ارتقا یا انحطاط،برداشت یا وحشت

104

ارادہ تو تھا کہ موجودہ سیاسی صورتحال پر لکھتا مگر کیا لکھوں؟ لطیف کی عمران اور بشریٰ مانیکا کے متعلق گواہی لکھوں، ویسے تو گواہی دے کر یا ایسی بات کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا کر خاور مانیکا کے بیان کے بعد لطیف کا بیان کوئی خبر ہے نہ ہی انکشاف۔ لوگوں کے گمان اور وجدان اس سے کہیں زیادہ گہرے اور باخبر ہیں مگر معاشرت کی اساس جس کو زمین بوس کرنا عمران نیازی نے شروع کیا بالآخر خود اپنے ہی کردار کی گواہی کا انتظام کر کے معاشرت کی تدفین کو پایہ تکمیل پر پہنچایا۔ ابھی کالم شروع ہی کیا تھاکہ معروف قانون دان، دانشور اور انتہائی زیرک استاد جناب محمد اکرم نظامی ایڈووکیٹ کا واٹس ایپ میسج آ گیا۔ نظامی صاحب کا میسج یا گفتگو اور گفتگو کا ایک ایک لفظ پوری پوری کتاب ہوا کرتا ہے۔ ان کا وٹس ایپ پیغام ”سقراط کی درس گاہ کا صرف ایک اصول تھا، اور وہ تھا…… ’برداشت‘۔ یہ لوگ ایک دوسرے کے خیالات ’تحمل‘ کے ساتھ سنتے تھے…… یہ بڑے سے بڑے ’اختلاف‘ پر بھی ایک دوسرے سے ’الجھتے‘ نہیں تھے…… سقراط کی درسگاہ کا اصول تھا…… اس کا جو ’شاگرد‘ ایک خاص حد سے اونچی آواز میں بات کرتا تھا…… یا پھر دوسرے کو گالی دے دیتا تھا…… یا دھمکی دیتا تھا…… یا جسمانی لڑائی کی کوشش کرتا تھا…… اس کو فوراً اس ’درسگاہ‘ سے نکال دیا جاتا تھا…… سقراط کا کہنا تھا ’برداشت‘ سوسائٹی کی ’روح‘ ہوتی ہے، سوسائٹی میں جب ’برداشت‘ کم ہو جاتی ہے تو ’مکالمہ‘ کم ہو جاتا ہے اور جب ’مکالمہ‘ کم ہوتا ہے تو معاشرے میں ’وحشت‘ بڑھ جاتی ہے…… اس کا کہنا تھا…… اختلاف، دلائل اور منطق…… پڑھے لکھے لوگوں کا کام ہے…… یہ’فن‘ جب تک پڑھے لکھے ’عالم اور فاضل‘ لوگوں کے پاس رہتا ہے اس وقت تک معاشرہ ترقی کرتا ہے…… لیکن جب مکالمہ یا اختلاف ’جاہل‘ لوگوں کے ہاتھ آ جاتا ہے تو پھر معاشرہ انارکی کا شکار ہو جاتا ہے…… وہ کہتا تھا…… کوئی ’عالم‘ اُس وقت تک ’عالم‘ نہیں ہو سکتا جب تک اس میں ’برداشت‘ نہ آ جائے۔“ یہ پیغام مجھے 400 سے زائد قبل مسیح کے زمانہ میں لے گیا۔ میں پریشانی نہیں پشیمانی کے ساتھ حیران تھا کہ ہمارا ہر شعبہ میں ارتقا ہے یا انحطاط، ہماری معاشرت کی اساس برداشت ہے یا وحشت۔ تحمل یا طیش، اختلاف یا دشمنی، دلائل یا فتویٰ، منطق یا ڈھٹائی، جہالت یا علمیت، کرپشن یا دیانت، میرٹ یا میراث، انسانیت یا حیوانیت، قربانی یا لالچ، وضع داری یا مکاری۔ کچھ سمجھ نہیں کہ ہمارا ارتقا ہے یا انحطاط۔

