زرخیز زمینیں ہاؤسنگ سوسائٹیز کی نزر

62

گزشتہ چند دہائیوں سے پاکستان میں لوگوں کی دیہات سے شہروں کی طرف ہجرت کا عمل بے حد تیز ہو گیا ہے اور ساتھ ہی شہروں کے بے محابا پھیلاؤ نے ماحولیات اور انسانی آبادیوں پر اس کے اثرات کو ایک گمبھیر مسئلہ بنا دیا ہے۔ شہروں میں رہائشی سہولیات کی طلب بڑھنے سے نئی نئی ہاؤسنگ کالونیاں قائم کی جا رہی ہیں۔ چونکہ انویسٹرز کو اس میں کافی منافع نظر آ رہا ہے اس لیے شہروں کے نزدیک آئے روز قابلِ کاشت زرخیز رقبوں کو پلاٹوں میں تقسیم کر کے فروخت کر دیا جاتا ہے۔ زیادہ تر پلاٹ بڑے بڑے انویسٹر سرمایہ کاری کے نقطہ نظر سے خرید لیتے ہیں۔ ظاہر ہے انہوں نے گھر تو وہاں بنانے نہیں ہوتے، انہوں نے منافع کما کر بیچ دینا ہوتا ہے۔ اس کا یہ نقصان ہو رہا ہے کہ کئی کئی دہائیاں پہلے کی کاٹی گئی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ابھی تک بھی گھروں سے خالی ہیں جب کہ آئے روز نئی نئی ہاؤسنگ کالونیاں بھی زرعی زمینوں پر شروع کر دی جاتی ہیں۔ لاہور سے شیخوپورہ، لاہور سے رائے ونڈ، لاہور سے مریدکے یا پھر ملتان روڈ پر کہیں دور نکل جائیں ان سڑکوں پر دور دور تک ہاؤسنگ سوسائٹیز پھیلی ہوئی ہیں جہاں صرف چند پلاٹس پر ہی گھر بنے ہوتے ہیں اور باقی ایسے ہی آبادکاروں کی راہ تک رہے ہوتے ہیں، جب کہ آبادی کے تیزی سے بڑھنے سے غذائی ضروریات کی طلب میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے لیکن زیرِ کاشت رقبہ کم ہوتا جا رہا ہے۔

