6جج خود کٹہرے میں!

17
جناب عرفان صدیقی نے ثاقب نثار سے عمر عطا بندیال تک عدلیہ میں ’’نابغوں‘‘ کی نشاندہی کی تھی، تاہم ان کی رخصتی کے بعد عدلیہ کا دامن ایسے نایغہ جوہر وگواہر سے بالکل خالی نہیں ہوگیا۔ جس کی چغلی ان کے فیصلے اور ریمارکس کہہ رہے ہیں۔ بعض اتفاقات بھی عجیب ہوتے ہیں جس طرح نوازشریف کے خلاف کیس میں جسٹس (ر) اعجاز الاحسن ہوا کرتے تھے بالکل اسی طرح عمران نیازی سے متعلق کیس میں پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری عمر ایوب کے پھوپھی زاد جسٹس گل حسن اورنگ زیب بینچ کا حصہ ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کوئی قابل اعتراض عمل نہیں ہے سپریم کورٹ میں تین رکنی جج کمیٹی  بنچ تشکیل دیتی ہے میری سنی سنائی معلومات کے مطابق شاید اسلام آباد ہائی کورٹ میں یہ چیف جسٹس کا صوابدیدی اختیار ہے۔
بات اتفاقات کی ہو رہی ہے تو یہ  بھی اتفاق ہے اسلام آباد کے ایک کورٹ رپورٹر ’’کوکشف‘‘ ہوا کہ ’’لاوا پھٹ سکتا ہے‘‘ اور اگلے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط کا ’’لاوا‘‘ پھٹ گیا یہ بھی اتفاق ہے کہ یہ خط لکھا گیا تھا اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو اور سپریم جوڈیشل کونسل کو لیکن منظرعام پر آیا ہے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں یہ بھی اتفاق ہے اس وقت کی چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسلنے کوئی نوٹس نہیں لیا نہ ہی چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ہائی کورٹ کے چھ ججوں کو ان ناگفتہ بہ حالات سے بچانے کی کوشش کی ہیں کوئی عملی کردار اداکیا حالانکہ حالات کی سنگینی تو فوری مداخلت کی متقاضی تھی جب خفیہ ایجنسیوں کی دھمکیوں اور دباؤ کے نتیجے میں جج شدید بلڈپریشر کا شکار ہوکر ہسپتال میں داخل ہورہے ہوں۔ پی ٹی آئی رہنماؤں گوہر علی، عمرایوب کے بقول نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ ایک جج کو پتہ ہی نہ چلے کہ اس کے بچے کہاں ہیں۔ دوسرے جج کے بیٹے کا ولیمہ رکوادیا جائے۔ دباؤ کیلئے اسی خاموشی۔
ایک جج کے بہنوئی کو اغوا کرلیا جائے ایسے سنگین حالات پر توجہ نہ دے کر جسٹس بندیال نے اپنی برادری کے چھ ججوں کے ساتھ زیادتی نہیں کی بلکہ سفاکی کا مظاہرہ کیا ہے۔
یہ کہنا کہ ’’ان چھ ججوں کا ایک ساتھی پانچ سال انصاف کیلئے دھکے کھاتا رہا مگر یہ خاموش رہے ‘‘ یہ کہنا اس لئے درست نہیں ہے کہ یہ چھ جج جس طرح دھمکیوں اور دباؤکا شکار تھے ایسے میں وہ جرأت رندانہ کہاں سے لاتے کہ ایک ساتھی کے حق میں آواز بلند کرتے چلیں خفیہ ایجنسیوں کے جبر کے سامنے تو ان کی لب کشائی کی جرأت نہ ہوئی مگر اسی خاموشی سے جوڈیشل سپریم کونسل کو تو خط لکھا جاسکتا تھا کہ کسی انکوائری اور صفائی کا موقع دیئے بغیر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو برطرف کرنا انصاف نہیں ہے پھر جب اس فیصلے کے خلاف جسٹس شوکت عزیز صدیقی چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے سامنے فریادیں کرتے رہے حضور سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلہ کی عدالتی چھان پھٹک کی جائے تب بھی ان ججوں کو عمر عطا بندیال سے درخواست کرنے کی بھی توفیق نہ ہوئی کہ اس فیصلے کو بنیاد بناکر جسٹس صدیقی پر دباؤ ڈالنے والے خفیہ ایجنسیوں کے وابستگان کو کٹہرے میں لایا جائے ان چھ ججوں نے اپنے خط میں یہ اعتراف کیا ہے کہ ہرکوئی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرح بہادرنہیں ہوتا خود کو بزدل ہونے کا اعتراف کیا ہے یا ان دونوں کو ’’چڑھانے ‘‘ کی کوشش کی ہے کہ وہ خفیہ ایجنسیوں کے متعلقین سے ٹکرا جائیں۔
