الیکشن ہوں گے؟ خوفناک گواہی، اعتراف جرم

79

بڑے بڑے تہلکہ خیز فیصلے ہونے جا رہے ہیں اور سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ بہت کچھ الٹ جائے گا، کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہیں کوئی سمجھ نہیں پا رہا اور جب کوئی سمجھ نہیں پا رہا تو عجیب دھما چوکڑی مچی ہوئی ہے اور اس دھما چوکڑی کے باعث پتا نہیں چل رہا کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے غیر سوشل ویلاگرز  نے نوجوان ذہنوں میں وہ گندگی پھیلائی ہے جو دو چار سال تک نہیں نکلے گی۔ گزشتہ روز ایک پڑھے لکھے نوجوان سے بات ہو رہی تھی اسے پانچ سال پہلے اور بعد کے حالات بتائے مگر اس کا کہنا تھا کہ خان ہی آ کر حالات سنبھالے گا۔ بات کاٹ کر کہا کیا ملک تباہ نہیں ہو گا، لال پیلا ہو کر بولا ”ہونے دیں جب تباہ ہو گا دیکھا جائے گا“ شاہنامہ عمران پڑھنے والوں اور پانچ چھ ٹی وی چینلوں پر بیٹھے اتنے ہی نام نہاد تجزیہ کاروں نے خان کو ایسا اوتار بنا کر پیش کیا ہے کہ اگر خان بذات خود ٹی وی پر آ کر ٹوئٹ کے ذریعے اپنے جرائم اور چار سیشنوں میں بی بی سے ”روحانیت“ کی تربیت لینے کا اعتراف کر لیں تو متاثرہ ذہن کے نوجوان فوراً کہیں گے کہ خان نے گن پوائنٹ پر اعتراف کیا ہے ورنہ وہ تو فرشتہ صفت انسان ہیں۔ ہم قسم کھا سکتے ہیں کہ انہوں نے واقعی نکاح سے پہلے بشریٰ بی بی کو بے نقاب نہیں دیکھا۔ رہ گئی خاور فرید مانیکا کے ملازم محمد لطیف ولد سید محمد عمر 55 سال کی عدالت میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر خوفناک گواہی کہ اس نے بی بی اور خان کو چار بار قابل اعتراض حالت میں دیکھا اس پر ایک نوجوان نے بھڑک کر کہا کہ جس پاکباز خاتون کا چہرہ چشم فلک نے نہیں دیکھا اسے خان نے کیسے دیکھا ہو گا۔ نوجوان جذباتی ہو گیا۔ بولا ”بی بی نے تو شادی کے بعد بھی خان کو صرف آنکھیں دکھائیں اسی لیے تو وہ اہلیہ کا ہر مطالبہ ہر بات مانتے چلے گئے“۔ اس سادگی بلکہ ہٹ دھرمی پر کون نہ مر جائے اے خدا۔ سب دیکھتے ہیں بات کوئی مانتا نہیں۔ خاور مانیکا کے استغاثہ کے بعد عدت میں شدت والے کیس نے فوجداری کیس کی شکل اختیار کر لی ہے۔ چار گواہیاں ہو چکیں باپ کے بعد ماشاء اللہ بیٹوں کی غیرت بھی جاگ اٹھی ہے۔ شنید ہے کہ ان کے انٹرویو بھی تیار ہیں۔ ایک اور خاتون بھی انٹرویو دیں گی شرعی سزا پتھراؤ، عدالت قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی۔ ہاجرہ پانیزئی نے 129 صفحات کی اپنی کتاب میں کپتان کی علت و جبلت بیان کرتے ہوئے گویا دعوت دی ہے کہ ”آج کی رات نہ سونا یارو، آج ہم ساتواں در کھولیں گے“ خان نے اسے کردار کشی قرار دیا لوگوں نے اسے کردار کشائی کہا۔ کپتان اللہ کی پکڑ میں ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔

8 فروری کو الیکشن ہوں گے؟ چیف الیکشن کمشنر کے دو ٹوک اعلان اور اوپر والوں کے واضح پیغام کے باوجود مفروضے، گلی محلوں میں باتیں، تھڑے بازوں کی تاویلیں اور سیاسی جماعتوں کی التوا کی درخواستیں حلقہ بندیوں پر اعتراضات تہلکہ خیز خبریں ”خواہش اپنی جگہ ہیں انتخاب اپنی جگہ“ صرف پیپلز پارٹی کو انتخابات کا یقین ہے اسی لیے نوجوان بلاول بھٹو اپنے بوڑھے باپ کو شدید سردی میں ساتھ لیے وزیر اعظم بننے کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔ وہ 12 دسمبر کے بعد جنوبی اور سنٹرل پنجاب میں دھوم مچائیں گے۔ پنجاب پر نظریں لگی ہیں۔ جو یہاں سے جیتا وہی سکندر، تاہم اوپر والے ان سوچوں میں گم ہیں کہ میاں کے قد کاٹھ کا سیاستدان ہی ملک کو وینٹی لیٹر سے نکال سکتا ہے۔ سوچ بچار کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے گا۔ مسلم لیگ ن 115 پلس سیٹیں لینے کا عزم کیے بیٹھی ہے اس سے پہلے 128 کا ٹارگٹ تھا۔ سروے کرنے والے 75 سیٹوں کی پیشگوئی کر رہے ہیں۔ ٹکٹوں کے لیے انٹرویو ہو جائیں، میاں صاحب بری ہو جائیں، تو جلسوں کے لیے باہر نکلیں، الیکشن میں خان نہیں ہوں گے۔ تین چار مقدمات میں سزائیں ہو گئیں تو اپنا بڑھاپا جیل میں انجوائے کریں گے 80, 85 سال کے ہو کر باہر نکلیں گے تو عناصر میں اعتدال نہیں رہے گا اس وقت تک بقول شاعر مشرق ”نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں“ بلے کے نشان کا معاملہ بھی الجھ گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کو بیلٹ پیپر پر بلے کا نشان نظر نہیں آتا۔ خان کی چال الٹی پڑ گئی۔ بزدار تجربہ کامیاب نہ ہو سکا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کا ایک صاف ستھرا بندہ جو کچھ عرصہ قبل ہی ان کے دائرہ ارادت میں آیا تھا اسے انٹرا پارٹی الیکشن میں بلا مقابلہ چیئرمین منتخب کرا دیا مگر پارٹی منشور پر دھیان نہ دیا الیکشن پر اعتراضات اٹھ گئے۔ بانی رکن اکبر ایس بابر کے مطابق عجیب انتخابات تھے کاغذات نامزدگی ملے نہ ووٹرز لسٹ، نکاح کی تقریب تھی یا پارٹی انتخابات قبول ہے قبول ہے ٹائپ انتخابات میں جن عہدیداروں کا اعلان کیا گیا ان میں چیئرمین کے سوا سارے مفرور یا روپوش، امین گنڈاپور اشتہاری، یاسمین راشد گرفتار، حماد اظہر روپوش، حلیم عادل شیخ مقدمات میں ملوث انتخابی نشان کیسے ملے گا۔ اکبر ایس بابر اور دیگر 14 ارکان درخواستیں تھامے الیکشن کمیشن جا پہنچے، الیکشن کمیٹی کے باہر دو ڈھائی سو ارکان جعلی الیکشن نا منظور کے نعرے لگاتے رہے کمیشن نے تیسری بار الیکشن کرانے کی اجازت نہیں دی، خان کو نوٹس جاری کر دیا گیا۔ پی ٹی آئی کے لیے جائے ماندن نہ پائے رفتن، دیکھنا ہو گا نئے وکیل چیئرمین بند گلی سے کیسے نکلتے ہیں۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ پی ٹی آئی کو عوام کی بڑی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ دیہی علاقوں میں پی ٹی آئی، ن لیگ سے آگے نہیں تو پیچھے بھی نہیں، شہری علاقوں میں بھی وہ یکساں مقبول ہے۔ مگر ایسی مقبولیت کا کیا فائدہ جسے قبولیت کی سند نہ مل سکے۔ الیکشن سر پر آ پہنچے امیدوار کہاں ہیں کیا سارے امیدوار وکیل ہوں گے بابر اعوان نے کوئی خفیہ حکمت عملی تیار کی ہے وکیل امیدواروں کا فیصلہ حامد خان کریں گے۔ 60 فیصد آزاد ہوں گے گویا ”کل کسی اور نام سے آ جائیں گے ہم لوگ“ کی پالیسی اپنائی جائے گی۔ الیکشن کی دھند چھٹنے پر سارے آزاد پی ٹی آئی کا طوق پہن لیں گے۔ کپتان اپنی دانست میں پتلی گلی سے نکلنے کی کوششیں کر رہے ہیں، مگر ہر نئے دن کے ساتھ مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ سپریم کورٹ کو خط لکھا نیچے دستخط نہیں تھے۔ مثبت جواب نہ مل سکا۔ ہر کام موکلوں سے کرانے کے عادی ہیں 5 اگست کے بعد پہلی بار پانچ چھ رپورٹرز کی شکل دیکھی تو کھل گئے مگر جو کچھ کہا اس سے الٹی آنتیں گلے پڑیں سائفر کیس میں جنرل (ر) باجوہ اور امریکی سفارتکار ڈونلڈ لو بلانے کی دھمکی دی۔ امریکی سفارتکار کو تو استثنیٰ حاصل ہے جنرل (ر) باجوہ نے محکمے سے حاضری کے لیے رجوع کر لیا طلبی پر ایسی کہانیاں سنائیں گے کہ ہوش و حواس عقل و خرد سب رخصت ہو جائیں گے۔ سائفر کیس اور سانحہ 9 مئی میں چھٹکارا ممکن نہیں، پی ٹی آئی کی نئی تنظیم کے سارے وکلا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کی کوششوں میں مصروف اور اپنے لیے کچھ مراعات حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہے تھے کہ اچانک خان نے اپنی ایک ٹوئٹ سے حالات بگاڑ دیے۔ غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی با عزت واپسی کے بارے میں آرمی چیف کے حالیہ بیان کی مخالفت میں ایک ٹوئٹ کھڑکا دی۔ جس میں ”بن بلائے“ مہمانوں کی اپنے گھروں کو واپسی کتاب و سنت کے منافی قرار دیتے ہوئے اسے ناقص پالیسی سے تعبیر کیا۔ خان اڈیالہ جیل میں ”عیش و عشرت“ کی زندگی گزارنے کے دوران سب کچھ بھول گئے ہیں کہ ان کے اپنے دور کے مشیر معید یوسف نے ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ افغان مہاجرین کو واپس جانا چاہیے۔ ہم ان کے زیادہ دیر قیام کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ لگتا ہے خان صاحب ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کے موڈ میں ہیں جس کے بعد نہ صرف ان بلکہ ان کے نئے چیئرمین کے راستے کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔ سانحہ 9 مئی پر بھی ان کے جے آئی ٹی کو حالیہ اعتراف جرم نے سب کو چونکا دیا ہے جس میں انہوں نے جلاؤ گھیراؤ کو اپنی گرفتاری کا رد عمل قرار دیا۔ یو ٹرن کے ماسٹر ہیں سانحہ 9 مئی پر بھی ان کے چار یو ٹرن ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ پہلے کہا مجھے جنہوں نے گرفتار کیا ان ہی کے خلاف رد عمل ہوا۔ چند دن بعد ہوش و حواس بحال ہوئے تو فرمایا ایجنسی کے لوگ تھے (ان کے ایک لاہوری وکیل آج تک اسی فرمان پر کاربند ہیں) حواس مختل ہوئے تو ارشاد ہوا محسن نقوی نے آگ لگوائی۔ ذہنی رو بھٹکی تو چند روز پہلے کہا کہ نواز شریف نے سب کچھ کرایا۔ سب لندن پلان کا حصہ تھا۔ گزشتہ ہفتہ پھر پہلی بات دہرا دی کہ جنہوں نے گرفتار کیا ان ہی کے خلاف کارکنوں نے جلاؤ گھیراؤ کیا۔ ان کا اعتراف جرم جے آئی ٹی کارروائی کا حصہ بن گیا۔ ایک مقدمہ، چار یو ٹرن اور اعتراف جرم کے باوجود ”ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان“ جس نے کسی جانب سے بھی اپنی حمایت میں آواز نہ اٹھنے پر اپنے مہربانوں کے خلاف ہی اعلان جنگ کر دیا ہے تاہم انہیں سوچنا چاہیے کہ ریاست دشمن کیسز میں جان جانے کا خطرہ ہے سیاست نہیں چمکے گی۔

تبصرے بند ہیں.