انتہائی تیزی سے ہوتی صنعتی ترقی اور برق رفتار ذرائع نقل و حمل کے نتیجے میں انسانی آبادیوں کی شہروں کی طرف منتقلی کا عمل اتنی تیزی سے وقوع پذیر ہو رہا ہے کہ ماحولیاتی توازن کو کنٹرول میں رکھنا نا ممکن نظر آتا ہے۔ ابتدا میں یورپ، امریکا اور سابق سوویت یونین میں صنعتی انقلاب کے نتیجے میں جو ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہوئیں ان کے بارے میں کوئی پیش بینی نہیں کی جا سکتی تھی کیونکہ اس وقت انسانی علم اور ماحولیاتی توازن رکھنے کے نظام نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ ماحولیات اور خود انسانی صحت پر صنعتی ترقی کے اثرات کو سمجھا جا سکے۔ اس کے باوجود صنعتی انقلاب کے ابتدائی دور میں بیشتر یورپی ممالک میں شروع ہی میں ترسیلِ آب اور سیوریج کے ساتھ ساتھ عمارت سازی سے متعلق قوانین وضع کر لیے گئے جس کے بلاشبہ شہری آبادیوں پر نہایت خوشگوار اثرات مرتب ہوئے۔ انیسویں صدی کے یورپی اور امریکی شہروں میں تعمیرات، سیوریج اور مزدوروں کے بنیادی حقوق سے متعلق بروقت قوانین نے عوام الناس کو غیر صحت مند طرزِ زندگی، آلودہ پانی اور فضائی آلودگی جیسے مسائل سے نجات دلا دی ہے حالانکہ اس زمانے میں اس قسم کے مسائل وہاں بھی عام تھے۔ غالباً یہ بروقت اقدامات اس لیے بھی کیے جا سکے کیونکہ اس وقت ہونے والی معاشی و صنعتی ترقی ایک جانی پہچانی رفتار سے وقوع پذیر ہو رہی تھی تاہم آج دن بہ دن ہوتی تبدیلیوں کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ بڑے شہروں کا ماحولیاتی نظام تباہ و برباد ہو کر رہ گیا ہے۔ نظر یہی آتا ہے کہ دورِ جدید کے شہر ماضی کے صاف ستھرے شہروں میں کیے گئے اقدامات سے کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں، یہی حال ہمارے ہاں ہے۔ وطنِ عزیز میں قدرتی ماحول شہروں میں کم ہی نظر آتا ہے لیکن ماضی میں انسان اپنا تعمیر کردہ ماحول مثلاً پل، سڑک، عمارتیں اور ڈیم وغیرہ اسی نکتے کو ذہن میں رکھ کر ہی بناتا تھا کہ وہ ممکنہ حد تک ماحول دوست ثابت ہوں۔ درحقیقت اس قسم کے ماحول کو جو انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں وجود آئے انسان کا تعمیر کردہ ماحول قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ تعمیر کردہ ماحول انسانی صحت پر براہِ راست اثرات تو مرتب کرتا ہی ہے لیکن قدرتی ماحولیات سے چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں انسانوں پر بالواسطہ اثر بھی ڈالتا ہے۔ اس تعمیر کردہ ماحول سے متعلق صحتِ عامہ کے مسائل کا تعلق ترسیلِ آب و سیوریج سسٹم، طرزِ تعمیر کے ساتھ ساتھ صنعتی علاقوں سے دوری یا نزدیکی پر بھی ہے۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ شہروں کی تعمیراتی ساخت غیر صحت مند طرزِ زندگی، موٹاپے اور دل کی بیماریوں کا سبب ہو سکتی ہے۔ آمد و رفت کے ذرائع، صحت بخش غذا کے استعمال کے امکانات اور تفریحی مقامات کی موجودگی شہروں میں بسنے والوں کی صحت کا تعین کرتی ہے۔ اس طرح یہ کہنا بجا ہو گا کہ شہروں کا طرزِ تعمیر چہل قدمی کی عادت اور صحت مند طرزِ زندگی کی حوصلہ افزائی یا حوصلہ شکنی کا سبب بنتا ہے، جب کہ تفریحی مقامات تک آسان رسائی، ورزش اور چہل قدمی کی عادت ڈالنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ بڑے بڑے شہروں میں آبادی کا حجم اور اس کے بڑھنے کی رفتار، شہر کی تعمیراتی ساخت کے ساتھ مل کر ماحولیات سے متعلق پیچیدہ خطرات کو جنم دیتی ہے۔ اگر صحت کے لیے نقصان دہ طبعی و کیمیائی عوامل، دیہی ماحول میں بھی موجود ہو سکتے ہیں مگر شہری ماحول میں ان کا حجم کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ خود آبادی کی زیادتی بھی اپنے اندر طرح طرح کے خطرات لئے ہوتی ہے، جن میں صاف پانی تک رسائی، سیوریج کا نظام اور فضائی آلودگی قابلِ ذکر ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پیداواری ذرائع بڑھتی آبادی کا ساتھ دینے سے قاصر رہ جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں شہری زندگی ماحولیاتی اور سماجی مسائل کے باعث مفلوج ہو جاتی ہے۔ کراچی شہر کی آبادی جو 1947ء میں 5لاکھ تھی گزشتہ 75 برس میں تقریباً دو کروڑ سے زائد ہو چکی ہے اور یہ واضح ہے کہ کس طرح یہاں وسائل آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی رہ گئے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے دیگر شہروں لاہور، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی میں بالعموم یہی صورتحال نظر آ رہی ہے کہ آبادی کے بے محابا پھیلاؤ  نے انسانی تدابیر اور منصوبہ بندی کو ناکام و بے بس بنا کر رکھ دیا ہے اور اس کا قدرتی نتیجہ ماحول کی تباہی کی صورت سامنے آیا ہے۔ بد قسمتی سے ایسا نظر آتا ہے کہ بڑے شہروں میں آبادی میں اضافہ اس قدر تیزی سے ہو رہا ہے کہ ایسی منصوبہ بندی کا وقت نہیں مل پا رہا ہے کہ جو آبادی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی مسائل کو بھی حل کر سکے۔ شہری منصوبہ بندی کے فقدان کا نتیجہ شہروں کے موجودہ خدو خال ہیں جو نہ صرف ماحولیاتی مسائل بلکہ صحتِ عامہ سے متعلق بے شمار معاملات کا بھی سبب ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر منصوبہ بندی کے بغیر ہی شہر پھیلتے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ دہائیوں میں شہروں کے حجم اور آبادی میں کچھ اس طرح اضافہ ہوا ہے کہ ان کے اصل چہرے ہی بدل گئے ہیں۔ کراچی، لاہور، فیصل آباد اور اس طرح کے دیگر بڑے شہر اپنے چاروں اطراف قریبی قصبوں سے ملتے چلے گئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی اربابِ اختیار ایسی منصوبہ بندی کریں جس سے زرخیز زمینوں کو ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے بچایا جا سکے اور بڑے شہروں پر آبادی کے دباؤ کو روکا جا سکے۔

زرعی رقبے کے رہائشی منصوبے میں استعمال کو روکنے کے لیے نئی حکمتِ عملی مرتب کی جانی چاہئے اس کے لیے یا تو بلند و بالا عمارتیں تعمیر کی جائیں یا پھر ایسے علاقوں میں شہر بسائے جائیں جہاں ایک تو زمین زیادہ زرخیز نہیں یا کچھ دیگر وجوہات کی بنا پر وہاں زمین زرعی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہو پا رہی ہے، وہاں ایسا انفراسٹرکچر مہیا کیا جائے جو صنعتی ترقی میں معاون ہو اس طرح ان علاقوں میں روزگار ملے گا اور کراچی، لاہور، ملتان، حیدرآباد، پشاور، فیصل آباد وغیرہ جیسے شہروں پر آبادی کا دباؤ روکنے میں مددگار ہو گا، ساتھ ساتھ زرخیز زرعی زمین اناج اگانے کے لئے دستیاب ہو سکے گی۔

تبصرے بند ہیں.