الیکشن سے پہلے

22

موضوع کے احاطے کے لیے کالم کا دامن چھوٹا ہے، کتاب تحریر کرنا ہوگی اور انشا اللہ ہوگی لیکن آٹھ فروری کو عام انتخابات سے پہلے تمام حقائق کو ایک بار پھر سب کے سامنے لانا لازم ہے۔ پی ٹی آئی کا قیام بنیادی طور پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مقابلے میں تیسری فورس کھڑی کرنے کے لیے عمل میں لایا گیا۔فیصلہ 1990 کی دھائی میں ہی کر لیا گیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کے گاڈ فادر سابق صدر غلام اسحاق خان کہا کرتے تھے ایک ( بینظیر بھٹو ) سنتی نہیں، دوسرا ( نواز شریف ) مانتا نہیں۔ ٹاسک آئی ایس آئی کو ملا، جنرل حمید گل نے مشہور کرکٹر کا انتخاب کرکے کام شروع کیا تو چوٹی کے اکابرین ڈاکٹر اسرار احمد اور حکیم سعید شہید نے خبردار کرتے ہوئے کہا یہ کھیل لوکل اسٹیبلشمنٹ تک محدود نہیں گولڈ اسمتھ ہائوس کے ملوث ہونے کے بعد گریٹ گیم میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ایسا نہیں کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو حقیقت کا پتہ نہیں تھا۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اسی زعم میں مبتلا رہے کہ بے شک باہر سے ہر طرح کی مدد آرہی ہے لیکن پی ٹی آئی سدھایا ہوا گھوڑا ہے اسکی طنابیں انہی کے ہاتھ میں رہیں گی۔ اسی دوران انکشاف ہوا کہ سماجی شخصیت عبدالستار ایدھی کو عمران خان کا ساتھ دینے کا مشورہ دیا گیا۔ ان کی جانب سے معذرت پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں تو انہیں ملک چھوڑ کر باہر پناہ لینا پڑی۔ 1999 میں جنرل مشرف کا مارشل لا نہ لگتا تو ممکن تھا کہ عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کا منصوبہ بہت پہلے ہی مکمل ہو جاتا۔ جنرل مشرف افغان جنگ کے سبب خود امریکہ کے پوڈل بن چکے تھے۔ اس لیے عمران خان اور انکے بین الاقوامی سپورٹروں کو زیادہ اہمیت نہ مل سکی۔ 2007 میں بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو کامیابی ملی۔ 2011 میں پراجیکٹ عمران خان پوری طاقت کیساتھ شروع کر دیا گیا۔سیاستدانوں کو بدعنوان ،ملک دشمن اور نااہل ظاہر کرنے کے لیے قومی خزانے سے کھربوں روپوں کی منظم مہم چلائی گئی۔ 2013 کے عام انتخابات سے پہلے 2007 تک کی حکمران جماعت ق لیگ کے چودھری برادران آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے در پر حاضر ہوئے اور شکایت کی کہ ان کے ارکان کو پی ٹی آئی میں بھجوایا جارہا ہے۔ جنرل کیانی نے تسلی دیتے ہوئے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا سے فون پر بات کی لیکن یہ سب دھوکہ تھا۔ عمران خان کو لانے کا طریق کار اور وقت باہر کہیں طے ہو چکے تھے۔ 2013 میں مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہوتے ہی پلان پر عمل درآمد شروع کردیا گیا۔ اسی دوران سی پیک شروع کرنے کے اعلان نے عالمی اسٹیبلشمنٹ اور پڑوسی ممالک کو سیخ پا کردیا تھا۔ 2014 کے دھرنوں کو فوج نے سپانسر کیا۔عین اس وقت جب ریاستی عمارتوں پر حملے ہورہے تھے ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل عاصم باجوہ کے بیرون ملک مقیم بیٹے سوشل میڈیا مہم چلا رہے تھے کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو پھانسی پر لٹکایا جائے۔ جب دھرنوں کے ذریعے نواز شریف سے استعفیٰ نہیں لیا جاسکا پھر 2017 میں عدالتوں کو استعمال کیا گیا۔ مسلم لیگ ن اپنے ماضی کے دو ادوار کی طرح تیسرے دور میں کئی بڑے ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل باجوہ کا انٹرویو کرنے والے ایک صحافی کے مطابق ”تمام تر نامساعد حالات اور پراپیگنڈہ مہم کے باوجود مسلم لیگ ن 2016 میں ملک کی معاشی سمت درست کرنے میں کامیاب ہوگئی ، لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی کی لعنتوں سے جان چھڑا لی گئی۔ اسٹیبلشمنٹ کو خطرہ محسوس ہوا کہ اقتدار جلد ختم نہ گیا گیا تو ن لیگ اگلے پچیس سال تک حکومت کرتی رہے گی“۔ ججوں کے ساتھ میڈیا اور سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال کرکے ملک کی جڑیں ہلا دی گئیں۔ 2018 میں پی ٹی آئی کو اقتدار سونپا گیا تو حکومت چلانے کی ذمہ داری جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے سنبھال لی۔