معبدوں کے چراغ گل کر دو، قلب انسان میں اندھیرا ہے

87

تاریخ بھی عجب فتنہ گر ہے، اگر چاہے تو یہ آئینے میں دیکھنے والے کو تختہ دار پر چڑھا دے یا پھر دم گھٹتی فضا میں بادِ صبا کا جھونکا بن جائے۔ یہ تاریخ کا فیض ہے، اسی سے علمی ڈھانچے بنانے میں مدد ملتی ہے۔ اس کے بعد نہ حال کی تعبیر ممکن ہے، نہ مستقبل کی صورت گری کا کوئی حوالہ۔ تاریخ کے اس کردار کو نظر انداز کرنا یا اس کے شعور سے تہہ دامن ہونے کا رویہ قوموں کو بند سرنگ میں داخل کر دیتا ہے۔ خبر ہے کہ پاکستان میں دو کروڑ 50 لاکھ بچے تعلیم جیسا زیور حاصل نہیں کر سکے اور ہمارے نزدیک یہ تو وہ تعداد ہے جو رپورٹ میں ظاہر کی گئی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ خبر نہیں ہے، یہ اس قوم کے ساتھ ایک ایسا مذاق کیا گیا ہے اور اس خبر نے ہمارے کھوکھلے نظام تعلیم کی چولیں ہلا کے رکھ دی ہیں شاید اس نظام میں اتنی قوت نہیں کہ وہ تعلیم جیسے شعبے میں جس پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، اس کا بوجھ اٹھا سکے۔ ہماری بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہم آج تک ایک تعلیم یافتہ معاشرہ تشکیل نہیں دے سکے اور اس کے اصل قصوروار وہ حکومتیں ہیں جنہوں نے اقتدار کے حصول کے لئے ذاتی مفادات کو آگے رکھا۔ تعلیم اور صحت جیسے شعبہ جات جن سے قومیں بنتی اور سنورتی ہیں، ان کی طرف کبھی توجہ نہیں دی۔ اگر توجہ دی جاتی تو آج جو دو اڑھائی کروڑ بچے سکول سے باہر ہیں اور وہ تعلیم حاصل نہیں کر سکے، پڑھے لکھے معاشرے کا حصہ بن جاتے۔ ان کی غلط تعلیمی پالیسیوں کی وجہ سے نسلوں کو اندھیروں میں ڈبو دیا ہے۔ یہاں پر تو ایسے ادارے ہی نہیں بنائے گئے جہاں ہنر کے عملی تعلیم کے ادارے اور روشنی کے دروازے کھولے جاتے، جہاں ہمارے بچے پڑھ کر انسان بنتے، معاشرہ بہتر ہوتا، معاشرتی رویوں میں گھٹن نہ ہوتی۔ ہمارے سروے کے مطابق ہر سال لاکھوں بچے سکولوں سے یونیورسٹیوں تک جب ڈگریاں لے کر باہر آتے ہیں تو ان کو روزگار نہیں ملتا۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو یہ تعداد بھی کروڑوں میں بنتی ہے، اس کا کون حساب دے گا۔ ہمارے نزدیک اس کا سیدھا سادھا جواب ہے یہ ہے کہ ہمیں پاکستان کی جغرافیائی حدود سے وابستگی اور نہ ہی لگاؤ ہے۔ ہم گزشتہ 76 برسوں میں کوئی ایسا تعلیمی ڈھانچہ نہیں تیار کر سکے۔ بدلتے وقت کے ساتھ نہ کوئی نصاب دے سکے جو کسی بھی قوم کی تعلیم، بڑی پہچان اور ورثہ ہونا ہے جو ترقی یافتہ معاشروں کی بنیادوں میں تعلیم کا لوہا، سیمنٹ اور بجری بڑا مضبوط ہوتا ہے اور اس بڑے ستون کی شکل میں معاشرے حکمرانی کرتے نظر آتے ہیں۔ صرف تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں اس قدر اخلاقی بگاڑ پیدا ہو چکا ہے کہ اب ہماری نسلیں چوری اور ڈکیتی کی طرف لگ گئی ہیں۔ یہاں لاکھ اختلافات کے باوجود بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے اس مؤقف کی تائید کرنا ہوگی کہ 1947ء میں آزادی کے وقت گورے نے ہمارے مقدر میں ایک ایسا نظام تعلیم لکھ دیا جہاں سے صرف میٹرک پاس بچے پیدا ہو سکتے ہیں اور دکھ تو اس بات کا بھی ہے کہ دنیا جدید نظام کے دور میں چلی گئی اور ہم ابھی تک گوروں کے نظام میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہم ابھی تک اپنے بچوں کو الف انار اور بے بکری سے باہر نہیں نکال پائے۔ یہاں ایک اور بھی برا ماحول دیکھنے کو ملا کہ جو بھی حکومتیں آتی ہیں وہ ان محکموں میں ان لوگوں کو وزیر بناتے ہیں جن کو محکموں کی الف بے کا بھی پتہ نہیں ہوتا۔ ہمارے نزدیک یہ سب چیزیں نظام سے بنتی ہیں اور جس ملک میں نظام ہی نہ ہو، اس ملک کے لئے ایسے دکھ بھرے سروے آتے رہیں گے جس قدر ہولناک اعداد و شمار بتا رہے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ ہم آنے والے دور میں مزید ان پڑھ پیدا کریں گے۔ ہماری تعلیم کا نظام وینٹی لیٹر پر ہے اور اس فالج زدہ تعلیمی نظام میں ہمیں معاشی بحران کے بعد ایک اور بدترین بحران کا سامنا ہے۔ ملک ہمیشہ روڈ میپ سے بنتے ہیں اور اس روڈ میپ میں بنیادی رول تعلیم کا ہوتا ہے۔

