خونی پتنگ بازی اور فیصل آباد پولیس

79

فیصل آباد میں گزشتہ کئی ماہ سے پتنگ بازی کا کھیل اپنے پورے عروج پر جاری ہے۔ یہ کیسی قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ ہر سال پتنگ بازی کے خونی کھیل کی وجہ سے بہت سے افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیںرواں برس بھی اب تک صوبہ بھر میں درجن سے زائد افراد اس بھیانک کھیل کی نذر ہو چکے ہیں لیکن نہ تو انتظامیہ موت کے اس کھیل کو روکنے میں کامیاب ہو سکی ہے اور نہ ہی کمیونٹی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتی دکھائی دی۔ کبھی پتنگ بازی بڑی دلچسپ تفریح ہوا کرتی تھی مگر دھاتی اور پلاسٹک کی ڈور نے اسے موت کا کھیل بنا دیا ہے۔ یہ ڈور کسی کے گلے پر پھرتی ہے تو چشمِ زدن وہ شخص موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کا اکثر مشاہدہ بھی ہوتا ہے کہ اس ڈور کا ایک سرا کہیں پھنسا ہو اور یہ آپ کے ہاتھ آ جائے تو باوجود پوری کوشش کے یہ ٹوٹتی نہیں ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک پتنگ بازی موسمِ بہار اور وہ بھی بسنت کے تہوار تک محدود تھی۔ بسنت ایک ایسا تہوار تھا جس میں امیر، متوسط اور غریب گھرانے اپنی اپنی مالی استعداد کے مطابق حصہ لیتے تھے۔ فروری کا مہینہ شروع ہوتے ہی بسنت کی تیاریاں شروع ہو جاتی تھیں۔ اسے عام لوگوں کی تفریح سمجھا جاتا تھا جس میں زیادہ جانی یا مالی نقصان کا شائبہ نہ تھا۔ لیکن جب سے خاص میٹریل سے تیار کی جانے والی قاتل ڈور سے پتنگ بازی کا رواج ہوا ہے یہ بے ضرر تفریح کے بجائے ایک جان لیوا کھیل بن چکی ہے اور اس سے ہونے والے جانی نقصانات نے اسے تہوار کے بجائے خون کی ہولی میں بدل دیا ہے۔ اس شوق کی تکمیل میں جہاں ہر سال اس موقع پربیسیوں انجان ہلاک ہو جاتے ہیں وہاں سیکڑوں افراد زخمی بھی ہو جاتے ہیں۔ راہ جاتے موٹر سائیکل سواروں کے گلے پر ڈور پھرنے یا راستوں پر چلتے پھرتے ٹانگیں اور بازو تڑوانے کی خبریں پچھلے کئی سال سے اخباروں میں تواتر سے پڑھتے ہیں جیسے کہ ایک بچہ چھت پر کھیل رہا تھا کہ اچانک کٹی پتنگ کی دھاتی ڈور آگری جس کا دوسرا سرا بجلی کی تار پر گرا ہوا تھا بچے نے ڈور پکڑی تو کرنٹ پڑنے سے جاں بحق ہو گیا، ایک بچی موٹر سائیکل کی ٹینکی پر بیٹھی اپنے والد کے ساتھ جا رہی کہ اچانک کٹی پتنگ کی ڈور بچی پر گری اور آناً فاناً اس کی گردن کٹ گئی۔ والد کو علم ہونے اور موٹر سائیکل رکنے تک اس کی شاہ رگ کٹ چکی تھی اور بچی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی، پتنگ لوٹتے ہوئے حادثات میں ہلاکتیں اور بسنت کے دوران خوشی میں ہوائی فائرنگ سے ہونے والی ہلاکتوں کی خبریں بھی اخباروں کی زینت بنتی رہتی ہیں۔یہ کیسی خونی تفریح ہے جو ایک انسان کو تفریح مہیا کر رہی ہے جب کہ دوسری طرف لوگوں کی جانیں لے رہی ہے۔ بسنت کے دوران کتنے لوگ ہلاک اور زخمی ہوتے ہیں اس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھنا تو بہت مشکل ہے۔ لیکن اس غیر اسلامی تفریح کے دوران جانی اور مالی کافی نقصان ہوتا ہے۔

