انا پسندی یا مبحث غلط یا دونوں۔۔۔۔۔۔!

94

جناب سہیل وڑائچ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا ایک معروف نام ہیں۔ آپ سینئر صحافی، نامور کالم نگار، تجزیہ کار اور ٹی وی اینکر ہی نہیں ہیں بلکہ ایک بڑے میڈیا گروپ کے اُردو اخبار کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کے بااختیار و با وقار منصب پر بھی فائز ہیں۔ آپ اپنے قومی معاصر میں عرصہ دراز سے کالم نگاری بھی کرتے رہے ہیں تاہم درمیان میں ماضی قریب تک ایسا وقت بھی گزرا ہے کہ اُن کا کالم نگاری کا سلسلہ منقطع رہا ہے۔ اب ایک ڈیڑھ ماہ سے اُنہوں نے تسلسل سے دوبارہ کالم نگاری کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے یا اس کی کوئی خاص وجہ ہے کہ اپنے حالیہ کالموں میں وہ ایک خاص موقف اور نقطہ نظر کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ اُن کا موقف ہے کہ تحریکِ انصاف کے قائد جناب عمران خان جو سنگین الزامات کے تحت قائم مقدمات میں اڈیالہ جیل میں بند ہیں کو مقدمات میں معافی تلافی ہی نہیں ملنی چاہیے بلکہ عمران خان سے صلح صفائی کرنے اور اُنہیں معافی تلافی دلانے کا یہ فریضہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کو سرانجام دینا چاہیے۔ اُن کا نقطہ نظر ہے کہ میاں نواز شریف مقتدر حلقوں (اسٹیبلشمنٹ) سے اپنے حوالے سے معاملات طے کرنے کے بعد اپنی جلا وطنی ختم کر کے وطن لوٹے ہیں تو جناب عمران خان کے لیے بھی معافی تلافی کے معاملات طے کرانا اِن کا فرض بنتا ہے۔

محترم سہیل وڑائچ کا جناب عمران خان کے لیے معافی تلافی اور اُن کے خلاف قائم مقدمات ختم کرنے اور اُن پر مٹی ڈالنے کا یہ موقف بظاہر بڑا سادہ اور معصوم لگتا ہے لیکن اپنے پورے تناظر میں یہ موقف یا نقطہ نظر اتنا سادہ اور قابل عمل نہیں ہے اور نہ ہی عدل و انصاف کے قانون کے تقاضوں کے مطابق سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جناب عمران خان جو 9 مئی کے واقعات کی صورت میں مملکتِ پاکستان کی سلامتی، استحکام اور مستقبل کو داؤ پر لگانے، القادر ٹرسٹ اور ممنوعہ فنڈنگ کیس میں بدعنوانی میں ملوث ہونے اور قومی خزانے کو اربوں، کھربوں کا نقصان پہنچانے کے سنگین الزامات اور توشہ خانہ کیس میں سزا یافتہ ہونے کی بنا پر مکافاتِ عمل کا شکار ہو کر اڈیالہ جیل میں سلاخوں کے پیچھے بند مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، ان کو یکمشت اور بیک جنبش زبان تمام الزامات اور مقدمات سے بری الذمہ قرار دے کر اُن کے لیے امن و چین کی بانسری بجانے کی راہ نکالی جائے اور یہ فریضہ بھی اُن کے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف سرانجام دیں جن کا ان معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں اور جو ہمیشہ سے عمران خان کی زیادتیوں، دُشنام طرازیوں اور خوئے انتقام کا نشانہ بنتے چلے آ رہے ہیں۔ ظاہر ہے جناب سہیل وڑائچ کے اس موقف کو قبول کیا جانا یا اس کی تحسین و توثیق کرنا تو دور کی بات، اس پر اُنگلیاں تو اُٹھنی ہی چاہیے تھیں۔ چنانچہ یہی ہوا اور سوچنے، سمجھے، جاننے اور پرکھنے والے حلقوں کی طرف سے اس کو نقد و نظر میں پرکھ کر اس سے عدمِ اتفاق کا اظہار سامنے آنا شروع ہو گیا۔

