پاکستان ”تر“ نوالہ نہیں۔۔۔۔۔۔؟

47

پاکستان نے ہمیشہ امن وآشتی کی بات کی جسے کمزوری سمجھا گیا حالانکہ پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں اپنے جوانوں سمیت ہزاروں شہریوں کو قومی سلامتی پر قربان کیا ہے پاک ایران کشیدگی کا امریکہ، اسرائیل اور بھارت فائدہ اٹھانا چاہتا تھا جسے پاکستانی حکومت اور فوج نے مل کر ناکام بنایا اوردشمنوں کے عزائم کو ناکام بنانے کیلئے پاک ایران کشیدگی ختم کرنے پر اتفاق کیا گیا جسے دنیا بھر میں سراہا گیا، ایران کا حملہ 2013 کے پاکستان کے ساتھ ہونے والے معاہدے اور اقوام متحدہ کے چارٹر سمیت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے جبکہ پاکستان نے ایران نہیں بلکہ وہاں چھپے ہوئے اور مطلوب دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی ہے، چین، پاکستان اور ایران کا مشترکہ دوست اور خیرخواہ ہے جس نے سب سے پہلے دونوں کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی، پاکستان اور ایران میں مزید کشیدگی امن میں دلچسپی نہ رکھنے والوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنی رہے گی اور خطے میں امن و استحکام اور سلامتی نہ چاہنے والے اس کا فائدہ اٹھائیں گے، دہشت گردوں کی فنڈنگ کے براہ راست تانے بانے ایران میں موجود پاکستان دشمنوں سے ملتے ہیں، ایران، افغانستان اور ہندوستان ایک پاکستان مخالف تکون ہے، ایران امن کوششوں کو بھول گیا اور یہ بھی بھول گیا کہ انڈیا نے پلوامہ کے بعد پاکستان میں ایئرسٹرائیک کیے تو اگلے دن دو جہاز گرا کر منہ توڑ جواب دیا گیا تھا، بدقسمتی سے اس وقت انڈیا کے ساتھ افغانستان سے بھی ہمارے تعلقات اچھے نہیں ہیں، اور اس صورتحال میں ہم کوئی نیا محاذ کھولنے کے متحمل نہیں ہوسکتے، جیش العدل تو پاکستان کیخلاف بھی کارروائیاں کرتی رہی ہے، کچھ عرصہ پہلے کلبھوشن یادیو کا سلسلہ بھی اسی روٹ سے گرفت میں آیا تھا، کچھ دن پہلے بھارتی وزراء نے ایران کا دورہ بھی کیا تھا، ایران اور دنیا جان لے کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے کسی کا ترنوالہ نہیں، خطہ اور عالم اسلام جن مشکلات و مسائل سے دوچار ہے ایسے موقع پر اسلام دشمن قوتیں فائدہ اٹھانے کیلئے اپنے وسائل و ذرائع استعمال کر کے مزید انارکی پھیلانے کی مذموم کوشش کریں گی جس سے دوریاں اور نفرتیں پیدا ہوں گی، مظلوم فلسطین عوام کی حمایت اور یکجہتی کیلئے طوفان الاقصیٰ کے اغراض و مقاصد متاثر ہونگے دونوں ممالک نہیں چاہتے کہ فلسطینی مظلومین کیلئے مشکلات و مسائل پیدا ہوں،دونوں ممالک کے عوام میں تاریخی، مذہبی، ثقافتی اور اسلامی رواداری کے مراسم ہیں،ہمسایہ ممالک نے ہمیشہ پیار و محبت، بھائی چارے اور باہمی ہم آہنگی سے دیگر اسلامی ممالک میں مظلوم مسلمانوں کی حمایت اور مدد کی۔ اب دونوں ہمسایہ ممالک کو چاہیے کہ بردباری اور صبر و برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشیدگی کو ختم کر کے مسائل کو مفاہمت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں تاکہ دونوں ممالک کے عوام میں مثبت تاثرات پہنچیں اور استعمار مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ دونوں ممالک دہشت گردی کا شکار ہے، برادر اسلامی ملک اور عوام مزید دہشت گردی کے متحمل نہیں ہیں، دونوں ممالک اپنے دشمنوں، دہشت گردوں اور اسلام دشمن عناصر کا ملکر خاتمہ اور اپنی اپنی سرحدوں کی حفاظت نگرانی کریں۔ پاکستان اپنے برادر ملک ایران کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا مکمل احترام کرتا ہے تاہم اپنی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا، صورتحال کا تقاضا ہے کہ ایران تعاون کرتے ہوئے اپنی سرزمین پر چھپے ہوئے پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے، دونوں ممالک کے مابین ایک بڑی وجہ تنازع افغانستان بھی بنا رہا، اگرچہ دونوں ممالک مجاہدین کو سپورٹ کررہے تھے لیکن سعودی عرب اور پاکستان کی زیادہ امداد افغانستان کے سنی اور پشتون تنظیموں کو جبکہ ایران کی فارسی بولنے والے اور ہزارہ تنظیموں کو ملتی رہی، سوویت یونین کے انخلا کے بعد سے ایران افغانستان میں پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کا پارٹنر بن گیا، افغانستان میں پاکستان کی سپورٹ سے طالبان کی حکومت برسراقتدار آئی تو ایران انڈیا کیساتھ ملکر شمالی اتحاد کو نہ صرف سپورٹ کرتا رہا بلکہ ایک موقع پر تو اس نے طالبان کے خلاف اپنی افواج بھی افغانستان کے بارڈر پر جمع کردیں لیکن پاکستان کوشش کرتا رہا کہ طالبان ایران کیخلاف کوئی اقدام نہ کرے، پاکستان پر ایران کے ایٹمی پروگرام میں سپورٹ کا الزام بھی لگتا رہا اور جب مغرب کی طرف سے دبائو آیا تو ایرانی حکام کی طرف سے آئی اے ای آئی کو بتایا گیا کہ پاکستان نے ان کیساتھ تعاون کیا، حامد کرزئی اوراشرف غنی کی حکومت میں اگر انڈیا افغان سرزمین کو پاکستان کیخلاف استعمال کر رہا تھا تو وہ سب ایران کے تعاون کی مرہون منت تھا، جہاں تک بلوچ علیحدگی پسندوں کا تعلق ہے تو وہ دونوں ممالک کیلئے یکساں خطرہ ہیں، ایران، ایرانی بلوچ عسکریت پسندوں کو تو کچلنا چاہتا ہے لیکن پاکستانی بلوچ عسکریت پسندوں کو طاقتور بنانا چاہتا ہے، اس تبدیلی کی وجہ سی پیک اور انڈیا کیساتھ اس کی قربت ہے ایران سمجھتا ہے کہ سی پیک کی کامیابی کی صورت میں اسکے چابہار کی اہمیت ختم ہوجائے گی اسلئے وہ پاکستانی بلوچ عسکریت پسندوں کو اپنے سیف ہائوسز میں رکھتا ہے گلزار امام شنبے تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ایران کے سیف ہائوس میں رہے اور دوسری طرف انڈیا کے کلبھوشن یادیو جیسے کرداروں کو اپنی دستاویزات کیساتھ پناہ دیتا ہے، پاکستان چاہتا تو ایرانی دستاویزات کیساتھ چابہار میں قیام کرنے والے انڈیا کے حاضر سروس انٹیلی جنس افسر کلبھوشن یادیو کو ایران کیخلاف بہت بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا تھا تاہم اس نے ایسا نہیں کیا لیکن افسوس کہ ایران کے رویے میں پھر بھی تبدیلی نہ آئی کشیدگی روکنے کیلئے سب سے پہلے چین نے کوشش کی کیونکہ چین پاکستان کا دیرینہ دوست ہے ایران کا حملہ ایک ایجنڈے کے تحت ہوا ہے کیونکہ چین، ایران، روس اور پاکستان خطے میں ایک مضبوط پارٹنر کے طور پر ابھر رہے ہیں جو امریکہ کو کسی صورت برداشت نہیں اور ایران، پاکستان کشیدگی کا فائدہ صرف اور صرف امریکہ انڈیا اور اسرائیل کو ہو گا جبکہ نقصان فلسطینیوں کا ہو گا جس سے تمام تر دنیا کی توجہ ہٹ جائے گی اور نظریں پاک ایران کشیدگی پر مرکوز ہوں گی اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ صدر بائیڈن نے کوئی چار سال بعد پاکستان کا نام لیا جبکہ ایرانی حملے کے بعد عراقی وزیر اعظم سے امریکی قومی سلامتی کے مشیرکی ملاقات اور دورہ کی دعوت دینا دال میں کچھ کالا ضرور ہے؟ایرانی حملے پر قطر سعودیہ نے فوری ردعمل دیا آئندہ اس طرح کے واقعات سے بچنے کیلئے دونوں ممالک کے مابین بھارت کی طرح ڈی جی ایم آپریشن کی میٹنگ ہونی چاہیے جس طرح ہر جنوری کی پہلی تاریخ کو لسٹوں کا تبادلہ کیا جاتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ ہمیں آپ کے فلاں علاقہ سے شرپسندوں سے خطرہ ہے اور یہ بہت ضروری ہے تاکہ آئندہ اس طرح کا کوئی واقعہ نہ ہو۔

تبصرے بند ہیں.