سروس ایکٹ کا نفاذ

58

ہمارے سرکاری اداروں کی کارکردگی کے بارے میں دو آراء نہیں پائی جاتی ہیں ایک رائے اور وہ بھی بڑی مستحکم ہے کہ ہمارے ادارے بالکل فارغ ہیں خاص طور پر ایسے ادارے جو عوامی فلاح و بہود اور خدمات کے لئے مختص کے گئے ہیں جیسے صحت و صفائی، تعلیم، سینی ٹیشن، وغیرہم کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے سرکار کروڑوں اربوں روپے عوام کی ایسی ضروریات کے لئے مختص کرتی ہے لیکن بہت سا روپیہ بد عنوانی کی نذر ہو جاتا ہے بچنے والا، اداروں کی بد انتظامی کا شکار ہو کر ضائع ہو جاتا ہے عوام کے مسائل ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں۔ ہم نے ایک عرصے سے اداروں پر نا اہل اہلکاروں کا بوجھ لادنا شروع کر رکھا ہے سیاسی بنیادوں پربھرتی کئے جانے والے افراد کی تعداد بڑھتے بڑھتے اداروں پر نا قابل برداشت ہو چکی ہے۔ کئی ایک قومی ادارے جیسے ریلویز، پی آئی اے، سٹیل ملز، واپڈا و دیگر اپنے ہی بوجھ تلے دب چکے ہیں یہ ادارے کا روباری بنیادوں پر قائم کئے گئے تھے نفع اندوزی کے لئے قائم کردہ یہ ادارے اپنی زندگی کے لئے حکومت سے اربوں روپے سالانہ کی امداد کے طالب ہو چکے ہیں۔ ان اداروں کے اثاثہ جات دیکھیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں اربوں نہیں کھربوں روپے کے اثاثہ جات رکھنے کے باوجود اگر یہ ادارے سرکاری خیرات کے مستحق ہو چکے ہیں تو ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیا یہ سب کچھ اچانک کسی حادثے کے نتیجے میں ہوایاایک عرصہ صرف ہوا؟ وہ کون کون سے عوامل تھے جو ان اداروں بلکہ سرکاری اداروں کی ناکارکر دگی کا باعث بنے۔ پاکستان اس وقت شدید معاشی بدحالی کا شکار ہے ہمیں ایک ایک ڈالر کے حصول کے لئے نہ صرف قومی حمیت بلکہ ہر شے داؤ پر لگانا پڑ رہی ہے کسے معلوم نہیں ہے کہ عوام شدید نہیں بلکہ شدید ترین بد حالی کا شکار ہو چکے ہیں بجلی گیس اور پٹرولیم کے۔
ناقابل برداشت نرخوں کے باعث نہ صرف اشیاء خوردونوش کا حصول عوام کی پہنچ سے دور ہو چکا ہے بلکہ صنعتی پہیہ بھی جام ہو گیا ہے سرمایہ کاری کسی طور بھی نفع آور نہیں رہی ہے غیر ملکی سرمایہ کاری تو مدت ہوئی منجمد ہو چکی ہے لوکل سرمایہ کاروں نے بھی روپیہ سونے اور رئیل اسٹیٹ میں ڈمپ کر دیا ہے ظاہر ہے ایسا کرنا کسی طور بھی نفع آور نہیں ہے کئی غیر ملکی ادارے اپنے اپنے پراجیکٹ وائنڈا پ کر کے سرمایہ واپس لے جا چکے ہیں سرمایہ داروں اور سرمایہ کاروں کے لئے ماحول یکسرناقابل قبول ہو چکا ہے۔ ایسے میں سرکاری پالیسی طے کی جا چکی ہے کہ غیر منافع بخش سرکاری اداروں کی نجکاری کے ذریعے ان سے جان چھڑا لی جائے۔ شہباز شریف کی زیر قیادت 16 ماہی اتحادی حکومت نے معاملات کو ایک ڈگر پر چلایا۔ سپیشل انوسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل نے معاملات کو مستحکم بنیادوں پر چلانے کی راہیں نکالیں۔ کیئر ٹیکر حکومت بھی انہی پالیسوں کو لے کر آگے بڑھتی رہی اور اب شہباز شریف کی منتخب حکومت انہی پالیسوں کے مطابق معاشی معاملات کو آگے بڑھانے کے لئے پر عزم نظر آ ہی ہے۔
