ناک آؤٹ کا انتظار

32

ہوا کے زور پر پتنگ بلند ہوتے ہوتے کبھی نظروں سے اوجھل ہونے لگتی ہے، کبھی پتنگ باز سجنا کے ہاتھ سے نکل کر کسی اور طرف کا رخ اختیار کر لیتی ہے، ایسے میں ڈور الجھ جائے یا ٹوٹ جائے تو کافی دیر تک سمجھ نہیں آتی ہوا کیا ہے۔ ایک سیاسی پتنگ چڑھی تو بہت زور شور سے تھی پھر اچانک کیا ہوا کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا، ماہر پتنگ باز کہتے ہیں ڈور الجھ گئی ہے، الجھنے کے بعد ٹوٹ گئی ہے، معاملہ صفائی پر آ کر بگڑا ہے، ایک کہتا ہے میدان صاف کر کے ہمارے حوالے کر دو، جواب ملتا ہے ہم نے جھاڑو آپ کے ہاتھ میں تھما دیا ہے خاکروبوں کی ٹیم آپ کے حوالے کر دی ہے اب کچھ کام خود بھی کریں، سب کچھ ہم نے ہی کرنا ہے تو پھر آپ کی ضرورت کیا ہے، میدان صاف کرنے کے بعد تو بس سجاوٹ کا کام رہ جاتا ہے، سجاوٹ کی چیزیں ہمارے پاس بہت ہیں، اس جواب کے بعد اب بجھے دل کے ساتھ فروری کی تیاری شروع ہوئی ہے وہ بھی صرف بلوچستان اور پنجاب کی حد تک۔

انتخابات کے حوالے سے جب بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے مرکزی حکومت اور الیکشن کمیشن قدم قدم پر واضح کرتے ہیں کہ ان کی نیت میں کوئی فتور نہیں وہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے سنجیدہ ہیں اور ضروری اقدامات کر رہے ہیں، الیکشن کمیشن کی طرف سے مانگی گئی رقم کی دوسری بڑی قسط اس کے حوالے کر دی گئی ہے جس سے الیکشن لڑنے والوں کی ڈوبتی سانسیں بحال ہوئی ہیں جبکہ افرادی قوت کا معاملہ ابھی لٹکا ہوا ہے۔

فوج نے عرصہ دراز قبل واضح کر دیا تھا کہ اسے سیاسی معاملات سے دو رکھا جائے وہ دور ہی ہے، الیکشن کے حوالے سے عدلیہ سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ افرادی قوت مہیا کرے پھر فیصلہ ہوا کہ بیوروکریسی یہ ذمہ داریاں نبھائے گی ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر لیول کے افسران اہم ذمہ داریاں سنبھالیں گے امن و امان برقرار رکھنے کے لئے سیکڑوں نہیں لاکھوں افراد کی ضرورت بتائی گئی تھی اس حوالے سے بھی الیکشن کمیشن نے حکومت سے اپنی ضرورت بیان کر دی ہے نصف تعداد تو مہیا ہو چکی نصف ابھی باقی ہے جو شاید آئندہ چند ہفتوں تک مہیا کر دی جائے گی۔ ملک بھر میں نصف سے زائد حلقوں میں کچھ پولنگ سٹیشن حساس قرار دیئے جاتے ہیں جہاں لڑائی جھگڑے ضرور ہوتے ہیں جن کا انجام کبھی کبھار بیلٹ باکس اٹھا کر غائب کر دینا کبھی دودھ میں پانی ملا کر دوبارہ پیش کر دینا بھی ہوتا ہے۔ اس صورت حال سے کون اور کیسے نپٹے گا، کیا پولیس ان حلقوں میں موثر کردار ادا کر پائے گی یہ بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب بروقت تلاش کیا جانا ضروری ہے دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا رینجرز کو الیکشن ڈیوٹی دی جائے گی اور رینجر ڈیوٹی کے باوجود ایسے واقعات نہیں رکتے، جو کہ نہیں رکیں گے تو اس بدنظمی کو کس کی کارکردگی میں شمار کیا جائے گا۔

الیکشن ڈے پر جھگڑے ہمارے الیکشن کا حسن سمجھے جاتے ہیں جو کبھی جیتنے والے کبھی ہار کی طرف گامزن امیدوار کے حامیوں کی طرف سے شروع ہوتے ہیں اس مرتبہ الیکشن ایک مختلف سیاسی موسم میں ہوں گے، گمان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بدنظمی اور لڑائیاں زیادہ ہوں گی، حتمی سرکاری نتائج تو بعد میں سامنے آئیں گے غیرسرکاری نتائج آنے کے فوراً بعد شکست خوردہ عناصر ہمیشہ سے کچھ زیادہ یہ بیانیہ لے کر احتجاج کرتے نظر آئیں گے کہ ان کا الیکشن چرا لیا گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اس بات کا پابند کیا جانا ضروری ہے کہ تمام تر انتظامات اور شفافیت کی کوششوں کے باوجود نقطہ اعتراض برائے اعتراض کرتے ہوئے الیکشن نتائج کو رد نہیں کیا جائے گا بلکہ سب اسے تسلیم کریں گے جہاں کوئی ضروری سمجھتا ہے وہ مجاز عدالتوں سے رجوع کرے۔