ایک پیج بن تو گیا لیکن جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ سارے ہی ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ عمران خان کے ذمہ واحد کام ترجمانوں کا اجلاس بلا کر سیاسی مخالفین ، آزاد ججوں اور غیر جانبدار میڈیا کو گالیاں دینا تھا۔ آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر بازو بنے ہوئے تھے -۔عمران خان وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی وفاقی کابینہ کو وقت نہیں دیا کرتے تھے۔ کابینہ کے اجلاسوں میں بھی جنرل باجوہ کمان سنبھال کر وزرا پر زور دیتے آپ نے ہر صورت عمران خان کے ساتھ رہنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فوج کو بطور ادارہ بہت جلد اندازہ ہوگیا تھا کہ عمران خان کے معاملے پر ان سے غلطی نہیں بلنڈر ہوگیا ہے۔ سی پیک رک گیا ، ملک آئی ایم ایف کے سپرد کردیا گیا، کشمیر ہاتھ سے گیا۔ پورے معاشرے اور ہر شعبے میں منافرت پھیل گئی۔ کم و بیش تمام دوست ممالک ناراض ہوگئے۔ پاکستان عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا شکار ہوگیا۔ سب کو نظر آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے مگر جرنیلوں اور ججوں کے مخصوص مفادات ہر چیز پر حاوی رہے۔ 2022 میں تحریک عدم اعتماد سے پی ٹی آئی حکومت کی رخصتی کے بعد پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں کی حکومت نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے تو بچا لیا مگر جنرل باجوہ کی دوغلی پالیسی کے سبب اپنی رٹ قائم نہیں کر پائے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں جنرل ایوب خان کے بعد پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان جنرل قمر جاوید باجوہ نے پہنچایا۔ جنرل باجوہ چاہتے تو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے فوری بعد پی ٹی آئی کی سیاست کو بھی محدود کرسکتے تھے مگر انہوں نے توسیع لینے کے چکر میں الٹا پنجاب میں ن لیگ کی حکومت بذریعہ بندیال کورٹ اڑا دی۔ جنرل باجوہ کی پالیسوں کے سبب فوج سمیت ہر ادارہ بدنام ہوا۔ یہ مہم آج بھی جاری ہے۔ پاکستان کے ازلی دشمنوں کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کی ”سرمایہ کاری“ نے ایسا رنگ جمایا کہ بھارتی بھی حیران ہیں جو ہم نہ کرسکے وہ اسٹیبلشمنٹ کی ڈبل گیم کے سبب ان کے اپنے ہی مہرے نے کر دکھایا۔ یہ بات کبھی بھلائی نہیں جاسکتی کہ عمران خان ہی وہ پہلی شخصیت ہیں کہ جن کی گرفتاری پر اسرائیل تلملا اٹھایا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ نام لے کر پاکستان کی مذمت کی۔ پراجیکٹ عمران کے لیے صیہونیوں کی سرمایہ کاری آج بھی ہر شعبے میں اپنا اثر دکھا رہی ہے۔عدلیہ سے لے کر میڈیا تک معاملات گڑ بڑ ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی موجودگی کے سبب عدالتی امور تو واضح ہوتے جارہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الااحسن اور جسٹس مظاہر نقوی جیسے متنازع جج خود ہی بھاگ گئے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں صفائی کی ضرورت ہی نہیں بلکہ یہ مجبوری بن چکی ہے۔ میڈیا ہائوسز اور تجزیہ کاروں کے بدلتے موقف محض ریٹنگ حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ مال و زر بھی آرہا ہے۔ایک دو کی انکوائری ہوگئی تو عوام حیران رہ جائیں گے۔ یو ٹیوب ڈالر کمانے کے لیے جھوٹ اور شر انگیزی پھیلانے کا ذریعہ بن چکی۔پاکستان کو مشکلات میں گھرا دیکھ کر ایران جیسے ملک نے بھی حملے کی جسارت کرلی اگرچہ اسے فوری طور پر جواب دے کر مزہ چکھا دیا گیا لیکن خطر ے کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔ افغانستان میں طالبان کے تیور بھی ٹھیک نہیں۔ اس میں کسی کوئی شک نہیں کہ امریکہ کی نظر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر ہے۔ اگلی حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ ایک ہوکر چلے تو تمام فتنے فنا ہو جائیں گے۔ اس مشن کو ادھوار چھوڑنا ملکی سالمیت پر زبرست حملے کی راہ ہموار کردے گا۔ اس وقت پی ٹی آئی کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہی کچھ سیاسی جماعتوں کے ساتھ پہلے بھی ہوتا آیا ہے، کچھ اقدامات بھلے نہ بھی لگیں تب بھی جان لیں اور کوئی حل نہیں جو ہوتا ہے وہ ہونے دیں۔ بہتری کا راستہ ایسے ہی نکلے گا۔ پی ٹی آئی کے حوالے سے یہ بھی پتھر پر لکیر ہے کہ نو مئی کو کسی صورت فراموش نہیں کیا جائے گا۔

تبصرے بند ہیں.