ہم نے طے کر لیا ہے کہ ہم آئی ایم ایف اور دیگر عالمی زری اداروں کے تعاون سے انہی کی ہدایات و احکامات کے مطابق اپنی ڈوبتی ہوئی معیشت کو ریسکیو کریں گے اس بارے میں حتمی معاملات طے پا چکے ہیں ہم پہلے سے جاری معاہدہ بھی مکمل کریں گے اور آئندہ تین سالہ بیل آؤٹ پلان بھی لیں گے گویا جاری معاشی حکمت عملی ہی ہماری رہنما و رہبر ہو گی۔ نجکاری کے ذریعے قومی خزانے پر بوجھ بننے والے ریاستی ادارے فروخت کے لئے پیش کر دئے جائیں گے اس حوالے سے نگران دور حکمرانی کے دوران جو ہوم ورک کیا گیا اسی کی بنیادوں پر معاملات حتمی صورت اختیار کریں گے۔ پیپلز پارٹی نظری و عملی طور پر نجکاری کے خلاف ہے گویا پیپلز پارٹی، موجودہ حکومت کی نجکاری کی کاوشوں کو سپورٹ نہیں کرے گی کیا اس طرح یہ معاملات مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں دوسری طرف حکومت سروس ایکٹ کے تحت ملازمین کی تنظیم سازی و غیرہ کی سر گرمیوں پر پابندی لگانے کا سوچ رہی ہے بادی النظر میں ایسا کرنا کسی حکمت عملی کا نتیجہ نظر نہیں آتا ہے۔ ہم جمہوری دور میں رہ رہے ہیں ہمارا طرز حکمرانی بظاہر جمہوری ہے اقوام عالم میں ہماری پہچان بھی ایک جمہوری مملکت کے طور پر ہوتی ہے عالمی زری و مالیاتی ادارے ہمیں ایک جمہوری مملکت کے طور پر لیتے ہیں۔ تنظیم سازی کا حق، ملازمین کا ہرتال کرنے کا حق، اپنے مطالبات کے لئے آواز اٹھانے کا حق، یہ تمام حقوق بنیادی انسانی و شہری حقوق کے زمرے میں آتے ہیں۔ جمہوری ریاست ایسے حقوق کی نگہبان ہے پھر ایک جمہوری حکومت ان حقوق کو سلب کرنے کے بارے میں کیسے سوچ سکتی ہے پابندی لگانے اور ریگولیٹ کرنے یعنی قانون کے دائرے میں لانے میں فرق ہے جس طرح تنظیم سازی ہڑتال اور حقوق کے لئے آواز اٹھانا ملازمین کا حق ہے بالکل اسی طرح معاملات کو قانون کے دائرے میں رکھنے کی کاوشیں کرنا یعنی ریگولیٹ کرنا حکومت کا حق ہے دونوں کے درمیان یعنی حکومت کے فرائض اور رعایا کے حقوق کے مابین توازن ہی جمہوری معاشرے کی خوبصورتی ہوتی ہے یہاں ایک بات سمجھنا ضروری ہے کہ اہلکار سرکاری عمال سرکاری خزانے سے تنخوا لیتے ہیں۔ اس لئے وصول نہیں کرتے کہ وہ سارا دن بیٹھ کر حکومت کی ناکامی کی پیش گوئیاں کرتے رہیں سوشل میڈیا پر بیٹھ کر اپنی من پسند پارٹی کی تعلقات عام کی مہم جوئی میں مشغول رہیں۔ مخالف پارٹی پر دشنام کے ڈونگرے برساتے رہیں۔ سرکاری محکمے یا حکومتی شعبے آپ غیر سیاسی یا اے پولیٹیکل ہوتا ہے یعنی ہونا چاہئے کیونکہ حکومتی ادارے عوام کے لئے ہوتے ہیں افسران عوام کے نوکر اور اہلکار ان کے خادم سمجھے جاتے ہیں اسلئے انہیں ایسے پولیٹیکل یا غیرسیاسی ہونا چاہئے حکومتیں آنی جانی ہوتی ہیں لیکن حکومتی سیٹ اپ، ادارے، عمال، اہلکار، افسران و غیر ہم ریاست کے وفادار اور عوام کے خادم ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سرکاری ملازمین پر سیاسی سرگرمیوں کے لئے پابندی ہوتی ہے۔ ہم جس بدحالی اور بد گمانی کے دور سے گزر رہے ہیں ہمارے سرکاری محکموں میں پائی جانے والی اور سیاسی کش مکش کا خاتمہ ضروری ہے سروس ایکٹ کو حقیقی سپرٹ کے ساتھ لاگو کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

تبصرے بند ہیں.