ڈیڑھ ماہ میں فلسطینیوں کا تیز ترین قتل عام

50

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کا تاریخ کا تیز ترین قتل عام کیا ہے۔ اسرائیلی فوجیوں نے 48 دن میں جتنے فلسطینی شہید کیے، ان کی تعداد امریکا کی 20 سالہ افغان جنگ سے زائد ہے۔ صہیونی فورسز  نے 7 ہفتوں کے فضائی حملوں میں عراق جنگ کے پہلے سال کے مقابلے میں بھی دو گنا شہریوں کو قتل کیا۔ غزہ میں فلسطینیوں کی شہادتیں یوکرین جنگ میں 2 سالہ اموات سے بھی زائد ہیں۔ غزہ میں 7 اکتوبر سے اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں اب تک 14 ہزار 850 فلسطینی شہید اور 36 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں کے اعداد و شمار کا محتاط جائزہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل کے حملوں کے دوران اموات کی جو شرح ہے، صدی میں اس کی بہت کم نظیر ملتی ہے۔

شرمناک طور پر اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں شہریوں کی ہلاکت کو اگرچہ افسوس ناک قرار دیا تاہم یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ دنیا کے جدید تنازعات کا یہ ایک ناگزیر نتیجہ ہے جس سے بچا نہیں جا سکتا، جیسا کہ خود امریکا نے عراق اور شام میں فوجی مہمات بھیجیں جن میں بھاری انسانی نقصان ہوا۔لیکن ماضی کے تنازعات اور ہلاکتوں اور ہتھیاروں کے ماہرین کے انٹرویوز کا جائزہ بتاتا ہے کہ اسرائیل کا حملہ مختلف ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ میں لوگ زیادہ تیزی سے مارے جا رہے ہیں۔ عراق، شام اور افغانستان میں امریکی قیادت میں ہونے والے مہلک ترین حملوں سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ، ان حملوں پر بھی انسانی حقوق کے گروپوں نے بڑے پیمانے پر تنقید کی تھی۔ جنگ میں ہلاک ہونے والوں کا بالکل درست موازنہ ناممکن ہے، لیکن وہ اس بات پر حیران رہ گئے کہ غزہ میں کتنے زیادہ اور کتنی تیزی سے لوگ مارے گئے ہیں اور ان میں بھی زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ اسرائیل نے خود کہا کہ اس نے حالیہ دنوں میں عارضی جنگ بندی تک پہنچنے سے پہلے 15,000 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘  نے غزہ کی پٹی میں احتجاج کرنے والے نہتے فلسطینیوں کا وحشیانہ قتل عام فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کی مشرقی سرحد پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ ناقابل قبول ہے۔ اسرائیلی فوج نہتے فلسطینی مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال اور ان کا وحشیانہ قتل عام فوری طور پر بند کرے۔ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج فلسطینی شہریوں کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال کرکے بین الاقوامی انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ اسرائیلی فوج کی گولیوں کا نشانہ بننے والے فلسطینیوں میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ اسرائیلی فوج کی وحشیانہ کارروائیاں فلسطینیوں پر رعب جمانے کا مکروہ حربہ ہیں۔ اسرائیلی فوجی فلسطینی شہریوں کے جسم کے بالائی حصوں پر براہ راست گولیاں چلاتے ہیں۔

ڈچ تنظیم PAX کے ملٹری ایڈوائزر اور پینٹاگون کے سابق سینئر انٹیلی جنس تجزیہ کار مارک گارلاسکو نے کہا کہ ”میں نے اپنے کیریئر میں ایسا کچھ نہیں دیکھا، اتنے چھوٹے علاقے میں اتنے بڑے بموں کے استعمال کا اگر ہم تاریخی موازنہ تلاش کریں تو ہمیں ویتنام یا دوسری جنگ عظیم میں واپس جانا پڑے گا۔“ غزہ میں جو بم استعمال کیے جا رہے ہیں وہ اس سے بڑے ہیں جو امریکا نے موصل اور رقہ جیسے شہروں میں داعش کے خلاف لڑتے وقت استعمال کیے تھے۔ اسرائیلی فوج نے تسلیم کیا ہے کہ غزہ میں بچے، خواتین اور بوڑھے مارے گئے ہیں لیکن کہا کہ غزہ میں رپورٹ ہونے والی ہلاکتوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ علاقہ حماس کے زیر انتظام ہے۔ تاہم رپورٹ کے مطابق اس کے برعکس محققین کا کہنا ہے کہ غزہ میں تقریباً 10,000 خواتین اور بچے مارے گئے ہیں، اور غزہ میں صحت کے حکام کی جانب سے اعداد و شمار مرتب کرنے کے طریقے سے واقف بین الاقوامی حکام اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مجموعی تعداد عام طور پر قابل اعتماد ہے۔

یوکرین، افغانستان یا عراق جیسے تنازعات والے علاقوں کے مقابلے میں نہ صرف غزہ چھوٹا ہے، بلکہ اسرائیل اور مصر کی طرف سے اس علاقے کی سرحدیں بھی بند کر دی گئی ہیں، جس کی وجہ سے غزہ کے شہریوں کے لیے بھاگنے کے محفوظ راستے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جب کہ غزہ کی پٹی میں 60,000 سے زیادہ عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں، سیٹلائٹ کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ شمالی غزہ کی تقریباً نصف عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں۔

اقوام متحدہ نے جو اعداد و شمار اکٹھے کیے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ ڈیڑھ مہینے سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی اس جارحیت کے دوران غزہ کی 80 فیصد آبادی بے گھر ہوگئی۔ اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق، غزہ کے17 لاکھ سے زیادہ باسی بے گھر ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 10لاکھ سے زیادہ فلسطینی 156 پناہ گزین مراکز میں موجود ہیں۔ ادھر، فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر سے غزہ میں اسرائیلی بمباری میں اب تک 6 ہزار بچوں اور 4 ہزار خواتین سمیت تقریباً پندرہ ہزار فلسطینی شہید اور 36 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ اس صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک کے مکمل تائید و حمایت سے ناجائز ریاست اسرائیل نے غزہ میں جو دہشت گردی کی وہ کس حد تک سنگین تھی۔

تبصرے بند ہیں.