معاملے کا ایک غورطلب پہلو یہ ہے کہ یہ خط پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سے وائرل ہوکر منظر عام پر آیا اور پی ٹی آئی کے  رہنما اس طرح اس کے حق میں میدان میں کود پڑے جس طرح وہ پہلے سے بالکل تیار بیٹھے تھے دوسرا غورطلب پہلو یہ ہے کہ ان ججوں نے محض دھمکیوں اور دباؤ کا ذکر کیا یا الزام لگایا ہے شوکت عزیز صدیقی نے تو باقاعدہ راولپنڈی بار ایسوسی سے خطاب کرکے ڈی جی سی آئی ایس آئی میجر جنرل فیض حمید کا نام لے کر ساری بات کی تھی تب پی ٹی آئی کے انصاف کے علمبردار رہنماؤں ان کے حامی سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بیرسٹر صلاح الدین احمد، سپریم کورٹ بار کے سابق صدر عابد زبیری اور ان کے دیگر ساتھیوں کو یہ تشویش کیوں نہیں ہوئی کہ اگر عدلیہ میں مداخلت بند نہ کی گئی تو کل کو جج بننے کیلئے کوئی نہیں ملے گا۔ کیا محض  اس لئے کہ جس ’’تم گر‘‘ کا نام لیا جارہا اس کا نام لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید تھا ۔ یہ مطالبہ بالکل درست ہے ان ججوں کے خط کی انکوائری کیلئے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے ان  چھ ججوں کو اس میں طلب کیا جائے اور یہ چھ خفیہ ایجنسی کے ان افراد کی نشاندہی کریں جو ان ججوں کو دھمکیوں اور دباؤ کا شکار کرکے ان کی زندگیاں اجیرن بنائے ہوئے ہیں۔ اور ان کے پیش کردہ واقعاتی شواہد کی روشنی میں ان کے خلاف سپریم کورٹ خود کارروائی کرے یا ان کے کورٹ مارشل کی سفارش کی جائے۔ اور اگر یہ جج اپنے خط کے مندرجات کو ٹھوس ثبوتوں سے ثابت نہ کرسکیں تو پھر ان کے خلاف کذب کا مقدمہ قرین انصاف ہوگا ظاہر ہے ملزم ثابت نہ ہونے والوں کی ہتک عزت کا ازالہ بھی عین انصاف ہے۔
جیسا کہ اوپر اتفاقات کی بات ہوئی یہ بھی اتفاق ہے کہ یہ خط 9مئی کے ملزمان کو سزائیں سنائے جانے کے حتمی مرحلہ پر منظر عام پر لایا گیا جو بقول سنیٹر عرفان صدیقی انتظامیہ اور ایجنسیوں پر سوالات اٹھا کر ایک مخصوص جماعت کے سہولت کاروں کے کردار  کے مترادف ہے ، یہ سطور یہاں تک پہنچیں تھیں کہ خبر آگئی کہ وزیراعظم کی چیف جسٹس سے ملاقات میں طے پاگیا کہ ان چھ ججوں کے خط کی انکوائری کے لیے سابق سینئر جج کی سربراہی میں کمیشن بنایا جائے گا اس لئے اب اس معاملہ پر مزید اظہار خیال مناسب نہیں ہے البتہ وزیراعظم اور چیف جسٹس پاکستان سے اتنی التماس ضرور کہ کمیشن کی کارروائی اوپن کورٹ کی طرح ہونی چاہئے جیسا کہ قابل تحسین و تقلید مثال جناب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں نئی رسم ڈالی ہے اب جبکہ چھ ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ کر خود کر کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے تو ان کے ساتھ پورا انصاف ہونا چاہئے۔
جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کو بھی مبارک ہو ان چھ ججوں نے ان کے ساتھ زیادتی کی بھی تصدیق کردی لیکن یہ ایسے وقت کی گئی جب ان کی بحالی ناممکن ہو گئی ہے۔

 

تبصرے بند ہیں.