2013 میں چار حلقے نہ کھولنے سے معاملہ بگڑا اور بڑھتے بڑھتے سنگین بحران کی شکل اختیار کر گیا لیکن چار حلقے نہ کھولے گئے کیونکہ ان حلقوں میں زبردست دھاندلی کے شواہد سامنے آ چکے تھے متنازع حلقوں میں سستا اور فوری انصاف نہ ملنے کے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں انصاف اس وقت ملتا ہے جب دھونس دھاندلی کے زور پر جیتے ہوئے ممبر قومی اسمبلی یا ممبر صوبائی اسمبلی، اپنا وقت پورا ہونے کے بعد نئے انتخابات کی تیاری کرتے نظر آتے ہیں تو اس حوالے سے عدالت کا فیصلہ آ جاتا ہے جس میں تسلیم کر لیا جاتا ہے کہ دھاندلی ہوئی تھی، گویا چڑیوں کو کھیت چگنے کی کھلی چھٹی دی جاتی ہے جب کھیت کا صفایا ہو جاتا ہے تو پھر چڑیوں کو اڑانے والے سرگرم ہو جاتے ہیں۔

انتخابات کے حوالے سے بعض سیاستدانوں کے بیانات ابہام پیدا کر رہے ہیں جن سے مخالفین یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں انتخابات کو آگے لے جانے کا منصوبہ زیرغور ہے۔ نگران وزیر اعظم  نے ایک مرتبہ پھر یقین دلایا ہے کہ انتخابات بروقت ہوں گے جبکہ الیکشن اگست ستمبر تک جانے کی باتیں نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ امکان ہے 14 دسمبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابی شیڈول کا اعلان کردے گا، ریٹرننگ افسر انتظامیہ سے لینے کا فیصلہ ہو چکا ہے، کشیدہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر شاید عدلیہ نے ریٹرننگ افسران دینے سے معذرت کی ہے تاکہ سارا کیا دھرا ان کے کھاتے میں نہ ڈال دیا جائے، دیکھنا یہ ہے کہ کانٹوں کی مالا کس کے گلے میں زینت بنتی ہے۔

الیکشن سے بہت پہلے قانونی معاملات کھل کر سامنے آ چکے ہوں گے ابھی تک فقط قیاس آرائیاں ہیں کہ ایک پارٹی کو پسند کا انتخابی نشان نہیں دیا جائے گا اس پر پابندی لگائی جا سکتی ہے یا ردعمل کے طور پر اس کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا جا سکتا ہے، کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان بہت بڑی سیاسی حماقت ہو گی ماضی میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ایسا کرنے کے بعد پچھتاتی نظر آئیں، کسی بھی جماعت کی طرف سے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان سیاسی شکست تسلیم کرنالیا جاتا ہے اس کا فائدہ اس کی سب سے بڑی حریف جماعت کو ملتا ہے یعنی میدان میں اس کا مقابل کوئی نہیں ہوتا، سیاسی جماعتوں میں جوڑ توڑ جاری ہے لیکن ابھی کسی بھی جماعت نے جلسہ عام کی سیاست شروع نہیں کی شاید سموگ اور سیاسی سموگ کے خاتمے کا انتظار ہے ماہ دسمبر کے آخر تک اہم سیاسی شخصیات کے سیاسی مقدمات کے فیصلے آ جائیں گے جس کے بعد حقیقی سیاسی سرگرمیاں شروع ہوں گی ابھی تو ڈرائنگ روم سیاست ہو رہی ہے جبکہ الیکشن لڑنے کے خواہشمندوں سے انٹرویو اور ملاقاتیں بھی جاری ہیں، بعض امیدوار ہر مرتبہ اپنی اس مقصد کے لئے خریدی گئی پراپرٹی بیچ کر الیکشن لڑتے ہیں پس اس وقت پراپرٹی کی قیمتیں کم ہو چکی ہیں۔ چاول سٹور کیا جا رہا ہے جبکہ بروقت چکن و بیف سپلائی کے انتظامات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ پرنٹنگ و تمبو قنات بزنس سے وابستہ افراد کا بھی یہی سیزن سمجھا جاتا ہے۔ کاریں اور ویگنیں منہ مانگی قیمت پر بک جاتی ہیں کئی سو ارب روپے ایک جیب سے نکل کر کسی اور جیب میں منتقل ہو جاتے ہیں کچھ لوگوں کے ناک آؤٹ کا شدت سے انتظار جاری ہے۔

تبصرے بند ہیں.