فکری آزادی یا ذہنی غلامی کا فیصلہ!

56

سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب جیسی نابغہ روزگار شخصیت کے لیے یہ کیسے ممکن ہوا کہ وہ مسلمہ روایت کو چھوڑ کر تجدد پسند روایت کے ہم رکاب ہو گئے۔ میرے خیال میں اس کا جواب یہ ہے کہ جب ذہانت کے ساتھ اطاعت نہ ہو تواس طرح کے رویے جنم لیتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں اکثر ذہانتیں اس وجہ سے ضائع ہوئیں کہ ان میں اطاعت کا جذبہ نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی کبار اہل علم کے ساتھ خط و کتابت جس میں ڈاکٹر صاحب کے والد ماجد، مولانا تقی عثمانی اور مولانا سلیم اللہ خانؒ شامل ہیں، اس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے تسلیم اور خود سپردگی کے بجائے اپنے فہم اور استدلال پر اعتماد کیا۔ ذہین اذہان یہ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ کبھی بغیر دلیل کے محض خود سپردگی میں خیر ہوتی ہے۔ ذہین اذہان کی آزمائش ایسے مواقع پر اطاعت میں ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے بہت کم اذہان اطاعت کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اس سے جڑا ہوا اگلا سوال یہ ہے کہ روایت اور اطاعت کی اہمیت سے آگاہ ہونے کے باوجود ذہین اذہان اس کو خاطر میں کیوں نہیں لاتے اور بغاوت کیوں کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ روایت سے وابستگی کی کچھ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اور ”فکری آزادی“ کے دلدادہ حضرات بوجوہ اس قیمت کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ جس طرح ایک جاہل کا امتحان حصول علم میں ہوتا ہے اسی طرح ایک عالم اور ذہین کا امتحان اطاعت اور روایت میں ہوتا ہے۔ آپ اپنی مرضی سے آزاد پنچھی کی طرح ہواؤں میں نہیں اڑ سکتے، کبھی کبھار آپ کو اپنی ذہانت کو نکیل ڈالنا پڑتی ہے اوربڑوں کے فہم کے تابع رہ کر فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ اپنے پرکھوں کی وراثت کو لے کر آگے بڑھنا ہوتا ہے اور آپ کو شعوری طور پر اس بات کا اقرار کرنا پڑتا ہے کہ میرا فہم بڑوں کے تابع ہے۔آپ کو روایت کے فریم ورک اور معیارات کو اپنانا پڑتا ہے اور ”فکری آزادی“ کے شوقین حضرات اپنی ذہانت پر اعتماد کے بل بوتے ان ”مجبوریوں“ کا تکلف نہیں کر سکتے اور اس طرح وہ کوئی ایسی غلامی اختیار کر لیتے جسے بزعم خود ”آزادی“ تصور کرتے ہیں۔
اگر ڈاکٹر صاحب کے حالیہ فیصلے کے نتائج پر بات کی جائے تواس کا حاصل یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے مسلمہ روایت سے’’آزادی‘‘تو حاصل کرلی لیکن اپنی صلاحیتوں اوراپنی فکر کی اشاعت کے وسیع تر امکانات کو محدود کر لیا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے فہم دین کے باب میں خام اور تجدد پسند روایت کا انتخاب تو کرلیا لیکن اس انتخاب میں وہ یہ پہلو فراموش کر گئے کہ خام اور تجدد پسند روایت عصری تاثر کے زیر اثر جنم لیتی ہے جبکہ مسلمہ روایت فہم دین کا وہ مجموعی مزاج ہوتا ہے جوہر عہد میں روایت کی صورت میں آگے منتقل ہوتا چلا آتا ہے۔ جو اہل علم خام اور تجدد پسند روایت کے فہم دین کو اپناتے اور اس کے نہج پر چل کر دینی خدمات سر انجام دیتے ہیں ان کی خدمات اپنے عہد کی حد تک تو زندہ رہتی ہیں مگر مسلمہ روایت میں جگہ پانے کی صلاحیت اس میں نہیں ہوتی۔ اس روایت اور اس فہم دین کو اپنے عہد میں واہ واہ کرنے والے چند انفعالی مزاج لوگ تو مل جاتے ہیں مگر وہ فہم اور وہ روایت بالقوہ آگے بڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتی ہے۔ مسلمہ روایت سے کٹ کر کوئی اپنے عہد کا کتنا ہی بڑا افلاطون اور ارسطو کیوں نہ بن جا ئے وہ اپنے عہد میں تو زندہ رہ سکتا ہے لیکن روایت میں زندہ رہنے کی صلاحیت اس میں نہیں ہوتی۔اس لیے ڈاکٹر صاحب نے خام اور تجدد پسند روایت کا انتخا ب کر کے اپنی فکر کی وسیع تر اشاعت اورروایت میں زندہ رہنے کے امکانات کو محدود کر لیا ہے۔