قانون بنتا بعد میں ہے اس سے بچ نکلنے کے چور دروازے تو ایک طرف اس کے استعمال میں جو خوفناک صوابدیدی اختیار استعمال ہوتا ہے اس کی تفصیل کوئی کیا لکھ پائے گا۔ اب حال ہی میں کم عمر ڈرائیونگ کرنے والوں کے متعلق فیصلہ آیا ابھی اس فیصلہ سے کیا ہوا کہ پولیس والوں نے قانون پر ایسا عمل شروع کیا، وزیراعلیٰ (نگران) محسن نقوی اور آئی جی پنجاب نے بھرپور عملدرآمد کا عندیہ دیا۔ بس پھر وارے نیارے ہو گئے، محرروں کی چاندی ہو گئی، سڑکیں، میٹرو پولیٹن پولیس کی ملکیت بن گئیں، ٹریفک قوانین آسمانی بجلی کی طرح جس پر مرضی گرنے لگے اوپر سے اس سارے ماحول کو لائسنس کی فیس بڑھا کر دو آتشہ کر دیا گیا۔ یہ سب کیا ہے؟ دراصل ہماری بنیاد میں ہی محکمہ آبادکاری سے کرپشن کا کینسر پھیلا جس نے پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہمارا ہر قدم جو آگے بڑھنے کے لیے زور لگاتا تو نتیجتاً قدم آگے نہیں بڑھا، دلدل میں مزید دھنس گیا ہے۔ ذرا غور فرمایئے کہ کس نیک نیتی کے ساتھ ایف آئی اے بنائی گئی مگر چند سال میں اس کی دسترس میں آنے والے تمام وفاقی ادارے اس کی چراگاہ بن گئے۔ تمام محکموں میں ریس لگ گئی، بڑی گاڑیاں، سہولتیں، ٹھنڈے اور گرم عالیشان دفاتر مگر سائل رُل گئے۔ یہی حالت عدلیہ اور بیوروکریسی کی ہو گئی۔ سادگی اور عاجزی سے ہماری کوئی واقفیت نہیں رہی۔ دلیل سے ہمیں نفرت ہے، پسند و ناپسند ہمارا میرٹ ہے، حل صرف یہی ہے کہ ہم اپنے آپ سے سچ بولیں۔ سچ بولنے والے کو پسند کریں، دلیل کو تھپڑ پر فضیلت دیں، اختیارات کو ذمہ داری سمجھیں اور حقوق کے تقاضے سے پہلے فرائض کی ادائیگی کا احتساب کر لیں۔ ہم ہر لحاظ سے انحطاط پذیر ہیں، ارتقا کی طرف ہرگز نہیں۔ یہ وہ سچ ہے جو سب سے پہلے حکمران طبقوں کو عوام سے بولنا ہو گا۔

ہر انسانی زندگی اپنے ساتھ ایک فلسفہ لے کر پیدا ہوتی ہے مگر ہم نے اپنی معاشرت کو آہستہ آہستہ نہیں، بہت تیزی کے ساتھ کچھ اس طرح تنزلی میں مبتلا کر دیا کہ زندگیاں بغیر اپنا فلسفہ عیاں کیے ضائع ہوتی چلی گئیں۔ برداشت اور دلیل تو رہ گئی بہت دور، تحمل تو جیسے اپنی زمین کا پودا ہی نہیں۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے دل آزاری، کسی کا حق مارنا، کسی کی تذلیل و تضحیک کرنا، تکبر، اکڑ، رعونت، کرپشن، مفت خوری ہم نے بڑی محنت سے اپنے قومی شعور میں، طرز زندگی، ریاستی آئین میں، اقتدار اور انصاف کے ایوانوں میں بطور پالیسی اپنا رکھے ہیں گویا اس سے باہر نکلے تو دم نکل جائے گا۔

ٹروتھ کمیشن تو نہ بن سکا مگر تاریخ خود فیصلے کرنا شروع ہو گئی۔ اب دیکھئے آنے والے وقتوں میں ان شاء اللہ بھٹو سرخرو ہوں گے اور جج کٹہرے میں۔ اس کو ارتقا سمجھا جائے گا ورنہ انحطاط تو دیکھ ہی رہے ہیں۔ تھینک یو محمد اکرم نظامی صاحب! آپ نے تحریر کا رُخ موڑ دیا۔ ہم سب ایسے مفتی ہو گئے کہ فتویٰ دیا اور تمام دلائل بردباری، نقطہ ہائے نظر، افکار، برداشت کو اس بربریت اور وحشت کے ساتھ نافذ کرتے ہیں کہ جنگل کا قانون بھی ہماری معاشرت کو نصیب نہ رہا۔ انفرادی طور پر بھول جاتے ہیں کہ زندگی کا دورانیہ کچھ زیادہ نہیں ہوتا۔ اسی میں اپنے حصے کی زمین سے کھدائی کی محنت کر کے انسانیت، اخلاق، نیکی کے نگینے تلاش کر کے اپنی معاشرت Contribute کرنا ہوتے ہیں مگر بقول صاحب اسلوب شاعرہ سائر اعظم ”ہتھیلی پہ تیرتا ہوا وقت“ کسی بھی لمحے اچانک موجود نہیں رہتا۔ تکبر، ضد ہمارا اجتماعی مسئلہ اور قومی روگ بن کر رہ گیا۔ عدم برداشت پہچان بن گئی، بھلے جب دل چاہے سڑکوں میں ٹریفک، سرکاری دفاتر میں اہلکاروں اور افسروں کے مزاج، حکمرانی کے دربار اور بازار کے کاروبار میں پھیلے ہوئے غدر کو دیکھ لیں جب تک برداشت، سچائی، دلیل کو رواج نہیں ملتا، تب تک انسانی معاشرت کے انحطاط کو روکنا تو درکنار ہم جنگل کے قانون کو بھی حسرت سے دیکھتے رہیں گے۔ مگر ہم تو کچھ کیے بغیر گفتگو میں پوری پوری زندگی اپنا تعارف کرانے میں گزار دیتے ہیں کہ میری یہ عادت ہے میرا یہ اصول ہے، میں یہ ہوں اور میں ایسا ہوں، حالانکہ کون کیا ہے، اس کا تجزیہ تو لوگ کرتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.