اس جان لیوا کھیل پتنگ بازی کو جشنِ بہاراں کہہ کر اس کے حق میں جتنی بھی دلیلیں دی جائیں خوبصورت فیشن ایبل عورتیں اور مرد اسے جتنا بھی بے ضرر اور صرف خوشگوار موسم کو خوش آمدید کہنے کا ایک ذریعہ قرار دیں یہ حقیقت ہے کہ اس موقع پر ہونے والی پتنگ بازی، موسیقی کی محفلیں ، بھنگڑے، ناچ گانے، دھما چوکڑی، شور شرابہ، تیز میوزک اور خواتین کے فقرے بازی کسی طور درست قرار نہیں دی جا سکتی۔اس سے ملک کی سماجی و ثقافتی اقدار کی بے حرمتی ہوتی ہے نوجوان نسل عیش و عشرت اور ہلے گلے کی عادی ہو جاتی ہے۔مکانوں کی چھتوں پر اخلاقی اقدار کو پامال کرتے قوم کے نوجوانوں کا لچرپن حد سے بڑھ جاتا ہے جبکہ بہت سی معصوم عورتوں اور بچوں کو باپ، بھائی، بیٹے اور شوہر کی موت یا معذوری کی صورت میں حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگ پتنگ بازی کے دوران دھاتی تار استعمال کرتے ہیں جو پتنگ کٹنے یا گرنے کی صورت میں جب بجلی کی تاروں پر گرتی ہیں تو نہ صرف ٹرانسفارمر کو جلا ڈالتی ہیں بلکہ جگہ جگہ بجلی کے نظام کو بھی درہم برہم کر دیتی ہیں جس سے شہریوں کو الگ پریشانی ہوتی ہے واپڈا کو کروڑوں کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ بے ضرر کھیل چند افراد کی وجہ سے نہ صرف ایک قاتلانہ مشغلہ بن گیا ہے بلکہ قومی دولت کو بھی نقصان پہنچانے لگا ہے۔ایک بار پتنگ لوٹتے ہوئے لڑکے سے میں نے پوچھا کہ تم چند روپوں کی پتنگ کی خاطر اپنی جان کو کیوں مشکل میں ڈال رہے ہو تو اس نے کہا جو تسکین پتنگ لوٹ کر اڑانے میں ملتی ہے وہ پتنگ خرید کر نہیں۔

البیرونی اپنی مشہور تصنیف کتاب الہند میں لکھتے ہیں کہ ہندو بسنت کو عید کے طور پر مناتے تھے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں تو بسنت کو سرکاری تہوار کی حیثیت حاصل تھی۔ بسنت نہ صرف غیر اسلامی تہوار ہے بلکہ اس میں قومی وسائل کا زیاں بھی ہے اور اس میں جانوں کے تلف ہونے اور ہمیشہ کے لئے معذور ہونے کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ ہمارا بچہ بچہ مقروض ہے ہمارا ملک دیوالیہ پن کے قریب ہے ہم ملک بچانے کے بجائے کروڑوں روپے پتنگ بازی کی نذر کر دیتے ہیں۔ پنجاب میں پتنگ بازی پر قانوناً پابندی ہے لیکن سرِ عام اس قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ اس کی روک تھام کے لئے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو متحرک کردار ادا کرنا چاہئے اور ضلعی افسران اور متعلقہ تھانے کے کرتا دھرتاؤں سے اس سلسلے میں جواب طلبی کی جانی چاہئے۔ لوگوں نے تو اخلاقی تقاضوں کو خیال کرتے ہوئے اس خونیں کھیل سے باز نہیں آنا، قانونی کارروائی کا خوف شائد انہیں اس سے باز رکھ سکے۔

تبصرے بند ہیں.