اسی تناظر میں نوجوان دانشور، تجزیہ کار اور کالم نگار جناب یاسر پیرزادہ کا اس موضوع پر کالم چھپا تو محترم عرفان صدیقی جو علمی، ادبی، صحافتی، سیاسی اور دینی تقریباً سبھی حلقوں میں ادب و احترام اور عزت و توقیر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں کہ وہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ایوانِ بالا (سینیٹ) کے رُکن، میاں نواز شریف کے بااعتماد ساتھی اور مشیر اور مسلم لیگ ن کی منشور کمیٹی کے چیئرمین ہونے کے ساتھ انتہائی سلجھی ہوئی سنجیدہ خو اور باوقار بزرگ شخصیت کے مالک دانشور، تجزیہ کار اور کالم نگار ہیں نے اس کو بنیاد بنا کر ”عمران خان اور مٹی ڈالو کا نظریہ“ کے عنوان سے اس پر کالم لکھا۔ اس کالم میں انہوں نے جناب سہیل وڑائچ یا عمران خان کے لیے معافی تلافی اور اُن کے معاملات پر مٹی ڈالو کے موید اور مبلغ کسی اور شخص کا نام نہیں لیا البتہ انہوں نے یاسر پیرزادہ کے کالم کا خلاصہ جہاں بیان کیا وہاں انہوں نے جناب عمران کی ماضی بعید اور ماضی قریب کی سیاسی زندگی کے اہم حالات و واقعات، اندازِ فکر و نظر اور اُتار چڑھاؤ اور زمانہ حال کے اُن کے 9 مئی جیسے فوج کے اندر بغاوت بپا کرنے اور آرمی چیف کا تختہ اُلٹنے کی سازش کا مرکزی کردار ہونے کا حوالہ دے کر یاسر پیرزادہ کے کالم میں بیان کردہ خیالات کی تائید کی۔ انہوں نے لکھا ”یاسر کے کالم کا مفہوم یہ تھا کہ دانشوران عصرِ حاضر غلط آدمی (نواز شریف) سے مخاطب ہیں۔ حالات کو اعتدال پر لانے، متعفن روایات پر مٹی ڈالنے اور ایک نئے عہد کا عہد نامہ رقم کرنے کی ذمہ داری نواز شریف نہیں عمران خان کے کندھوں پر ہے۔ اگر وہ آج بھی 9 مئی اپنی ٹوپی میں سُرخاب کا پَر سمجھتے ہیں اور اسی نظریے کا پرچم تھامے سیاست میں واپس آنا چاہتے ہیں تو صلح صفائی کیسے ہو۔ کس سے ہو؟“

محترم عرفان صدیقی صاحب کے اس کالم میں کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ جس سے یہ جھلکتا ہوکہ وہ جناب عمران خان اور اُن کے ساتھیوں کے ساتھ عدل و انصاف اور قانون اور ضابطوں سے مبرا کسی سلوک کی حمایت اور اُن سے مفاہمت نہ کرنے کے موقف کی تائید کر رہے ہوں البتہ انہوں نے جناب عمران خان کی اُفتادِ طبع اور 1999 سے اب تک کی اُن کی سیاسی زندگی کے اہم حالات و واقعات اور طرزِ عمل کا حوالہ دے کر اس نقطے کو واضح کیا کہ 9 مئی کو فوج میں بغاوت اور جنرل عاصم منیر کا تختہ اُلٹنے کی سازش جیسے واقعات اُن کے ماضی اور حال کے انہی رویوں اور اندازِ فکر و نظر کا منطقی نتیجہ ہیں جن کو عفو و درگزر یا مٹی پاؤ یا معافی تلافی کی ریشمی قبائیں پہنا کر ختم نہیں کیا جاسکتا۔

محترم عرفان صدیقی کے ”عمران اور مٹی ڈالو کا نظریہ“ والے کالم کا کسی کی طرف سے جواب ضروری تھا یا نہیں لیکن جناب سہیل وڑائچ نے اس کے جواب میں کالم لکھنا ضروری سمجھا۔ اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا تاہم جناب سہیل وڑائچ کا 8 نومبر کو ”تُسی اُچے، اسی قصوری“ کے عنوان سے جناب عرفان صدیقی پر الزام تراشیوں اور اُن کی کردار کشی سے لتھڑا کالم چھپا تو اس کے بعد سے اب تک ہر دو محترم حضرات کی طرف سے کم و بیش تین، تین مزید کالم چھپ چُکے ہیں۔ ان میں کس کا پلڑا بھاری رہا یا کس نے اپنے موقف اور نقطہ نظر کو برسرِ زمین حقائق اور منطقی دلائل کو سامنے رکھ کر بہتر، معقول، شستہ، مہذب اور موثر انداز میں پیش کیا اس کے بارے میں آرا مختلف ہو سکتی ہیں تاہم میرے خیال میں محترم عرفان صدیقی کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے کسی کی بھی کردار کشی سے ممکن حد تک گریز کرتے ہوئے اپنے موقف کو انتہائی خوبصورت پیرائے میں اور ٹھوس حقائق و دلائل کے تناظر میں پیش کیا ہے۔ کوئی بھی صاحب الرائے شخص پوری سمجھ بوجھ اور معروضی حالات کو سامنے رکھ کر ہر دو محترم حضرات کی تحریروں (کالموں) کا غیر جانبداری سے جائزہ لے تو میری رائے سے اتفاق سامنے آئے گا۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سہیل وڑائچ جیسے انتہائی سینئر اور مدبر صحافی اپنے کالموں میں افلاسِ دلائل اور مبحث غلط کا شکار ہی نظر نہیں آتے ہیں بلکہ انہوں نے محترم عرفان صدیقی پر رکیک ذاتی حملوں اور اُن کی کردار کشی سے بھی گریز نہیں کیا ہے۔وہ ”تُسی اُچے، اسی قصوری“ کے عنوان سے چھپنے والے اپنے کالم کا آغاز انتہائی طنزیہ انداز میں اس طرح کرتے ہیں ”بُلھے شاہ کے اس مشہور پنجابی شعر کو مستعار لیتے ہوئے آج میری اُچے شہر سے مراد راولپنڈی شریف ہے اور آج کے مخاطب اس شہر کے پیر باصفا، اُستاذ الاساتذہ، کئی جرنیلوں کے تعلیمی مرشد، سینیٹر، سابق وزیر باتدبیر اور آج کی ن لیگ کے پالیسی ساز، ترجمان اور منشور کمیٹی کے یک و تنہا چیئرمین جناب عرفان صدیقی ہیں جبکہ آج کے کالم کا قصوری، یہ قصوروار کالم نویس ہے۔“ اسی کالم میں آگے چل کر وہ الاذوالفقار تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کی طرف سے پی آئی اے کا طیارہ اغوا کرنے اور نونیوں کی طرف سے سپریم کورٹ پر حملہ کرنے کو یکساں قصور قرار دے کر جہاں مبحث غلط کا شکار نظر آتے ہیں وہاں کئی اور ایسی مثالیں بھی پیش کرتے ہیں جن سے اُن کے مبحث غلط اور افلاس ِ دلیل کا احساس ہوتا ہے۔

