منشور کی شق نمبر 1:میں نہ مانوں… یعنی اس ملک میں اگر تو بہت اچھا ہو رہا ہے۔ ملک ترقی کی طرف گامزن ہے، مہنگائی کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے۔ تمام ادارے اپنے اپنے کاموں پر لگے ہوئے ہیں مگر کچھ بھی نہیں تسلیم کرنا، ان کے خلاف بیانات دینا، ان کے سربراہوں کو جیل کے اندر کر دینے کے اعلانات کرنا، آسانیوں کی جگہ مشکلات کو جنم دینا۔ ہم نے نہیں ماننا اور ہر حکومتی اقدام کیخلاف آواز اٹھانا۔
شق نمبر 2:دھرنا سیاست یعنی اس ملک کو چلنے نہیں دینا۔ جب دل کرے، موسم کوئی بھی ہو ماحول کتنا ہی اچھا ہو، ملک میں دھرنوں کے پیغامات کا پھیلانا، بار بار دھرنے کے اعلانات کرنا اور ملک کے کونے کونے میں دھرنا سیاست کو اجاگر کرنا نہ سکون میں نہ آرام کرنا، دھرنوں میں ناچ گانوں کو آرگنائز کرنا، تمام بڑے اداروں پر ٹارگٹ حملے کرنا ان کے سربراہوں کو برے القابات دینا۔
شق نمبر 3:گالی کلچر کو پرموٹ کرنا، کسی کی عزت نہ کرنا، چاہے وہ کتنا ہی شریف کیوں نہ ہو، سوشل میڈیا پر شرافت کے پرخچے اڑانا، عزت داروں کے خلاف گالی کلچر کی بار بار پرموشن کرنا، حکمرانوں کے بیرونی دوروں کے دوران گاڑیوں کے پیچھے پیدل یا سفر میں ان پر آوازیں کسنا، قتل کی دھمکیاں دینا، ہاتھوں میں ڈنڈے لے کر چلنا، اوئے اوئے توں توں کہہ کر پکارنا اور مدینہ منورہ میں نعرے لگوانا۔
شق نمبر 4:شہر در شہر کو بلاک کرنا، بڑے چوکوں پر مجمع لگانا، آئے روز ماحول کو خراب کرنا، راستے بلاک کرکے ان راستوں پر آنے والی تمام سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو تباہ کرنا، جگہ جگہ آگ لگانا، گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کو آگ لگانا، اسموگ پیدا کرنا۔ سڑکوں پر ٹائر جلا کر گھنٹوں ٹریفک بلاک کرنا۔
شق نمبر 5:مخالفین پر ناجائز مقدمے، بغیر سزائوں کے جیل میں ڈالنا، نیب اور ایف آئی اے جیسے اداروں کو ذاتی استعمال میں لاتے ہوئے عزت دار لوگوں اور سیاست دانوں کو طویل مدت کے لیے جیل میں رکھنا، ان کا حقہ پانی بند کرنا۔ ان کو بلیک میل کرنا۔
شق نمبر 6:ملک کی بہتری کے لئے نہ کام کرنا، نہ کسی کو کرنے دینا، اقتدار کی خاطر ہر جائز، ناجائز حربوں کا استعمال کرنا، جب دل کرے آئین کی پروا نہ کرتے ہوئے اسمبلیاں توڑنا، اراکین کو لوٹے بنوانا، ہر روز جلسے کرنا، ہر روز ریلیاں نکالنا، ہر روز کال کی تاریخیں دینا۔
شق نمبر 7:یو ٹرن لینا۔ یعنی ہر بات پر عملدرآمد کا اعلان کرکے اس کو یوٹرن میں لے جانا، بار بار فیصلے کرکے فیصلے واپس لے لینا، بیان دے کر بیان سے مکر جانا، غلط بیان پر قائم رہنا، قانون بنوانے کے بعد قانون پر عملدرآمد نہ کرانا، ہر ایک کو رولانے کی دھمکیاں دینا، ہر ایک کو بلاوجہ پریشان کرنا، یوٹرن کے بغیر بات نہ کرنا، نہ اپنے کئے فیصلوں پر قائم دائم رہنا۔
شق نمبر 8:اپنے ذاتی مفادات کے لئے مطلب کی سیاست یعنی ایک سیاست دان کے خلاف نفرتیں پھیلانا، اس کا جینا دوبھر کرنا، ڈیزل ڈیزل کے خطاب دینے والے سیاست دانوں کے گھروں پر جا کر مذاکرات کرنا۔ کسی کئے پر شرمندہ نہ ہونا، ڈھٹائی سے ڈٹ جانا۔
