سندھ (ن) لیگ، شکست فاتحانہ!

53

سندھ کے انتخابی منظرنامہ پر نظر ڈالی جائے تو بلاشبہ (ن) لیگ انتخابی کارکردگی کا قابل ذکر مظاہرہ نہیں کرسکی ہے۔ اور مجموعی طور پر ناکامی سے دوچار ہوئی ہے لیکن ایک خاص پہلو سے جائزہ لیا جائے تو اسے ”شکست فاش“ نہیں، بلکہ ”شکست فاتحانہ“ قراردیا جا سکتا ہے اور صرف ان پندرہ برسوں پر نظر ڈالی جائے جو سندھ میں پیپلزپارٹی کے اقتدار کاعرصہ گنا جاتا ہے اس دوران (ن) لیگ کی جماعتی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہیں۔ نہ جانے کس مصلحت کے تحت (ن) لیگ کی قیادت نے سندھ کو اپنی بھرپور سیاسی سرگرمیوں کے دائرہ سے باہر رکھا اس کے باوجود سندھ کے چھوٹے چھوٹے گوٹھوں (دیہات) میں (ن) لیگ کے نام لیواؤں کا نظر آنا باعث تعجب ہے جس کی تفصیل 24 اکتوبر 2023ء کے کالم میں”سندھ (ن) لیگ، حیران کن پذیرائی“ کے عنوان سے دی جا چکی ہے، 8فروری کے الیکشن میں بھی سندھ کے حوالے سے (ن) لیگ کی قیادت کا یہی رویہ رہا ہے (ن)لیگ کے امیدواروں کی انتخابی مہم میں کسی قابل ذکر لیڈر نے حصہ نہیں لیا پورے سندھ میں (ن) لیگ کے امیدواروں نے انتخابی مہم اپنے طور پر چلائی اگرچہ وہ انتخابی کامیابی نہیں سمیٹ سکے پھر بھی میرے نزدیک یہ شکست اس لیے ”شکست فاتحانہ“ ہے، تقریباً ان سب نے پہلی بار الیکشن لڑا اور حاصل شدہ ووٹوں کے اعتبار سے دوسری پوزیشن حاصل کی ان میں سے کسی ایک کی بھی ضمانت ضبط نہیں ہوئی جبکہ ان کا مقابلہ سندھ میں برسوں سے جڑیں اور بالخصوص انتظامیہ میں حمایت رکھنے اور اندرون سندھ وڈیروں کے ذریعہ مضبوط گرفت رکھنے والی پیپلز پارٹی سے رہا ان تمام کو پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی جانب سے پولنگ سٹیشنوں پر زور زبردستی پولنگ سٹاف کی جانب سے واضح جانبداری کی شکایات بھی ہیں۔ (ن) لیگ کے چند امیدواروں کی جانب سے اس حسرت آمیز شکوہ بھی سننے کو ملا کہ اگر میاں نوازشریف اور مریم نواز شریف سندھ کا ایک دورہ بھی کرلیتے تو صورتحال بہت بدل سکتی تھی۔

اس سب کے باوجود (ن ) لیگ کی پذیرائی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ قیام پاکستان سے بھی پہلے علاقے میں سیاسی جڑیں رکھنے والے مخدوم خاندان کے اہم فرد مخدوم جمیل الزمان نے ایک لاکھ 24ہزار 5سو 36ووٹوں کے مقابلے (ن) لیگ کے سیاست میں نو وارد بشیر میمن نے 80ہزار 4سو 39ووٹ حاصل کیے یہ ان کا زندگی میں پہلا الیکشن ہے، اسی طرح دوسرے (ن) لیگی امیدواروں کے ووٹوں کی شرح بھی بہتر رہی۔

درج بالا حقائق کی روشنی میں (ن) لیگ کی قیادت اگر سندھ میں جماعتی جڑیں مضبوط کرنا چاہتی ہے تو سندھ کے حوالے سے رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ اور آصف زرداری کو سندھ میں ”فری ہینڈ“ دینے کے تاثر کو ختم کرنا ہوگا۔ اس کے برعکس اگر بلاول پنجاب میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی عملی جدوجہد شروع کرچکا ہے تو مریم کو بھی سندھ پر توجہ مرتکز کرنی چاہئے۔ (ن ) لیگ کے تمام امیدواروں سے مسلسل رابطے اور انہیں جماعتی ذمہ داریاں دے کر حوصلہ افزائی کرنی چاہئے تاکہ وہ آئندہ بھی فعال رہیں اور پارٹی کے سیاسی اثر ورسوخ میں اضافے کا ذریعہ بنیں۔ ان امیدواروں نے الیکشن میں مجموعی طور پر جو کروڑوں روپے خرچ کئے ہیں اس سے اگر ذات کو فائدہ نہیں ہوا تو جماعت کو فائدہ ہونا چاہئے۔ دوسرے میڈیا سیل کو مضبوط کرنے اور میڈیا سے وابستہ افراد سے بلاجواز خود پیدا کردہ فاصلوں کو بھی ختم کرنا چاہئے۔ یہ سمجھ لینا کہ ہمارے بہترین ترقیاتی اقدامات ہی عوامی حمایت کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں، کافی نہیں ہے (ن) لیگ کی قیادت کا صنعت وتجارت سے تعلق ہے اس کا یہ سمجھنا آسان ہونا چاہئے کہ پروڈکشن کتنی ہی زبردست کیوں نہ ہو تجربہ کار سیلز مینوں کے ذریعہ ہی کامیاب ہو سکتی ہے یاد رہے عمران نے پونے چارسال ذرہ بھر کام نہیں کیا نہ ہی مہنگائی کم کی بلکہ نوازشریف دور میں 52 روپے کلو چینی ایک سو دس میں 35روپے کلو آٹا 80,75 روپے، چارروپے میں ملنے والی روٹی پندرہ سے بیس روپے اسی طرح پٹرول، دیگر اشیاء خوردونوش، ڈالر کی یہی صورت رہی اس کے باوجود اس کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے اس کی واحد وجہ سوشل میڈیا پر بھرپور اندازسے جارحانہ مہم ہے، عمران نے بحیثیت وزیراعظم جو کام بلا تعطل کیا وہ ہر روز صبح گیارہ بجے بنی گالہ میں میڈیا سیل سے وابستہ نوجوانوں (بشمول لڑکیاں) سے ملاقات اور انہیں ”آج کے روز“ کیلئے لائین دینا تھا، جسے جھوٹ غیر اخلاقی کچھ بھی نام دیا جائے عمران کو اس کے برعکس (ن) لیگ کا میڈیا سے رویہ آج سے نہیں برسوں سے ”نولفٹ“ والا رہا ہے اس کا اندازہ 20 جنوری 1990ء کو ”(ن) لیگ کی میڈیا مس مینجمنٹ” کے عنوان سے میرے کالم سے لگایا جا سکتا ہے۔ جس کا ایک اقتباس نذر قارئین ہے۔

