وزیر اعلیٰ پی کے ایل آئی کا دورہ کریں

43

آج کے دور میں ٹیکنالوجی اتنی ایڈوانس ہو چکی ہے کہ اگر حکومتیں چاہیں توبہت آسانی سے اور سستا طریقے سے عام لوگوں کے مسائل کو اگر ختم نہیں تو کافی حد تک کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ایسے سرکاری دفاتر جن کا تعلق عوامی مسائل اور ان کے حل سے ہے وہاں پر ون ونڈو آپریشن کے ذریعے اگر کام کیا جائے تو دفاتر میں رش بھی کم ہو گا اور رشوت وغیرہ کی شکایات کا بھی ازالہ ہو سکے گا۔
سننے میں تو یہ آئیڈیا زبردست لگتا ہے لیکن جب اس قسم کا نظام بنا کر اس پر چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھا جائے گا تو پھر تو وارداتیے اس میں سے اپنے لیے گنجائش نکال ہی لیں گے۔ اس سلسلہ میں سب سے بڑی مثال ایل ڈی اے کی ہے جہاں رشوت اور بدعنوانی کی شکایات کی بھرمار کے بعد ون ونڈو سسٹم متعارف کرایا گیا تھا۔ اور یہ طے کیا گیاتھا کہ سائلین ایل ڈی اے کے مختلف دفاتر میں چکر لگانے کے بجائے ون ونڈو کاونٹر پر اپنی فائل جمع کرائیں گے اور وہاں پر بیٹھا ہوا اہلکار فائل کا معائنہ کرنے کے بعد سائل کو کوئی دن دے دے گا اور سائل مقررہ دن ون ونڈو کاؤنٹر سے ہی آ کر اپنی فائل لے جائے گا۔ اگر اس کی اساس کے مطابق اس پر عمل ہوتا تو یہ ایک بہترین سسٹم تھا لیکن چونکہ سسٹم بنانے اور چلانے والوں نے اس پر کسی قسم کا کوئی چیک ہی نہیں رکھا لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ اس سسٹم میں سوراخ ہونا شروع ہو گئے اور سائلین ویسے ہی خوار ہیں جیسے پہلے تھے۔ معلوم یہ ہوا ہے کہ ایل ڈی اے ملازمین سائلین کو براہ راست فون کرتے ہیں اور دفتر سے باہر کسی مقام پر ملاقات کر کے رشوت وغیرہ کا سلسلہ چلائے رکھتے ہیں۔ اس قسم کی خرابی کی نشاندہی کا مقصد یہ نہیں کہ ہمیں اپنے ملک اور شہر کے نظام سے مایوس ہوجانا چاہیے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ جہاں خرابیاں ہیں ان کا سدباب کیا جائے اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اس قسم کے سسٹم کواپ گریڈ کیا جائے۔
آج کل ٹریفک پولیس کی جانب سے ہونے والی سختی کی وجہ سے ڈرائیونگ لائسنس بنوانے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا ہے۔ اس غرض سے بڑی تعد اد میں لوگ لائسنس جاری کرنے والے سینٹرز کے باہر جمع رہتے ہیں۔ یہ لوگ صبح صبح آ کر لائنوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور گھنٹوں بغیر کچھ کھائے پیے اور رفع حاجت کیے انہی لائنوں میں موجود رہتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ پنجاب حکومت اور محکمہ ٹریفک پولیس کائسنس کے درخواست کندگان کی آن لائن رجسٹریشن کرے اور انہیں مقررہ وقت پر سینٹر پر بلا کر ان کا کام کر دیا جائے۔ لرننگ لائسنس کے اجرا کے لیے چونکہ ڈرائیونگ ٹیسٹ کی بھی کوئی فارمیلٹی نہیں ہوتی اس لیے اس کے اجرا کے لیے مزید مراکز باآسانی قائم کیے جاسکتے ہیں۔ ڈرائیونگ لائسنس کے اجرا سے چونکہ حکومت کو اچھا خاصا ریونیو اکٹھا ہوتا ہے لہٰذا اگر جمع ہونے والی اس رقم کا ایک حصہ درخواست دہندگان کو سہولت فراہم کرنے پر بھی خرچ کر دیا جائے تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔
