ملکی صورتحال میں اس وقت کچھ ٹھہراؤ آیا ہے بزرگان سیاست رمضان اور اسمبلیوں کی اٹھک بیٹھک سے کچھ فراغت کرکے ماہ صیام سے فیضیاب ہورہے ہیں۔ بہت سے تو اعتکاف میں بھی بیٹھ جائیں گے مزیدسکون آجائے گا۔
یہ سچ ہے کہ تجربہ کارسیاست دان اگر پس حکومت بیٹھے ہوں اور قدرے چالیس پچاس سال کے لوگوں کو موقع دیا جائے تو پرفامنس بڑھ جاتی ہے تجربہ اور انرجی کا کمبنیشن ملکی ترقی کا باعث بنتا ہے جسے صدرزرداری صاحب کو دیکھ کے یہی لگتا ہے کہ ان کو گلوکوز کی ڈرپس لگوا کر آرام کرنا چاہئے ۔ مولانافضل الرحمن کو بھی حدودوقیود کا اندازہ ہو چلا ہے۔ باقی گنڈاپور صاحب بھی آن کروزیراعظم سے مل چکے ہیں، ریموٹ کنٹرول کی طاقتیں مسلم ہیں اور ہونی بھی چاہئیں وگرنہ اگر سیاست دان کھلے چھوڑ دیئے جائیں تو 9مئی والی صورتحال بن جاتی ہے۔
اسلام آباد کے ٹھنڈ ٹھنڈولے کے بعد اب اگر پنجاب کی طرف دیکھیں تو پہلی مرتبہ خاتون وزیراعلیٰ بجائے خود ایک سافت امیج کے علاوہ ازیں مسلم لیگ ن کی Rigid Tag سے رہائی بھی میاں نواز شریف نے مریم نواز کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے نہ صرف خواتین برادری کا اعتبار بحال کیا ہے بلکہ مسلم لیگ سے Male Dominate Party کا لقب بھی ہٹایا ہے بھٹو صاحب نے یہ سٹیپ بہت پہلے اٹھا کر سندھ کوموڈریٹ کرلیا تھا ۔۔۔ مریم نواز کی مختصر دنوں کی کارکردگی میں یہ نظر آتا ہے کہ پہلے تووہ عوام اورخواص کا فرق مٹانا چاہتی ہیں سکیورٹی کو چھوڑ کرسکولوں ہسپتالوں بازاروں جیلوں میں ان کا گھل مل جانا اس بات کا غماز ہے کہ وہ پنجاب کی بیٹی ہیں پنجاب ہی میں پلی بڑھی ہیں۔ اس لیے انہیں پنجابیوں میں گھومنے پھرنے سے کوئی نہیں روک سکتا لاہور اس کا علاقہ ہے جسے ان کے والد اور چچا نے بہت محبت سے سنوارہ ہے یہ لوگ خاندانی طورپر مذہبی سماجی اقدار والے ہیں، مریم نواز مشرقی لباس میں آنچل کی لاج تھامے ہرکام کو جب ممکن کررہی ہیں تو یہ So Called ماڈرن لوگوں کیلئے ایک لمحہ فکریہ بھی ہے کہ کس طرح ایک اسلامی شعار کی بچوں والی خاتون گھر اور حکومت شاندار طریقے سے چلا رہی ہے۔
انہی دنوں انہوں نے کوٹ لکھپت جیل میں اسیروں کے ہمراہ افطاری کی اپوزیشن بھلے اسے ڈرامہ سمجھے مگر محبت کو اداکاری کی ضرورت نہیں ہوتی ہمارا ازلی روایات میں یہ شامل ہے کہ خود افطاری سے قبل ہم دسترخوان پر بیٹھے دوسروں کی طرف نعمتوں کے تھال بڑھاتے ہیں۔ اسیر خواتین کو اچھا لگا کہ پنجاب کی وزیراعلیٰ انہیں اپنے ہاتھوں سے لوازمات ’’سرو‘‘کررہی تھیں وہ خود کوخادمہ وزیراعلیٰ کہتی ہیں۔
کڑی دھوپ میں روزے عالم میں رمضان بازاروں کو چیک کرنا بزرگوں کی الگ لائین بنوانا عورتوں کا خیال کرنا خاندانی تربیت کا ہی خاصہ ہے۔