اپنی ان معروضات کے مستدل کے طور پر میں ماضی قریب میں”فکری آزادی“ کے ایسے ہی ایک فیصلے کا حوالہ دے چکا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب اور مولانا عمر عثمانیؒ کے فیصلے میں کچھ اور مشابہتیں بھی موجود ہیں، مثلاً جس طرح ڈاکٹر صاحب نے ”فکری آزادی“ کا فیصلہ سناتے وقت تیار گدی کا حوالہ دیا ہے اور ان کے متعلقین ان کی خوش اخلاقی کی گواہی دیتے ہیںاسی طرح کی گواہیاں مولانا عثمانیؒ کے بارے میں بھی دی جاتی ہیں۔ ان کی کتاب فقہ القرآن کے مقدمہ میں لکھا ہے : ”ان میں صاحبزادگی اور خاندانی برتری کا ذرہ برابر اثر نہیں ہے۔ان کی سادگی حد سے زیادہ ہے، کوئی شخص اْنہیں دیکھ کر نہیں کہہ سکتا کہ یہ بر صغیر کے سب سے بڑے مذہبی خانوادے اور اپنے والد کے انتقال کے بعد ان کا جانشین ہے۔۔۔ مولانا کی ایک انتہائی اہم خوبی یہ ہے کہ گو بعض چھچھوری طبیعت کے تنگ نظر اور ایک مخصوص حلقے کے افراد مختلف مواقع پر ان کے متعلق بے پر کی اڑاتے رہتے اور ان پر چھینٹے کستے رہتے ہیں مگر اس اللہ کے بندے نے کبھی ان کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا اور ہمیشہ صبر و عفو سے کام لیا۔ حالانکہ اگر یہ چاہتے تو انہیں ایسے مواقع حاصل رہے ہیں کہ جواب میں ان کے چیتھڑے اڑا سکتے تھے مگر ان کی بلند کرداری اس پستی پر اتر آنے کے لئے کبھی رضا مند نہیں ہوتی“۔

مولانا عمر عثمانیؒ بلاشبہ اپنے عہد کا بہت بڑا دماغ تھے مگروہ اپنی ذہانت کے ساتھ انصاف نہ کر پائے۔ان کے’’فکری آزادی‘‘ کے فیصلے نے ان کے سارے علمی وفکری کام کو پس پشت ڈال دیا اور آج روایت میں ان کے علمی و فکری کام کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔ اسی لیے عرض کیا کہ روایت سے کٹ کر کوئی اپنے عہد کا کتنا ہی بڑا ارسطواور افلاطون کیوں نہ ہو جائے روایت میں زندہ رہنے کی صلاحیت اس میں نہیں ہوتی۔ مولانا عثمانیؒ جس علمی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے اگر اس روایت کو سنبھالتے اور اسے آگے بڑھاتے تو شاید ان کا علمی و فکری سرمایہ صدیوں زندہ رہتا مگر انہوں نے ”فکری آزدی“ کو ترجیح دی او ر نتائج ہمارے سامنے ہیں۔

اب تک تو ڈاکٹر صاحب کے والد گرامی نے انہیں کسی نہ کسی طور روایت سے وابستہ رکھنے کا اہتمام کر رکھا تھا اب وہ بھی نہیں رہا۔اس لیے میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب کے مستقبل اور ان کے علمی وفکری سرمائے کے حوالے سے یہ فیصلہ انتہائی اہم ثابت ہو گا۔ ممکن ہے جب تک وہ سوشل میڈیا پر متحرک رہیں تب تک ان کی بعض فکری آراء، مذہب ،فلسفہ، سائنس اور سماجی پہلوؤں کے حوالے سے تحریرات اور ان کے بعض فکری تفردات سے لوگ انفرادی طور پراستفادہ کرتے رہیں مگر بحیثیت مجموعی ان کا فکری کام اور فکری پروجیکٹ حالیہ فیصلے کے بعد آگے بڑھتا دکھائی نہیں دیتا۔ (ختم شد)

تبصرے بند ہیں.