خیبر پی کے اسمبلی میں الجہاد الجہاد کے نعرے لگائے جانے اور پھر پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب کا اس کے جواب میں کہا جانا کہ ان الجہاد کے نعرے لگانے والوں کے ساتھ خارجیوں کے ساتھ کیا جانے والا سلوک کیا جائے گا، اس بات نے ملکی استحکام کو خطرے میں ڈال دیا اور میرا دھیان سیدھا 1971ء کو سیاست دانوں کی جانب سے دئے گئے بیانات کی جانب چلا گیا۔ سقوطِ ڈھاکا میں فوج کو ذمہ دار گرداننے والے سیاست دان بیان بازی کرتے ہوئے سوچتے نہیں ہیں کہ اس کے مضر اثرات کیا ہوں گے؟ اس وقت بھی اگر فوج کی جانب سے کچھ مسائل تھے تو سیاستدانوں نے بھی عقلمندی کا ثبوت نہیں دیا اور طرح طرح کے بیانات داغتے رہے جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ ہمارا ایک بازو ہم سے جدا ہو گیا۔ جس کا قلق آج تک نہ صرف پاکستان کے عوام کو ہے بلکہ بنگلہ دیش کے عوام بھی اسی طرح اس سے زخم خوردہ ہیں۔ عام رائے یہی ہے کہ اس وقت یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اس علیحدگی میںقومی مفاد پنہاں ہے۔ یہ بات گزشتہ دنوں جناب جاوید ہاشمی صاحب نے ایک ٹی وی چینل پر کچھ ان الفاظ میں کی کہ اس وقت بنگلہ دیش کو علیحدہ ہونے پر مجبور کیا گیا اور بنگالیوں کا کہنا تھا کہ آپ علیحدہ ہوں پاکستان ہمارا ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ 77 سالوں سے جاری ہے جب حکومتوں کو ملکی مفاد کے نام پر ختم کر دیا جاتا ہے اور چیف ایگزیکٹو کوگرفتار کیا جاتا رہا۔
ہمارے ہاں قومی مفاد کی اصطلاح بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے بلکہ یہ کہا جانا بے جا نہیں ہو گا کہ قومی مفاد کے نام پر یہاں ایسے ایسے گل کھلائے گئے ہیں کہ کیا کہنے اور ان قومی مفادات کا تحفظ کرتے کرتے ملکی مفادات کا بیڑہ غرق کر دیا گیا۔ آج ملک جس قسم کے حالات اور انارکی میں مبتلا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ افلاطونوں کے قومی مفادات کا تحفظ ہے۔ قومی مفاد کا لفظ ہمارے ہاں عام رائج ہے اور قومی مفاد کے نام پر سب سے بڑا کارنامہ 24 اکتوبر1954ء کو انجام دیا گیا جب 11 اگست 1947ء کو وجود میں آنے والی پاکستان کی آئین ساز اسمبلی آئین بنائے بغیر توڑ دی گئی۔ گورنر جنرل ملک غلام محمد اور اس وقت کی بیورو کریسی کے کرتا دھرتا اپنی دانائی میں یہ سمجھتے تھے کہ نو آموز پاکستانی ریاست میں اداروں اور عوام کو اتنی جلد آئینی حقوق دے دینا ملکی مفاد میں نہیں ہو گا، جب کہ بھارت نے آزادی کے تین سال کے اندر 26جنوری 1950ء کو اپنی قوم کو آئین کا تحفہ دے دیا تھا۔ لیکن پاکستان میں اپنی تھانیداری قائم رکھنے کے لئے اس وقت کے وڈیروں نے یہ انتہائی ضروری کام بظاہر ملکی مفاد میں نہیں ہونے دیا۔ اس کے بعد 1958ء میں جنرل ایوب خان نے 23 مارچ 1956ء کے آئین کو توڑتے ہوئے یہ تاثر دیا کہ نکمے سیاستدانوں اور اقتدار کے بھوکے بیورو کریٹس سے جان چھڑانے کے لئے آئین شکن کاروائی قومی مفاد میں انتہائی ضروری ہے۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد شیخ مجیب الرحمان کی فاتح جماعت کو اقتدار حوالے نہ کرنے کے جنرل یحییٰ خان کے فیصلے کے پیچھے بھی بظاہر ملکی مفاد کے تحفظ کی خودکش پالیسی کارفرما تھی۔ جس سے ملک بعد میں دو ٹکڑے ہو گیا اس کے بعد پاکستان میں سیاسی حکومتوں نے قابلِ فروخت سیاستدانوں کے چھانگا مانگا اور سوات میں ایسے سودے کئے جیسے منڈیوں میں بھیڑ بکریوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ اصولی سیاست اور اخلاقی اقدار کا بیڑہ غرق کر دیا گیا۔ صدیوں میں نصیب ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو جیسے بین الاقوامی سطح کے لیڈر کو پھانسی پر لٹکانے کے تباہ کن فیصلے کو قومی مفاد میں قرار دیا گیا۔ محمد خان جونیجو، نواز شریف، بینظیر بھٹو کی حکومتوں کو توڑنے اور ججز کو پابندِ سلاسل کرنے والے حاکموں نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر ہمیشہ پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا اور اپنی ذات کو پاکستان کے لئے ناگزیر سمجھا۔ پھر نواز شریف کو سزا دیا جانا اور عمران خان کو لے کر آنا، پھر پی ڈی ایم اور مسلم لیگ (ن) کو لے کر آنا بھی قومی مفاد کے نام پر کیا جاتا رہا ہے۔ این آر او کے تحت حکومت بنانے والی قوتوں نے بھی پوری قوم کو یہ تسلی دی کہ یہ سارے فیصلے بھی قومی مفاد میں کئے گئے ہیں۔ عوام کی ناقص عقل سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ قومی مفاد ہے کس بلا کا نام جو اتنی اکھاڑ پچھاڑ کے باوجود ابھی تک اپنے مفادات حاصل نہیں کر سکا۔ کبھی کسی نے سوچا ہے کہ ملکی مفاد کے نام پر کسی 15 فیصد مقبولیت والی حکومت کو حکومت دے دی جائے تو کیا وہ ملک چلا سکیں گے بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ کیا ایسی حکومت کو عوام چلنے دیں گے؟ ۔
کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ ہمارے یہاں سے ہر کوئی ملک چھوڑ کر کیوں جانا چاہتا ہے؟ کیوں کوئی یہاں رہنے پر آمادہ نہیں ہے؟ اس کی بنیادی وجہ ہماری معاشی، سماجی، سفارتی، مالیاتی اور عدل و انصاف کی تباہی ہے۔ ریاستوں کی کامیابی اور خوشحالی کا دارومدار مروجہ نظام سے زیادہ اقتدار پر قابض قیادت کے کردار، اصول پرستی، بہترین نظامِ عدل و احتساب پر ایمان اور اہلیت پر ہے۔پاکستان کو اگر ہم نے معاشی خوشحالی کی عظیم الشان منازل طے کر کے آسودگی کے آسمانوں تک پہنچانا ہے تو پھر اس کے لئے رختِ سفر مذکورہ بالا اوصاف ہی ہیں۔ جیسا کہ ہم نے حالیہ سالوں میں دیکھا ہے کہ دیانت دار قیادت کے ارد گرد کروڑوں لوگ عقیدت کے ساتھ اکٹھے ہو جاتے ہیں، جس کی بدولت وہ قومی سلامتی کے خلاف چلنے والے بڑے بڑے افلاطونوں کا بے جگری اور ہمت سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں عوامی طاقت کے 25 کروڑ چراغ ہیں جن کو بجھانا کسی طاقت کے بس میں نہیں۔ اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں صرف اور صرف عوامی حکومت ہونی چاہئے۔ ماضی کے تجربات سے ہم نے تلخ اسباق حاصل کئے ہیں ان کو دہرانا عاقبت نا اندیشی ہو گی۔ قومی مفاد کے نام پر اب بیووقوف بنانا چھوڑنا ہو گا۔
تبصرے بند ہیں.