ڈرائیونگ لائسنس کا مسئلہ تو ابھی نیا ہے اور شائد جلد ہی اس سلسلہ میں رش بھی کم ہونے لگے لیکن نادرا دفاتر کے اندر اور باہر کا رش تو اس ادارہ کے قیام کے بعد سے آج تک کم ہی نہیں ہو سکا۔ ایک تو حکومت اس مسلہ پر آنکھیں بند کیے رکھتی ہے تو دوسرا خیر سے نادرا ملازمین اس قدر بدتمیز اور بدتربیت ہیں کہ وہ ہر درخواست دہندہ کے ساتھ ایک فرض سمجھ کر بدتمیزی کرتے ہیں۔ نادرا بھی حکومت کا ایک کماؤ پتر ہے۔ اور درخواست دہندگان روزانہ کی بنیاد پر ایک بڑی رقم سرکار کے کھاتے میں جمع کراتے ہیں لیکن مجال ہے کہ حکومت کو خیال آیا ہو کہ وہ ان درخواست دہندگان کی سہولت اور وقت کی بچت کے لیے بھی کچھ کرے جو ان دفاتر میں آ کر پورا پورا دن لائنوں میں کھڑے رہتے ہیں۔
واپڈا، پولیس، نادرا یا عام ہسپتالوں کی تو خیر بات ہی چھوڑیں، چند روز قبل ایک مریض کو لاہور کے سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال پی کے ایل آئی (پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ) میں داخل کرانے کے لیے جانا ہوا۔ واضح رہے کہ پی کے ایل آئی ایک مہنگا ترین ہسپتال ہے اور یہاں گردہ اور جگر کے مریض پورے ملک سے آتے ہیں۔ ہسپتال کی بلڈنگ اور انفراسٹرکچر دیکھ کر خوشی ہوئی، عملہ بھی کم از کم بدتمیز تو بالکل بھی نہیں تھا، لیکن جب مریض کو آپریشن کی غرض سے ہسپتال میں داخل کرنے کی بات آئی تو معلوم ہوا کہ تمام تر سٹیٹ آف دی آرٹ سسٹم کو اپنانے کے باوجود مریضوں کو خجل خوار کرنے میں یہ بھی کچھ کم نہیں۔ ایک ونڈو سے دوسری ونڈو، ایک فلور سے دوسرے فلور اور ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں چکر لگا لگا کر کم از کم میں تو بالکل ہی چکرا گیا۔
ایک ذمہ دار سے بات کر کے انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ ایک ہسپتال ہے یہاں پر تو صرف مریضوں کے ساتھ ڈیلنگ کی جاتی ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر مریض کے ساتھ کوئی توانا قسم کا ہی اٹینڈنٹ ہو، کسی کا اٹینڈنٹ بھی ایک بزرگ ہو سکتا ہے۔ یہ کیسے فارمیلٹی پوری کرنے کے لیے پورے ہسپتال کے چکر لگاتے پھریں۔ آپ مہربانی فرما کر اس سارے نظام کی انجام دہی ایک ون ونڈو آپریشن کے تحت ممکن بنائیں۔ اب جانے کب نگران وزیر اعلیٰ صاحب کسی کام سے یا دورہ کرنے اس ہسپتال میں آئیں گے اور اس بات کا احساس کریں کہ چلو اگر مریضوں کو مفت یا سستا علاج معالجہ مہیا نہیں کیا جا سکتا تو کم از کم یہاں آنے والے مریضوں اور ان کے لواحقین کو خجل خوار کرنے میں ہی کوئی کمی کر دی جائے۔ ممکن ہے مریضوں کی پریشانی دیکھ کر وہ فوری طور پر ایک ایگزیکٹو آرڈر پاس کر دیں اور یہاں کے نظام میں کچھ بہتری آ سکے۔

تبصرے بند ہیں.