شق نمبر 9: ملکی فلاح و بہبود کے لئے مذاکرات کے لیے کسی سیاسی جماعت کے ساتھ ہاتھ نہ ملانا اور ملانے کا کہہ کر مکر جانا، مذاکرات کے نام پر بات نہ کرنا، مخالفین کی اہمیت کو نہ ماننا، سب کو کچرا قرار دینا، اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کے علاوہ مذاکرات کا کسی کو عندیہ تک نہ دینا، اپنی حاکمیت اور دوسروں کو کچھ نہ سمجھنا، مذاکرات کے بہانے حالات کو برے طریقے سے خراب کرنا، کسی نظام کو نہیں چلنے دینا۔
شق نمبر 10:جو رکن اسمبلی جماعت کے بانی یا پارٹی سے اختلافات رکھے گا تو پھر سزا کے طور پر اپنے ہی جلسوں میں اس کیخلاف نعرے لگوانا، اپنے ذہن ساز کارکنوں کے ذریعے ان کے گھروں پر حملے کرانا، جگہ جگہ ان کی مار کٹائی کرنا، ان کی اولادوں کو پریشان کرنا، جہاں چلیں ان کا گھیرائو کرنا۔
شق نمبر 11:سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف ہر طرح کی بکواس کرانا، بیرون ممالک میں پاک فوج کو بدنام کرنا، غلیظ زبان کا استعمال کرنا، فوجی عہدوں کی بے حرمتی کرانا۔ ان کے خلاف نام لے کر نفرت پھیلانا، خاکی وردی کی بے حرمتی کرنا، ان پر حملے کرکے معافی نہ مانگنا۔ برے ترین القابات سے نوازنا، شر انگیزی پھیلانا، اپنے پالتو سوشل میڈیا کے کرداروں کے ذریعے سے حالات و واقعات کو غلط انداز میں پیش کرنا، بیرون ممالک بیٹھے اپنے ٹائوٹوں سے پاکستان مخالفت زہر اگلوانا، غیرملکی اخبارات کو غلط معلومات فراہم کرنا۔
شق نمبر 12:نیوٹرل ایمپائرنگ کے بیانئے پر سیاستدان اور اداروں کے سربراہوں کو جانور قرار دینا اور کبھی اسی جانور کو انسان کہہ دینا، اپنے کتے شیرو کو سیاست دانوں کے کرداروں ساتھ ملانا۔
شق نمبر 13:کسی بھی قسم کے عدالتی فیصلوں کو نہ ماننا اور جہاں اپنی مرضی کے فیصلے آئیں تو وہ ججز دنیا کے بہترین انصاف پسند اور قانون کے ہیرو اور اگر فیصلہ ان کے خلاف آئے تو اس کو تعصب کا نام دے دینا۔
شق نمبر 14:اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے حکمرانی ملے تو قوم آزاد، اقتدار نہ ملے تو قوم غلام۔ کبھی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے دروازے بند کرنا، کبھی ہاں تو کبھی ناں میں دوسروں کو ذلیل و خوار کرنا۔
اور آخری بات…
یوں تو بانی کی طرف سے آئے کبھی روزانہ تو کبھی دنوں کی بنیاد پر منشور میں کہیں ترمیم تو کہیں اضافہ، کہیں ذاتی مفادات اور انائیں، کہیں ضدیں تو کہیں پاگل پن کے بیانات۔ جس طرح چینلز پر ہر لمحہ کسی نہ کسی خبر کو بریکنگ کا نام دے دیا جاتا ہے اسی طرح کسی بھی وقت بانی کے منشور میں تبدیلی کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ نجانے وہ وہ کچھ کہتے کہتے کیا سے کیا کہہ جائیں جس طرح زلفی بخاری ملکوں ملک گھوم کر وہاں کے سیاست دانوں اور سینیٹروں سے پاکستان کے خلاف خطوط لکھوانے کے ساتھ اخبارات میں مضمون شائع کرا رہا ہے۔ ملک بدنام ہوتا ہے، کوئی پروا نہیں۔ اس کی نظر میں سب جائیں بھاڑ میں مجھے تو زلفی بخاری جیسے کارکن چاہئیں۔
میرے درد کی کہانی، میری حسرتوں سے پوچھ۔
تبصرے بند ہیں.