تیزی، تنزلی کا شکار معاشرت

83

وکالت کی شروعات میں زیادہ پرانی بات نہیں 80 کی دہائی میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت کا ڈیکورم آج لاہور ہائیکورٹ کے ججوں کی اکثریت سے کہیں زیادہ بہتر تھا۔ مجھے یاد ہے ایک سیشن جج گوجرانوالہ چودھری عبدالمجید ٹوانہ تھے جن دن غصہ میں ہوتے تھے اس دن کسی مقدمہ کی سماعت نہیں کرتے تھے مگر آج ہائیکورٹ کے ججز کو دیکھ لیں کہ وکلا کو ملزمان کے وکلا نہیں بلکہ ملزمان کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ چند مانوس چہرے استثنا ہیں۔ بلکہ کچھ ججز کو تو میں نے دیکھا کہ انوپم کھیر (اداکار) کی طرح پہلے پورا موڈ اور مزاج بناتے ہیں اور پھر مقدمہ کی سماعت شروع کرتے ہیں۔ مقدمہ جس طرح وکیل نے لکھا اور پیش کیا ہوتا، اس طرح نہیں اپنے انداز سے شروع کرتے ہیں۔ مختلف سوالات سے مقدمہ کا رخ اپنے موڈ کی طرف موڑ دیں گے گویا ان کا موڈ ہی قانون اور آئین ہے۔ میں نے آج تک کسی ڈان کے ڈیرے پر غلط فیصلہ ہوا نہیں سنا مگر چند استثنا کے علاوہ عدالتوں کے ہر مقدمہ کا فیصلہ تحفظات کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔

بنچ اور بار کی روایات میں تنزلی کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے، مرتضیٰ سولنگی نے کہا تھا کہ انصاف کا سب سے زیادہ قتل عدالتوں میں ہوا۔ وہ معروف صحافی ہیں ورنہ یہ بات ہر خاص و عام جانتا ہے۔ ابھی 6 ججز کے خط کی بڑی بازگشت ہے۔ ان 6 ججز میں وہ چہرے زیادہ ہیں جو شوکت صدیقی کے بیان اور ان کے انجام پر ہرزہ سرائی کرتے تھے۔ ایک پارٹی کے فالوورز شوکت صدیقی کے تانے بانے نوازشریف سے جوڑتے تھے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ قانون اور آئین کے ان پھوٹتے ہوئے 6 چشموں کو یہ معلوم نہیں کہ ان کو اگر کوئی ادارہ یا ایجنسی کچھ کہے تو کیا کرنا ہے؟ کاش یہ لگے ہاتھ پوچھ لیتے کہ اگر بیوی، دوست یا کوئی خفیہ ایجنسی کے بجائے خفیہ دوست پریشرائز کرے تو پھر کیا کرنا ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ اداروں کی مداخلت سے کہیں زیادہ سامنا ذاتی تعلقات ذاتی مفادات کی مداخلت کا رہتا ہے۔ کاش یہ شوکت عزیز صدیقی کے مقدمہ کے ساتھ مظاہر علی اکبر نقوی مقدمہ کو بھی بنیاد بنا کر خط میں ایک پیرے کا اضافہ کرتے بالآخر وہ وہی ثابت ہوئے جو ان کے متعلق رائے تھی لہٰذا ان کے متعلق بھی عام رائے کا نتارا کیا جائے۔ جوڈیشل کنونشن میں سول سوسائٹی اور وکلا کو بھی شامل کرنے کی تجویز دیتے کہ کسٹمز ٹربیونلز جھوٹی عدالتوں سے بڑی عدالتوں سمیت لوگوں کی، وکلا کی رائے کیا ہے۔ ایک ایسا خط جو سوائے ہوائی فائر کے کچھ نہ تھا، میڈیا اور سیاسی حمایت کے کچھ نہ ہے۔ مگر بھول گئے کہ ہوائی فائرنگ پر بھی کوئی قانون لاگو ہوتا ہے۔ خط میں لگے الزامات ثابت کرنے کا وقت آیا تو انہی میں سے ان کی تعیناتیوں میں کن کن عوامل کا عمل تھا وہ بھی سامنے ضرور آنا چاہئے۔ ججز کے کام میں مداخلت سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ان کی تعیناتیوں کے وقت کن عوامل اور شخصیات نے کردار ادا کیا تھا، ان کا بھی تذکرہ کمیشن کے فیصلے میں آ جائے۔ آج آپ عدالتی نظام، لباس اور طریقہ کار کا جائزہ لیں تو دراصل دور غلامی آج بھی ہے۔ عدالت کے ججز کا تشریف لانا ایک شاہی سواری سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ عدالتی اہلکاروں کا لباس دیکھ لیں ہرے رنگ کی اچکن سردیوں میں اور سفید شلوار۔ ہرے رنگ کی ہمارے ہاں مذہبی حوالے کیا پہچان ہے؟ یہ الگ بات ہے اگر ساتھ سفید شلوار ہو تو یہ پاکستانی جھنڈے کی نمائندگی بن جاتی ہے اور سر پر قراقلی ٹوٹی جو قائداعظمؒ سے پہلے بھی رواج تھا مگر اس کو دوام اور نام جناح کیپ کہلوا کر ملا۔ پھر کُلے والی پگڑی روایتی طور پر ہماری زمین کی ثقافت تھی یہ تو ہیں گھنٹی بجنے پر، جج صاحب کی حرکت پر ہمہ تن حاضر ہونے والے۔ جج صاحب کا لباس، ان کا گائون یہ غلاموں اور حاکموں میں فرق جاری رکھنے کے لیے ہے۔ امریکہ کی فیڈرل کورٹ کا جج عدالتی اوقات میں عام لوگوں میں اگر کوئی جانتا نہ ہو تو کوئی نہیں پہچانتا مگر ہمارے جج عدالتی اوقات میں ایک زیارت کا نقشہ دیتے ہیں۔ گورے کا لباس تو ہے کیا ویسا انصاف بھی دے پاتے ہیں۔ برطانوی راج میں ججز اور فوج میں بھرتی پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوتا تھا۔ بیوروکریسی میں البتہ چھوٹے سے پرزے کو نائب تحصیلدار یا تحصیلدار رکھ لیتے تھے کہ مقامی جاگیردار، اکڑ کے مرض میں مبتلا لوگوں کو شامل کر لیں ورنہ محکمانہ بھرتیاں بھی ایک شفاف نظام کے تحت اور اعلیٰ سروسز کے لیے ICS کا نظام واضح تھا۔ ہم نے عدالتی نظام بھی ریلوے کی طرح تہس نہس کر دیا۔

سرکاری وکلا تو خالصتاً سیاسی اور ذاتی تعلقات کا نسخہ ہوتے ہیں۔ اگر کوئی جوڈیشل نظام کے ذریعے آ بھی جائے تو آگے تعیناتیاں سیاسی اور ذاتی تعلقات کی نوعیت سے ہوا کرتی ہیں۔ چھوٹی سی مثال ہی لے لیں، ڈرگ کورٹ گوجرانوالہ میں ADDP کی ذمہ داری پر گریڈ 17 کا شخص تعینات ہے جبکہ یہ پوسٹ گریڈ 18 کی ہے اور یہاں پر گریڈ 18 کے عدالتی افسر کو تعینات ہونا چاہئے۔ یہی حالت پورے وطن عزیز کی ہے یعنی عدالتی ہو یا انتظامی اختیارات، صوابدیدی حیثیت نے نظام زمین بوس کر دیا۔ اب سیکرٹری پبلک پراسیکیوشن کی صوابدید ہے؟ نہیں، بلکہ یہ لازمی ہے کہ وہاں گریڈ 18 کا شخص ہو یہی امتیاز نظام کی بربادی کی بنیاد ہے۔ ماتحت عدلیہ تو ویسے ہی اب چوہدری افتخار کے بعد ڈرے ڈرے چہروں کے ساتھ دکھائی دیتی ہے جبکہ اعلیٰ عدلیہ خصوصاً ہائیکورٹ میں تاریخ پہ تاریخ والے فلمی مکالمے کی یاد ہر ذہن میں ہے جو اس نے سنا ہوا ہے۔ بہت ہو گئی 6 ججوں کے خط پر میں اتنا ہی کہوں گا کہ 5 سال بعد جاگنے والے ضمیر کے حامل ججز نے اب سید مظاہر علی اکبر نقوی کو چھوڑ کر ریٹائرڈ جسٹس شوکت صدیقی کی حمایت کر دی۔ ایک مخصوص پارٹی کے بانی نے بھی اپنے ستم کا نشانہ بننے والے جج کی حمایت کر دی اور اپنے کرم فرمائوں اور ہم خیال ٹولے کے خلاف اصولی موقف کی حمایت کر دی۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج کا خط اگر چار پانچ سال پہلے ہوتا ان چھ کے بجائے ان کے چہرے اور نام ہوتے جن کو یہ خط لکھا گیا ہے۔ بھارت کے ایک دوست ستیش جو سوامی اوما جی کے خاص آدمی ہیں کہتے ہیں کہ بھارت میں ابھی تک عدالتی رویے ایسے ہی ہے کہ مشقتوں اور رشتوں سے مقدمہ لسٹ میں لگوانے کے بعد جج کی مرضی ہے Left Over کر دے اور مرضی ہے فیصلہ کر دے یا تاریخ پہ تاریخ دے۔