یہاں سوال یہ جنم لیتا ہے کہ ہم کھڑے کہاں ہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ نسل در نسل کے سلسلوں کو تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کرے مگر صد افسوس کہ پاکستان کو تعلیمی شعبے میں ڈھانچہ تو موجود ہے مگر عملی طور پر ہم اس سے محروم ہیں۔ اس کے گونا گوں مسائل کی جڑیں اس قدر پھیل چکی ہیں کہ اب شاید عشروں میں بھی ان کو سمیٹا نہ جا سکے۔ ہم ابھی تک کیوں نہیں سمجھ رہے کہ انسان کائنات سے جدا شئے نہیں۔ کائنات کا طریقہ کار ہی سب سے بڑا ماخذ تعلیم و ہدایت ہے۔ تعلیم ہی انسان کو سدھارتی ہے۔ یہاں ایک مثال دیتا چلوں کہ اگر آپ نے اپنے باغیچہ میں گھاس لگانا ہے اور اسے خوبصورت اور صحت مند رکھنا ہے تو پھر اسے پانی بھی دیں گے اور اس کے ساتھ یہ بھی دیکھیں گے، اس میں جڑی بوٹیاں نہ اُگیں تاکہ آپ کا لان شاداب رہے، بصورت دیگر یہ اجڑ جائے گا۔

ہمارے نزدیک نظام تعلیم میں اس قدر جڑی بوٹیاں اُگ چکی ہیں اور انہوں نے پورے باغیچے کا لان تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور اگر اب بھی بہت کچھ ہونے کے باوجود وقت ہے کہ وحدت گرین جڑی بوٹیاں نکالنا ہوں گی۔ اقبالؒ نے یہی بات کی ہے:
وحدت کی حفاظت نہیں ہے قوت بازو
آتی نہیں کچھ کام یہاں عقل خداداد

چلتے چلتے قائداعظمؒ کی 1940ء میں کی گئی ایک تقریر کا حوالہ دیتے چلیں:
پاکستان کا مطلب محض آزادی اور استقلال نہیں، اس کا مطلب مسلم نظریہ جسے ہم نے اجاگر کرنا ہے اور اس کو بچانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم اپنی موجود اور آنے والی نسلوں کو صرف تعلیم جیسے ہتھیار سے آراستہ کریں۔

آج معاشرتی سطح پر جتنی برائیاں، جتنی تباہیاں اور بربادیاں سمیٹی جا رہی ہیں، اس کی تمام تر ذمہ داری سیاسی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے گو ہم پسماندہ قوم ہیں اور ہم نے اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے تعلیمی اداروں کے دروازے سے ان غریب بچوں کے لئے کھولنا ہیں جو اس وجہ سے نہیں پڑھ سکتے کہ ان کے وسائل نہیں ہیں اور ان کے مسائل کا حل حکومتوں نے نکالنا ہے۔
اور آخری بات… باہر جنگل اندر آگ والا معاملہ ہے۔
اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو جلا کر

پاکستانی معاشرہ بڑی تیزی کے ساتھ زمانہ جاہلیت کی طرف اتر رہا ہے۔ اس فضا میں پاکستان کے شاہین بچوں سے ہمیں وہ ذہن کہاں ملیں گے جو غوری، غزنوی، ایوبی، طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم بن سکیں۔
معبدوں کے چراغ گل کر دو
قلب انسان میں اندھیرا ہے

تبصرے بند ہیں.