کالم کی تنگ دامنی مانع ہے ورنہ جناب سہیل وڑائچ اور محترم عرفان صدیقی کے کالموں کے کچھ اقتباسات نقل کیے جاتے جن سے پتہ چلتا کہ دونوں کے دلائل میں کتنا وزن اور اندازِ بیان میں کتنی شائستگی ہے۔ تاہم اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جناب سہیل وڑائچ صاحب نے اپنے کالموں میں عرفان صاحب پر ذاتی حملوں، طعن و تشنیع اور کردار کشی کا انداز اپنایا ہے تو عرفان صاحب نے حتی الوسع اس سے اجتناب کیا ہے۔ ٹھوس حقائق اور قومی تاریخ کے بعض واقعات کو سامنے رکھ کر دونوں محترم شخصیات نے اپنے اپنے موقف کے حق میں جو دلائل دیئے ہیں ان میں بھی جناب سہیل وڑائچ صاحب پیچھے نظر آتے ہیں کہ وہ جناب عمران خان کے لیے معافی تلافی اور مٹی ڈالو کے نظریے کی وکالت ضرور کرتے ہیں لیکن اُن کے پاس باقی معاملات کو چھوڑیں اس اہم معاملے کا کوئی جواب نہیں کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا، فوج میں بغاوت بپا کرنے اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا تختہ اُلٹنے کی جو سازش ہوئی اور اس میں ایک لیفٹیننٹ جنرل، تین میجر جنرلز اور سات بریگیڈئیرز سمیت 18 اعلیٰ فوجی عہدیداروں کو جو سزا مل چکی ہے اس سے ہٹ کر جناب عمران خان اور اُن کے قریبی ساتھیوں جن کی حیثیت اس سازش کے سرغنوں اور ماسٹر مائنڈز کی ہے، اُن کو اس سے بری الذمہ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ جبکہ جناب عمران خان اپنے کیے پر معذرت کرنے یا ایک حرفِ ندامت ادا کرنے پر بھی تیار نہیں۔

حرفِ آخر کے طور پر یہ کہنا مناسب ہو گا کہ بد مزگی میں اب مزید اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔ جواب الجواب کے طور پر لکھے جانے والے ان کالموں کا یہ سلسلہ جتنا جلدی اختتام پذیر ہو جائے اتنا ہی اچھا ہو گا۔ محترم عرفان صدیقی کی طرف سے ”بوئے خان، کاٹے نواز شریف“ کے عنوان سے چھپے اُن کے آخری کالم میں ان الفاظ میں اس کی طرف سے اشارہ موجود ہے۔ ”اور آخری بات یہ کہ باسی بھوسے کی جوگالی اور مرجھا جانے والی دلیلوں کے بے ذوق دستے سجانے کا بے ذوق تماشا کب تک؟“۔ جناب سہیل وڑائچ ”مصالحت یا محاذ آرائی بہتر کیا ہے؟“ کے عنوان سے چھپے آخری کالم میں بھی ان الفاظ میں اشارہ موجود ہے ”میرے مخلص دوستوں نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ عرفان صدیقی سے میرا کالمانہ مباحثہ نہیں بنتا“۔

تبصرے بند ہیں.