پریس کانفرنس کرنے والا کسی درجے کا لیڈر، کارکن یا متاثرہ شخص صحافیوں کی جانب سے ”شروع کرو جی، دیر ہو گئی ہے“ کے بار بار اصرار کے باوجود ”یس جی ذرا ایک منٹ“ کے ذریعہ طوالت کی کوشش کرتا ہے جب تک تمام میڈیا سینز کے پہنچنے کا اطمینان نہ ہو جائے۔ کیا حیرت نہ ہونی چاہئے وقت نیوز اور نوائے وقت جیسے ذرائع ابلاغ جن پر وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات شیری رحمن تک یہ گمان رکھتی ہیں کہ وہ میاں نوازشریف اور (ن) لیگ کو زیادہ کوریج دیتے ہیں۔ میاں نوازشریف کے میڈیا منیجر ان کی غیرموجودگی سے کیسے بے نیاز رہے، میاں نوازشریف کے ترجمان کی وضاحت سے ممکن ہے جناب مجید نظامی مطمین ہوگئے ہوں لیکن کوچہ صحافت کے ایک بے نام راہ نوردکی حیثیت میں اس عاجز کو یہ وضاحت ہضم نہیں ہو رہی، احسن اقبال نے فرمایا ”بیرونی گیٹ پر متعین سکیورٹی گارڈز کے پاس میڈیا والوں کی جو فہرست تھی اس میں وقت نیوز کا نام نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے وقت نیوز کی ٹیم کو اندر نہیں جانے دیا آئندہ خیال رکھا جائے گا”۔ سوال پیدا ہوتا کیا یہ فہرست سکیورٹی گارڈز نے خود بنائی تھی یا کسی کی ذہانت کا کرشمہ ہے کہ اس میں ایسے چینل کو شامل ہی نہیں کیا گیا جس سے سب سے زیادہ کوریج مل سکتی تھی یہ میاں نوازشریف کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔

چودہ پندرہ سال پہلے (ن) لیگ کی میڈیا سے بے اعتنائی کے حوالے سے کالم میں جو لکھا گیا تھا یہ شکایت بدستور موجود ہے جس کی تصدیق رانا ثناء اللہ نے بالواسطہ طور پر ان الفاظ میں کی ہے ہمیں توقع سے کم ووٹ ملے پہلی وجہ مہنگائی ہے جس کے ہم ذمہ دار نہیں، لیکن ہم لوگوں کو یہ بتانے میں سوفیصد کامیاب نہیں ہوئے۔ اس ناکامی کی وجہ ڈیجیٹل میڈیا کو درخود اعتنانہ سمجھنا اور اپنے میڈیا سیل کو مضبوط نہ بنانا ہے۔ پاکستان میں 9کروڑ سے زائد لوگوں کو انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے یوٹیوب، ٹوئٹر، انسٹا گرام، فیس بک، ٹک ٹاک، سوشل میڈیا پر سرگرم افراد کا تخمینہ 7کروڑ کے لگ بھگ ہے 19کروڑ سے زائد زیر استعمال موبائل فونز میں سے 70سے 75فیصد نوجوانوں کے پاس ، 10فیصد دیہات میں کم پڑھے لکھے اور ناخواندہ افراد کے پاس اور 15فی صد شہروں میں ذہنی بلوغت رکھنے والوں کے پاس ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا کی اثر پذیری کو بروئے کار لاکر پی ٹی آئی کچھ نہ کرکے کامیاب رہی اور (ن) لیگ بہت کچھ کرکے بھی مطلوبہ مقصد حاصل نہ کرسکی کیونکہ ذہن سازی کے اس سے موثر ذریعہ کو قابل توجہ نہیں سمجھا گیا۔

تبصرے بند ہیں.