہور میں قتل کے 83 واقعات ہوئے جو گزشتہ سال یعنی 2023ء میں 106 تھے۔ اس عرصہ میں دوران ڈکیتی قتل کی پانچ وارداتیں ہوئیں جو گزشتہ سال کی نسبت ایک کم ہے۔ گزشتہ سال اغوا برائے تاوان کی چار وارداتیں ہوئیں جو اس سال تین رہیں۔ اس سال ڈکیتی کی وارداتیں پچھلے سال کی نسبت 19 کم ہیں۔ 2023ء کے پہلے تین ماہ میں راہزنی کی5861 ہوئیں جو اس سال پہلے تین ماہ میں کم ہوکر 3186 رہیں۔ 382پی پی سی کی گزشتہ عرصہ کے دوران 55 واردتیں ہوئی جو کم ہو کر 48رہ گئیں ہیں۔گزشتہ عرصہ کے دوران چھیننے کی 21 وارداتیں ہوئیں جو کم ہو کر 6رہ گئی ہیں۔ موٹر سائیکل چھیننے کی 6713 وارداتیں کم ہو کر 4964 رہ گئی ہیں۔ موٹر سائیکل کی چوری کی گزشتہ سال کے پہلے تین ماہ میں 564 واقعات ہوئے جو اس سال کم ہو کر 4555 رہ گئے۔ یوں سنگین جرائم کی 13920وارداتیں کم ہو کر 9365رہ گئی ہیں۔ حقائق ثابت کرتے ہیں کہ آج بھی اگر کسی جگہ نیک نیت اور پروفیشنل پولیس افسران تعینات ہیں وہاں سنگین جرائم کی وارداتیں بھی کم رہتی ہیں اورامن و امان کی صورت بھی بہتر ہوتی ہے۔ ڈی پی او ساہیوال فیصل شاہکار، ڈی پی او بھکر محمد نوید اور ڈی پی او وہاڑی عیسیٰ سکھیرا کا شمار بھی ایسے ہی پروفیشنل پولیس افسران میں کیا جاتا ہے جنہوں نے پیشہ ورانہ ہنر مندی کی بدولت اپنے اپنے علاقوں میں جرائم کی کمی لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
تبصرے بند ہیں.