اتالیق بھی اگر سوبر دیانت داراور خاموش طبع ہو تو اس کو پرویز رشید کہتے ہیں۔ محترمہ کے ساتھ پرویز رشیدکاساتھ بہترین مشوروں اور میاں نوازشریف کی پالیسیوں کے قریب ترین ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ مہنگائی کا جن ایک دم قابو نہیں کیا جاسکتا مگر دن رات انتظامیہ اس کارخیر میں جت گئی ہے کہ کسی طرح کنٹرول کیا جائے؟ تمام اے سیز ڈی سی اور کمشنرزبازاروں کو چیک کررہے ہیں لوگوں کی پیدائش طمع اور مال تجارت میں بے ایمانی کو ختم کرنے کیلئے تو پورے ’’جینز‘‘ ہی تبدیل کرنا ہوں گے مگر انتظامیہ کی مستعدی اور مریم نواز کی کڑی نگرانی حالات کو قابو ضرور کرلے گی۔
وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری مستعدی سے معاملات کو دیکھ رہی ہیں وہ پہلے بھی اطلاعات وثقافت کی پارلیمانی سیکرٹری رہی ہیں ان کا میڈیا مینجمنٹ شاندار ہے ان کی قربت سے وزیراعلیٰ مستفید ہوں گی۔ ذہین وفطین خاتون ہونے کے علاوہ ان کا دبنگ ہونا صوبے کی خواتین کیلئے قابل فخر ہے۔
نگہبان پروگرام جس میں اناج لوگوں کی دہلیز تک پہنچایا جارہا ہے اس میں محض اناج کی فراہمی ہی مسئلہ نہیں بلکہ جس طریقے سے لوگوں کی عزت نفس کا خیال کیا گیا ہے قابل دادہے۔
یہ سچ ہے کہ لوگ دان پن کرتے ہیں لیکن اس میں کہیں کہیں تحقیر کا پہلو بھی ہوتا ہے مگر ایسی سوچ کسی خاتون حکمران ہی کی ہوسکتی تھی کہ وہ مدد میں لوگوں عزت نفس کو ملحوظ رکھے یہ ایک انتہائی مشکل پروگرام تھا اتنے زیادہ لوگوں کے ڈیٹا حاصل کرناجیسا کہ ہم جانتے ہیں کرائے پر رہنا مستقل پتہ نہ ہونا اور زندگی کی مشکلات سے بوچتے ہوئے نقل مکانی کرتے ہوئے لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مدد ان تک پہنچانا کوئی آسان کام نہیں تھا پھر بارکوٹ کی مدد سے تصدیق محض الزامات سے بچنے کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کا حق ان تک پہنچنے کیلئے ہے۔
لوگوں میں غربت مہنگائی اور نامساعد حالات میں بچوں کی پرورش بہت مشکل مراحل ہوتے ہیں مگر جو سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے وہ عزت نفس پر ہمیشہ کیلئے ایک احساس کمتری ہے جو نسلوں کو متاثر کرتا ہے۔
خان کے بگاڑے ہوئے چارسالوں کا نقصان دہائیوں کو ادا کرنا پڑ رہا ہے دو بجے اٹھ کر ہیلی کاپٹر پر دفتر آنے والے اس بندے نے صرف باتیں کیں۔ مستقبل کے خواب دکھائے نوجوان نسل تباہ کی اخلاقی قدروں کا بیڑہ غرق کرکے جب دل نہ بھرا تو ایسا بدتمیزی والا کلچر روشناس کروایا جس کے اثرات مٹنے میں نہیں آرہے۔
شاید ارکان حکومت کو حیرت ہو کہ بدتمیزی کہاں تک سفر کرتی ہے حتیٰ کہ ہمارے اردو ادب کو بھی متاثر کیا اور شاعری میں بھی بولڈ بیہودہ اور سستے الفاظ کا اضافہ ہوا لوگ اپنی ڈگر سے ہٹ کر ارزاں شاعری کرنے لگے۔
شکریہ کہ یہ بندہ ایک ہی تھا باقی تمام سیاست دانوں کو اپنی عزت کا بھی خیال ہے اورلوگوں کی بھی کس خاندانی بندے کیلئے آسان نہیں ہوتا کہ وہ غصہ میں بھی اپنی روایتی رواداری اور خاندانی پن کو چھوڑ کر عریاں ہوجائے الحمد للہ سیاست کے سینے میں دل بھی واپس آچکا اور زبان بھی ادب کے دائرے میں۔
تبصرے بند ہیں.