چلیں الیکشن ہوا تو سہی

62

کیا یہ مثبت اقدام نہیں الیکشن 8 فروری کو ہو گیا ؟ یقین کریں مجھے تو یقین نہیں تھا الیکشن مقررہ تاریخ کو کروا دئیے جائیں گے، آئین کے مطابق الیکشن اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کے نوے روز کے اندر کروانے ضروری تھے، نوے روز میں الیکشن کا انعقاد نہیں ہوا اس کے بعد شکوک و شبہات کا جنم لینا ایک قدرتی امر تھا کہ اب الیکشن نہیں ہوں گے، ویسے اگر اپنے سارے گند سیاستدانوں کے کھاتے میں ڈالنے کا عظیم مقصد پیش نظر نہ ہو الیکشن کروانے کا ڈھونگ شاید کبھی نہ رچایا جائے، بہرحال جن قوتوں نے 8 فروری کو الیکشن کروا دئیے ہیں ہمیں ان کا ممنو ن ہونا چاہئے کہ بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے، البتہ اس الیکشن میں انہوں نے جو دھاندلی یا ڈکیتی کی وہ ہمیں یہ سوچ کر نظرانداز کر دینی چاہئے یہ ان کا ”پیدائشی حق“ ہے جو ان سے کوئی نہیں چھین سکتا، ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہئے وہ الیکشن پر راضی ہوگئے، فرض کر لیں وہ اگر یہ فیصلہ کر لیتے اگلے پانچ برسوں تک یہی اسمبلی چلنی ہے اور وزیراعظم ہمارے پسندیدہ شہباز شریف نے ہی رہناہے ہم ان کا کیا بگاڑ سکتے تھے؟ پری پول دھاندلی بھی ان کے ”حقوق و فرائض“ میں شامل ہے، اس کا جتنا استعمال اس بارہوا تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، یہ ان کا ”مثبت اقدام“ نہیں کہ تاریخ میں نئی نئی مثالیں وہ قائم کر رہے ہیں؟ مخالف سیاسی جماعت کے امیدواروں کو ڈرایا دھمکایا گیا، ان کی عزتیں پامال کی گئیں، اندھا دھند گرفتاریاں ہوئیں، ان پر ناجائز مقدمے بنے، مگر یہ تو نہیں ہوا کہ چوکوں چوراھوں میں کھڑے کر کے کسی کا سر قلم کر دیا گیاہو یا کسی پر سیدھے فائر کھول دئیے گئے ہوں ؟ اگر یہ نہیں ہوا تو کمال نہیں ہو گیا ؟ مخالف سیاسی جماعت نے تمام تر ظالمانہ اقدامات کے باوجود قومی اسمبلی کی سو سے زائد نشستیں حاصل کر لیں اس کا مطلب بھی ہمیں یہی سمجھنا چاہئے کوئی نہ کوئی رعایت اندرون خانہ انہیں ضرور ایسی میسر تھی جس کے نتیجے میں اتنی بڑی کامیابی انہیں مل گئی، اس کامیابی میں ہماری اصلی قوتوں کے کچھ اپنے یا بیگانے ”سہولت کار“ بنے اور اس”جرم“ میں کسی کو کوئی سزا اگر نہیں ملی، کسی ریٹرننگ افسر کو اگر نہیں اْٹھایا گیا، کسی کے ساتھ کوئی بدسلوکی اگر نہیں ہوئی، کسی کی خواتین کو بے لباس اگر نہیں کیا گیا، تمام معاملات ابھی تک صرف تحقیقات تک محدود ہیں تو یقین کریں الیکشن کروانے والی اصل قوتوں کی یہ بڑی مہربانی ہے جس کا احساس ہم اگر نہیں کریں گے یہ بہت ناشْکری اور زیادتی ہوگی ، بنیادی طور پر ہم ناشْکرے لوگ ہیں ، ہم سمجھتے تھے بروقت الیکشن کا انعقاد ہمارا حق ہے، ہمیں ہمارا یہ حق اس لئے زرا دیر سے ملا ہمارے آقا یہ چاہتے تھے ان کے لائے ہوئے سیاسی حکمرانوں نے ملک کی جو بربادی ڈیڑھ سال میں پھیری ہے پہلے اس کا تھوڑا ازالہ کر لیں تاکہ ان ہی کرپٹ و نااہل سیاستدانوں کو اگر دوبارہ اقتدار دینا پڑے کچھ بہتر پاکستان انہیں دیا جائے تاکہ وہ اسے نئے سرے سے برباد کر سکیں، یہ ”عظیم مقصد“ اگر پیش نظر نہ ہوتا الیکشن شاید آئینی مدت کے اندر اندر کروا دئیے جاتے، ہمارے لوگوں کو معلوم ہی نہیں آئینی مدت میں الیکشن نہ کروانے کے پیچھے کیسے کیسے ”عظیم مقاصد“ پوشیدہ تھے؟ ایک سیاسی جماعت سے اس کا انتخابی نشان چھین لینے کا مقصد بھی کوئی کم عظیم نہیں تھا، یہ”عظیم مقصد“ نوے روز میں حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا ، عدالتوں کو اور بھی بہت سے کام ہوتے ہیں، اس ”عظیم مقصد“ کے حصول کے بعد الیکشن میں التوا کا کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا تھا، ویسے الیکشن کروانے والی اصل قوتیں کوئی”عظیم مقصد“ حاصل کرنا چاہیں اس کے لئے کوئی جواز ہونا اتنا ضروری بھی نہیں ہوتا، ہم تو ڈرتے ہی رہے کوئی ایسا واقعہ کوئی ایسا سانحہ نہ ہو جائے جس کے بعد الیکشن کا ملتوی ہونا ناگزیر قرار پا جائے، شکر ہے اللہ نے سب سیاستدانوں کی زندگیاں محفوظ رکھیں، فضل الرحمان، نواز شریف اور زرداری کی جماعتوں کو اگر اکثریت نہیں ملی کوئی بات نہیں، ان کے لئے یہی کافی ہے وہ سلامت ہیں، اور اس وقت تک سلامت رہیں گے جب تک ملک تھوڑا بہت خوشحال ہے۔۔ ہمارے لئے یہ بھی شکر کا مقام ہے الیکشن کے روز بہت بڑی دھاندلی نہیں ہوئی، یہ کام اس بار الیکشن سے پہلے اور بعد میں ہوا، اس سے پاکستان کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی کیونکہ پہلے یہ کام الیکشن والے دن کیا جاتا تھا، اور یہ کام امیدوار خود کرتے تھے، جو اب ان کے لئے ان کے سرپرست کرتے ہیں، ”نواز اینڈ کمپنی“ کو چاہئے اپنی احسان فراموش طبیعت کا گلہ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گھونٹ دے، اپنے موجودہ محسن کے ساتھ وہ بدسلوکی یا بدزبانی نہ کرے جو اپنے سابقہ محسنوں کے ساتھ وہ کرتی رہی، ووٹ کو عزت دینے کی بات وہ اب کبھی نہ کرے، اس کے منہ سے اب صرف بوٹ کو عزت دینے کی بات ہی جچے گی، انہیں کچھ نشستیں مل گئیں، کمزور سا اقتدار بھی اب یقینا مل جائے گا، ان سے ہارنے والے کچھ امیدواران ان کی جیت کے خلاف ٹھوس شواہد لے کر عدالتوں میں گئے ہیں، وہاں سے کوئی ریلیف انہیں شاید نہ ملے کیونکہ ان کے پاس صرف ٹھوس شواہد ہیں، خفیہ قوتوں کی سرپرستی نہیں ہے، جو ہمارے ہاں ٹھوس شواہد سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔۔الیکشن کے انعقاد کے بعد عوام کو بھی اپنی نفرت میں اب کمی کر دینی چاہئے، یہ کم ہے اُنہیں اپنے اپنے پسندیدہ اُمیدواروں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت مل گئی، اگر انہیں یہ حکم دیا جاتا آپ نے بس پولنگ اسٹیشنوں کے خالی چکر شکر لگا کے بغیر کسی کو ووٹ دئیے اپنے اپنے گھروں میں واپس آ جانا ہے تو حکم دینے والوں کا ہم نے کیا بگاڑ لینا تھا ؟ ان کاہم کچھ بگاڑ سکتے ہوتے ملک کی یہ حالت آج نہ ہوتی ،ہم بس کھیتوں سے گاجریں مولیاں ہی پْٹ سکتے ہیں وہ انشااللہ ہم پٹتے رہیں گے۔

تبصرے بند ہیں.