عمران خان و تحریک انصاف کے بغیر انتخابات

31

پاکستان تحریک انصاف اپنے حقیقی انجام کی طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے سپریم کورٹ میں پارٹی کے وکلا اپنا موقف منوا نہیں سکے پوری قوم نے سارا منظر سکرین پر دیکھا بڑے بڑے نامور وکلا عدالت کے سامنے بونگیاں مارتے نظر آئے وہ نہ تو سپریم کورٹ کے ججوں کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دے سکے اور نہ ہی مطلوبہ دستاویز سامنے کر سکے۔ اکبر ایس بابر کی تحریک انصاف کی ممبر شپ کے حوالے سے مطلوبہ دستاویز عدالت میں پیش نہیں کی جا سکی۔ پی ٹی آئی کے وکلا یہ بھی ثابت نہیں کر سکے کہ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی انتخابات قبول کرنے یا مسترد کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ عدالتی کارروائی کو دیکھتے ہوئے ایسے لگ رہا تھا کہ وکلا نے یا تو کیس لڑنے کی تیاری نہیں کی ہوئی ہے یا انکی استعداد کار بھی پست درجے کی ہے وگرنہ حامد خان اور علی ظفر وکلا برادری کے محترم و بڑے نام ہیں ان کا نام سنتے ہی ایک خاص قسم کی اعلیٰ کارکردگی کی توقع کی جاتی ہے لیکن دیکھنے میں ایسا نہیں آیا۔ لطیف کھوسہ بھی بڑا نام ہے انکی کارکردگی دیکھ کر انتہائی مایوسی ہوئی کہ ہمارے اعلیٰ پائے کے وکلا کی اگر ایسی کارکردگی ہے تو پھر ہمارے نظام عدل پر اٹھنے والے سوالات درست ہی معلوم ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی کا تنخواہ دار گالم گلوچ برگیڈ حسب عادت و سابق قاضی فائز عیسیٰ پرد شنام طرازی میں مصروف ہے اس سے پہلے بھی جب قاضی فائز عیسیٰ اور انکی بیگم صاحبہ کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا تھا تو اس وقت بھی اس برگیڈنے طوفان بدتمیزی برپا کیا تھا لیکن قاضی وبیگم قاضی عیسیٰ نے الزامات کا سامنا کیا۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے قائم کردہ اعلیٰ ترین بینچ کے سامنے نہ صرف الزامات کو غلط ثابت کیا بلکہ اپنی بے گناہی پر مہر تصدیق ثبت کرائی۔ اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت، حکومتی ادارے اور ریاستی ادارے ایک پیج پر تھے اور وہ صفحہ قاضی فائز کو کرپٹ اور نا اہل ثابت کرنے پر تلا بیٹھا تھا۔ قاضی اگر چاہتے تو مستعفی ہوکراپنی مراعات لے کر سکون کی زندگی گزار رہے ہوتے لیکن انہوں نے تاریخ میں گم ہو جانے کی بجائے تاریخ رقم کرنے کا فیصلہ کیا اپنی بے گناہی ثابت کرکے انہوں نے تاریخ میں ایک روشن باب رقم کیا اب وہ تاریخ کا ایک اور روشن باب رقم کرہے ہیں۔ پی ٹی آئی مکافات عمل کا بھی شکار ہے جس طرح غیر فطری طریقے سے عمران خان اور انکے دشنام برگیڈ کو ایوان اقتدار میں داخل کیا گیا تھا وہ ہماری قومی تاریخ کا ایک بدنما اور سیاہ باب ہے۔ پی ٹی آئی کے نا اہل و ناکارہ افراد نے 44 ماہی دور حکمرانی میں پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ جو کچھ کیا وہ بھی ہماری تاریخ میں رقم ہو چکا ہے قوم اس دور ظلمات کے منفی اثرات کو ابھی تک بھگت رہی ہے شہاز شریف کی اتحادی حکومت کی 16ماہی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشانات ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر عمرانی دور حکومت جاری رہتا تو ملک دیوالگی کا شکار ہو چکا ہوتا۔ عمران خان اور پی ٹی آئی نے 16 ماہ کے دوران حکومت سے باہر رہ کر جو کردار ادا کیا وہ بھی صرف مایوس کن ہی نہیں پریشان کن بھی ہے۔ انہوں نے کے پی کے اور پنجاب اسمبلی میں اپنی ہی حکومتوں کے ساتھ جو کھلواڑ کیا وہ ہماری سیاسی تاریخ کا بدترین باب ہے۔ عمران خان نے سیاسی نا پختگی کا مظاہرہ نہیں کیا (جیسا کہ لوگ کہتے اور سمجھتے ہیں) بلکہ انہوں نے سوچی سمجھی سکیم کے تحت نظام کے خلاف مورچہ بندی کی۔ 9, 10 مئی کے واقعات اچانک فضا میں رونما نہیں ہوئے بلکہ منظم طریقے سے، مکمل تیاری سے، اندرونی اور بیرونی سرپرستی اور تعاون سے وقوع پذیز کئے گئے۔ ریاست کو للکاراہی نہیں گیا بلکہ اس کا گریبان پکڑ کر، اسے جھنجھوڑ کر اس کے منہ پر طمانچہ مارا گیا۔ لیکن ریاست کی سمجھ داری اور بردباری کے باعث عمران خان حسب توقع نتائج حاصل نہ کر سکے اور جیل جا پہنچے۔ اب انکی پارٹی شکست و ریخت کا شکار ہو چکی ہے۔ مکمل طور پر شکست و ریخت کا شکار ہے۔ دوسری طرف یہ سمجھنے والے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی مرگ مفاجات کا شکار ہو چکی ہے، درست نہیں ہے۔ عمران خان نے دو دہائیاں لگا کر بڑی محنت کے ساتھ فسق و فجور برپا کرنے والی ایک ٹیم تیار کی ہے جو اول تا آخر شیطانیت میں لتھڑی ہوئی ہے جدید ٹیکنا لوجی سے لیس ہے، اس کے اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک مقتدر حلقوں سے روابطہ ہیں جو پاکستان کو پھلتا پھولتا دیکھنا نہیں چاہتے۔ پی ٹی آئی ایسے ہی پاکستان دشمن ایجنڈے کے ساتھ ہوئی نظر آتی ہے عمران خان کو اقتدار میں لانے والوں کو بھی یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ ایک دیومست کی شکل اختیار کرے گا۔ اس بارے میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ عمران خان کی مقبولیت کا تاثر انتہائی بلندی پر ہے انکے مخالف نہ صرف اس کے بیانیے کا توڑ کر سکے ہیں بلکہ اپنے ووٹرز کو بھی گرماتے اور آمادہ پیکار کرنے میں موثر نظر نہیں آرہے ہیں۔ الیکشن مہم نے ابھی تک زور نہیں پکڑا ہے مخالفین اب تک جوڑ توڑ میں ہی مصروف ہیں نہ ن لیگ اور نہ ہی پیپلز پارٹی اور نہ ہی استحکام پاکستانی پارٹی و ایم کیو ایم کوئی موثر بیانیہ تشکیل دے سکے ہیں۔ عوام معاشی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ مہنگائی ایک مسئلہ ہے بجلی، گیس و پانی کی دستیابی اس سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔ بلوں کی سختی اس سے بھی بڑھ کر تکلیف دہ ثابت ہو رہی ہے۔ سب سے اہم شے، عوام کی مایوسی اور مستقبل قریب میں کسی قسم کے ریلیف سے نا امیدی ہے عوام جاری نظام سے بالکل مایوس نظر آ رہے ہیں انکی مایوسی، انتخابی عمل سے لا تعلقی کی صورت میں واضح ہو رہی ہے۔ الیکشن 2024 کی صورت میں ایک موہوم سی امید نظر آر ہی ہے کہ شاید انتخابات کے نتیجے میں معاملات کی بہتری کا عمل شروع ہو جائے لیکن انتخابات ملتوی کرانے کی خواہشیں رکھنے والی قوتیں ابھی تک غیر فعال نہیں ہوئی ہیں ہر دن کوئی نہ کوئی ایسا وقوعہ ضرور ہوتا ہے جس سے انتخابات ہونے یا نہ ہونے کا سوال پوری شدت سے ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔ اور ایسا 8 فروری تک ہوتا رہے گا۔

تبصرے بند ہیں.