قومی احتساب بیورو (نیب) ایک عرصے سے تنقید کا شکار ہے۔سیاسی حلقوں میں اسے سرے سے ختم کرنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں کیونکہ جو کام اس کے ذمے لگایا گیا ہے اسے انجام دینے کیلئے پہلے ہی کچھ ادارے موجود ہیں۔ یہ بھی بہت سے سیاستدان کہتے ہیں کہ اسے ایک ڈکٹیٹر کے حکم پہ جاری کیا گیا تھا جو جائز یا ناجائز طریقے سے بہت سے لوگوں کو شکنجے میں لانا چاہتا تھا۔ نیب نے اس خواہش کو پورا بھی کیا۔
اس ادارے کے قائم کرنے کا مقصد تو یہ تھا کہ ملک میں بدعنوانی، بے ضابطگی، کرپشن اور قومی مسائل کی لوٹ مار پر سے نہ صرف پردہ اُٹھایا جائے بلکہ ذمہ دار افراد کو قانونی کٹہرے میں بھی لایا جا سکے۔ سیاسی شخصیات کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ برسر اقتدار حکومتوں کے مخالفین پر ایسے مقدمات بھی بنائے جو عدل و انصاف کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتے تھے۔ ان تمام شخصیات کی بیان با زیاں اور لفاظی باتوں کو ایک طرف رکھ کر اگر موازنہ کیا جائے تو تمام سیاسی جماعتیں جو بھی برسر اقتدار میں آئیں اُنہوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو شکنجے میں لانے کے لیے نیب کے ادارے کا ہی استعمال کیا۔ مزے کی بات بھی یہی ہے کہ ملک کے بڑے مگرمچھوں کو ہی تو شکنجے میں لانے کے لیے اس ادارے کو قائم کیا آج وہی لوگ خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہوئے اس ادارے کو بند کرنے یا اس کی پالیسیز میں ترامیم کی بات کر رہے ہیں۔
سیاسی مخالفین پر ایسے مقدمات بھی بنائے جو عدل و انصاف کے تقاضوں پہ پورا نہیں اُترتے تھے۔جسکی وجہ سے اس ادارے کی ساکھ بھی خراب ہوئی۔ سیاستدانوں کے علاوہ بہت سے بیوروکریٹس پر بھی مقدمات قائم ہوئے جس سے بیوروکریسی تو بہت بد دل ہوئی،بہت سے مقدمات میں سے کچھ درست تو کچھ سیاسی انتقام کے زیر اثر بے بنیاد بھی نکلتے رہے۔ مختلف سرکاری لوگوں اور بیوروکریٹس نے اپنے تحفظات کا اظہار کچھ یوں بھی کیا مثلاً ایک سیکرٹری کے خلاف انکوائری لگا دی جاتی ہے،ریلیف مل جاتا ہے مگر کیس ختم نہیں ہوتا۔ ایک اور سیکرٹری نے بتایا کہ کابینہ کی منظوری سے پیسے ملتے ہیں اور پروجیکٹس پر خرچ ہوتے ہیں تو انکوائری لگا دی جاتی ہے۔اگر حکومت کے دئیے گئے پیسے خرچ نہ ہوں اور وہ لیپس ہوجائیں تو حکومت ہم سے باز پرس کرتی ہے اور خرچ کریں تو نیب انکوائری لگا دیتا ہے۔
احد چیمہ جیسے افسروں جن کے ہر کیس میں کچھ ثابت نہیں ہوا لیکن ہتھکڑیاں لگا کر اُن کا میڈیا ٹرائل بھی کیا گیا۔ 56 کمپنیوں کے خلاف کیسز ہوئے اُن کمپنیوں کے پروجیکٹس کی منظوری کابینہ نے دی جبکہ سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لے لیا نیب نے کیس بنایا اور افسروں سے تنخواہیں واپس لی گئیں جبکہ کچھ کے پاس تو پیسے واپس کرنے کے بھی نہ تھے۔ ان تمام حالات و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے نیب چیئرمین نے یقین دہانی کرائی اور ان تمام پہلوؤں پہ زیر غور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ یہ تو میں نے تمام وہ پہلوؤں پہ روشنی ڈالی جو کہ سیاسی شخصیات اور بیوروکریٹس کی سوچ تھی۔
مگر ایک اہم پہلو جس کی مد میں اربوں کی لوٹ مار کا بازارہر دور میں گرم رہا وہ طریقہ ہاؤسنگ سوسائٹی کی مد میں کیا گیا۔ ایم پی اے،اور ایم این ایز نے بہت سی سرکاری اراضی کو ہاؤسنگ سوسائٹی کی صورت میں بیچا۔ایک کیس تو خود میں نے نیب میں دائر کیا جس کا کوئی حتمی نتیجہ ہی سامنے نہ آسکا۔ اب جہاں پالیسیوں میں اتنی ترامیم ہوئیں وہاں چیئرمین نیب نے ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے لیے بھی نئی پالیسی کا اعلان کیا،ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہر دس میں سے 7ہاؤسنگ سوسائٹیاں فراڈ کر رہی ہیں۔عوام کو ان سے بچانے کے لیے ان کے خلاف شکنجہ سخت کیا جائے گا۔
مگر میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتی جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ ایک ہاؤ سنگ سوسائٹی کے خلاف تو خود میں نے کیس دائر کیا اور جتنی بھی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنی ہیں 90% تو خود ایم این ایز ہوتے ہیں اور اگروہ خود کو ظاہر نہ بھی کریں تو زیادہ تر اُنہوں نے اپنے فرنٹ مین رکھے ہوتے ہیں اور سارا کام اُن کے ہی زیر اثر ہو رہا ہوتا ہے۔
جب بھی کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی کا کیس نیب پہنچتا ہے یا تو پھرایک فون کال چیئرمین نیب کو جاتی ہے اور ساتھ ایک قیمتی تحفہ بھیج دیا جاتا ہے تو معاملہ وہیں دفن ہو جاتا ہے۔ادارہ کوئی بھی ہو جب تک غیر جانبدار ہوکے فیصلے نہیں کیے جائیں گے تب تک کرپشن زدہ کلچر کا خاتمہ ہو سکے گا اور نہ ہی اقتدار میں چھپی کالی بھیڑوں کو شکنجے میں لایا جا سکتا ہے۔ احتساب کا ادارہ نظام میں پائی جانے والی خرابیاں دور کرنے کیلئے بہت ضروری ہے مگر اسے شفاف اور منصفانہ طریقے سے اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں تاکہ کوئی اس کی جانبداری پر انگلی نہ اُٹھا سکے۔
تبصرے بند ہیں.