ایک سردار کے پاس لوگ مدد کے لیے گئے اس کی نیت نہیں تھی کہ اُن کا کام کرتا۔ رات کی چڑھائی ہوئی شراب کا Hung Over باقی تھا اس نے اپنے بندوں سے کہا اوئے، سارے گھوڑیاں تے کاٹھیاں پائو، تمام گھوڑوں پر کاٹھیاں ڈال لیں گھنٹے بھر میں کاٹھیاں ڈال دی گئیں۔ سردار سے کہا کہ سردار جی گھوڑوں پر کاٹھیاں ڈال لی ہیں۔ اب چونکہ اس کی نیت نہیں تھی تو کہنے لگے کہ اب کاٹھیوں پہ کاٹھیاں ڈالیں۔ اب دوبارہ اتنی ہی کاٹھیاں کون لائے لہٰذا معاملہ تاخیر میں پڑ گیا۔ ابھی کل کی ہی بات ہے ایک کیس 2 ججز کے سامنے خدا خدا کر کے لگا۔ پہلے بھی دوسرے فریق کو بلایا گیا تھا، ایک جج کہنے لگا نوٹس تو ہو چکے ہیں۔ دوسرے نے پتہ نہیں کیا کہا تو پہلا کہنے لگا، دراصل نوٹس بھتیجے نے وصول کیا ہے لہٰذا دوبارہ نوٹس دیں اور بغیر کچھ سنے اٹھ کر چلے گئے۔ اگلی تاریخ پہ شاید نوٹس بھتیجی کو وصول ہو گا اور یوں کاٹھیوں پہ کاٹھیاں اور تاریخ پہ تاریخ مقرر ہوتی جائے گی تاآنکہ انصاف ظلم میں بدل چکا ہو۔ عابد نام کا ہر شخص عبادت گزار ہوتا ہے نہ عزیز نامی ہر دلعزیز۔ ایک معروف صحافی میرے ایک دوست صحافی کے ساتھ آیا کہ مظاہر نقوی سے سفارش کر کے اس کو مقدمہ میں رعایت اور معافی دلا دیں، ذاتی نوعیت کا معاملہ بن گیا ہے۔ اس صحافی کی ایک تاریخ پر خوب کلاس لی گئی، اگلی تاریخ پہ دونوں مامے پھوپھی کے بنے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا، یہ کیسے ہوا۔ دوست نے کہا، دونوں کی طاقت کا سرچشمہ ایک ہے۔ آج خط لکھتے ہیں، کل کی بات ہے راہ و رسم پر نازاں تھے۔ بہرحال ایسے ہی چلتا رہے گا معاشرت کی تنزلی تیزی سے جاری ہے۔

تبصرے بند ہیں.