گرم ہے ظلم کا بازار یہاں برسوں سے

61

فلسطینیوں کو اگر دنیا کی سب سے زیادہ بدنصیب قوم کہا جائے تو یہ مبالغہ آرائی نہ ہو گی۔ بیسویں صدی دنیا بھر میں آزادی کی صدی تھی، تقریباً تمام ہی ایشیائی ممالک یورپ کی غلامی کی زنجیریں توڑ کر آزادی کی فضا میں سانس لے رہے تھے۔ مگر اس کے بر خلاف 1949 میں آزاد فلسطین کو غلام بنایا جا رہا تھا۔ دنیا بھر کے یہودی اکھٹا ہو کر فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کر تے ہوئے وہاں صیہونی ریاست قائم کر رہے تھے۔ فلسطین کے لوگ اس وقت اپنا گھر بار چھوڑ کر اردن، شام اور لبنان جیسے پڑوسی ممالک میں پناہ گزیں خیموں میں پناہ لے رہے تھے۔ اب ایک بار پھر فلسطین اپنی آزادی کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے، ہمیشہ کی طرح دنیا آج بھی تماشا دیکھ رہی ہے مگر اسرائیل چاہے جتنے بھی ظلم کر لے فلسطین کے باسی اپنی سر زمین اور آزادی سے دست بردار ہونے کے لیے کسی صورت تیار نہیں۔ قبلہ اول کی بازیابی ملت اسلامیہ کی گردن پر قرض ہے، لاکھوں نہتے فلسطینی روز شہید کیے جا رہے ہیں، نسل در نسل فلسطینی آزادی کی جنگ جرأت، استقامت اور بہادری کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ فلسطینی تنظیم حماس کی قیادت میں لڑی جانے والی یہ جنگ اسرائیل کی سرحد غزہ میں جاری ہے۔ حماس ایک تنظیم ہے اور اس ایک تنظیم  نے اسرائیل کے دانت کھٹے کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی، امریکہ انگشتِ بدنداں ہے، یورپ محو حیرت ہے کہ ایک تنظیم نے دنیا کے طاقتوروں کی نیندیں تک اڑا کر رکھ دی ہیں۔ حماس فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم کا نام ہے جس نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا دیے، جس کے آگے دنیا کا جدید ترین اسلحہ ہیچ ہے۔ اسرائیل کی غزہ پر جارحیت، سفاکیت اور وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں اب تک ہزاروں افراد شہید ہو چکے ہیں۔ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد سے ایک نام جو مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ پورے عالم ِ اسلام میں نمایاں ہو کر سامنے آیا وہ ابو عبیدہ کا ہے۔ غزہ میں ہر دم بدلتی صورتحال کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے حماس کے ملٹری ونگ کتائب القسام کے ترجمان ابوعبیدہ اپنی پریس کانفرنس اور وقتاً فوقتاً اپنے آڈیو اور ویڈیو پیغام جاری کرتے رہتے ہیں۔ حالیہ فلسطین اور اسرائیل کی جنگ ہی نہیں 2006 کے بعد سے ہی ابو عبیدہ فلسطینیوں، مشرقِ وسطیٰ اور مسلم دنیا کے لیے ایک مشہور شخصیت بن گئے۔ ان کی فصاحت، دو ٹوک اندازِ تخاطب اور ان کا جذباتی لہجہ ان کی شناخت ہے۔ 2006 میں ابو عبیدہ کی طرف سے جاری کردہ پہلا بیان القسام برگیڈز کی جانب سے جنوبی غزہ کے شہر رفع کے مشرق میں ایک فوجی آپریشن کی ذمہ داری قبول کرتے وقت سامنے آیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد پھر حالیہ کشیدگی میں ابو عبیدہ کی آواز مزاحمت اور استقامت کا استعارہ بن چکی ہے۔ ابو عبیدہ کی اصل شناخت پہلے دن سے ہی بہت سے لوگوں کے لیے معمہ رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی پلیٹ فارم پر ابو عبیدہ کے متعلق معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ ابو عبیدہ کی صحیح شناخت کا کسی کو بھی علم نہیں ہے، وہ ہمیشہ ویڈیو ریکارڈنگ میں اپنے چہرے کو سرخ کوفیہ سے ڈھانپ کر رکھتے ہیں۔ ابو عبیدہ کے متعلق سچائی پر مبنی حقیقت یہ ہے کہ وہ شہرت اور پہچان حاصل کرنے میں کوئی بھی دلچسپی نہیں رکھتے۔ اسرائیلی میڈیا ذرائع کے مطابق ابو عبیدہ کا تعلق نیلیا نامی گاؤں سے ہے، جو ان متعدد فلسطینی دیہاتوں میں سے ایک ہے جن پر اسرائیل نے 1948 میں قبضہ کر کے تباہ کر دیئے تھے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جنگ دراصل بھیانک خونریزی اور ہمہ گیر تباہی کا نام ہے۔ کرہ ارض کے کسی بھی حصے میں ہونے والی جنگ سے ہزاروں قیمتی جانوں کا زیاں لازمی ہے، اموال و املاک کی بے حساب بربادی سے کسی قسم کے انکار کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام دینِ فطرت اور امن اور سلامتی کا مذہب ہے، عقل و شعور، حکمت و بصیرت، صبر، تحمل و برداشت اور وسیع النظری دینِ اسلام کا خاصا ہے مگر جب کسی قوم پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہوں تو دینِ اسلام مظلوموں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ جنگ کے ذریعے ظالموں کو ان کے ظلم سے روکیں۔ اپنے اوپر ہو رہے مظالم کو سہتے رہنا، حتیٰ کہ اپنے افکار و نظریات تک سے مصالحت کر لینا صریح بزدلی ہے جسے دینِ اسلام بالکل بھی پسند نہیں کرتا۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کا وفد تین (طرح کے لوگ) ہیں، مجاہد، حاجی اور عمرہ کرنے والا۔ یعنی یہ تینوں اللہ کے عقرب ہیں اور ایلچی کا درجہ رکھتے ہیں۔ جہاد فی سبیل اللہ کی اہمیت کا اندازہ اس روایت سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہﷺ سے کسی نے پوچھا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لانا۔ کہا گیا اس کے بعد کون سا؟ آپؐ نے فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ آج جب نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کی انسانیت سوز بمباری جاری ہے تو سرزمینِ فلسطین انسانیت کو مدد کے لیے پکار رہی ہے، آج فلسطین کے بے بس اور مظلوم لوگ امتِ مسلمہ کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ آج وہی مقدس ارضِ فلسطین پکار پکار کر پوچھ رہی ہے کہ آخر کب تک فلسطین کی مقدس سر زمین خون آلود ہوتی رہے گی؟ کب تک فلسطینی مائیں، بہنیں خوار ہوتی رہیں گی؟ آخر کب تک نہتے فلسطینیوں کے جنازے اٹھائے جاتے رہیں گے؟ آخر فلسطین کی آزادی کی صبح کب طلوع ہو گی؟ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ جنگ میں جیت چاہے جس کی بھی ہو نقصان انسانیت کا ہوتا ہے۔ بقول ساحر لدھیانوی:
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن کا خون ہے آخر
بم گھروں پہ گریں کہ سرحد پر
روح تعمیر زخم کھاتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لیے اے شریف انسانو
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

تبصرے بند ہیں.