گاندھی کا حضرت ابو بکرؓ و حضرت عمرؓ کو خراج تحسین

107

مسٹر گانڈھی جو تھیو سوفی پر قائم تو تھے ہی 1915 میں افریقہ سے واپسی پر انہوں نے اسی مقام پر حاضری دی اور بدھ مت کے ماننے والوں میں شامل ہوئے اور پھر اسی طرز پر اپنی زندگی اختیار کی۔ بھارت میں داخل ہوئے تو ہندوستان کی آزادی کا معاملہ چل رہا تھا جو بعد ازاں تحریک پاکستان کی صورت اختیار کر گیا۔ اس دوران ان کی روحانی، مذہبی و فکری اور قومی خدمات و رجحات کے پیش نظر ہندوستانی عوام نے انہیں ”مہاتما“ ہونے کا لقب دیا اور مہاتما گوتم بدھ کی طرح مہاتما گاندھی مشہور و معروف ہوئے۔ دوسری طرف پاک و ہند کا معاملہ کہ گاندھی کس شخصیت کے مالک تھے جن کا ٹکراؤ مسلمانان ہند اور ان کے رہبر و رہنما محمد علی جناحؒ کے ساتھ تھا لہٰذا اس تاریخ کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو وہ کوئی عام آدمی نہ تھے۔ ایک انتہائی قابل، زیرک، دور اندیش، معاملہ فہم، اعلیٰ تعلیم یافتہ، پائے کے قانون دان، منجھے ہوئے سیاست دان، علم و عرفان کے ماہر اور ایک مذہبی و روحانی پیشوا کے طور پر برصغیر پاک و ہند کی معروف ترین شخصیت تھے، اور یہ وہ شخصیت تھے کہ بڑے بڑے اہل علم و دانش گورے بھی ان سے بات کرتے ہوئے کتراتے تھے لیکن اس سے کہیں بڑھ کر قابل فخر بات تو یہ ہے کہ مسٹر گاندھی قائد اعظم محمد علی جناح سے بات کرتے ہوئے گھبراتے تھے لہٰذا اس بات سے بخوبی اندازہ ہو جانا چاہیے کہ محمد علی جناح کا علم و عرفان کس حد کو پہنچا ہوا ہو گا کہ جن کے سامنے روحانی و دنیاوی علوم کا منبع اپنا سر جھکانے اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گیا۔ قدرت کے فیصلے قدرت ہی جانتی ہے۔ عمر بن ہشام (ابو جہل) بھی کوئی عام شخص نہ تھا۔ ایک بڑے قبیلے کا سردار ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت عقل مند و دانش رکھنے والا، عالم و فاضل اور اعلیٰ پائے کا ایک شاعر بھی تھا۔ دوسری طرف عمر بن خطاب (فاروق اعظمؓ) قریش خاندان، بنو عدی کے سربرآوردہ شخصیت، نہایت اہل علم، باکردار و باوقار، نڈر و بے باک، ذہین و فطین اوصاف حمیدہ کے مالک و حامل، صاحب الرائے اور ایک نامور ہستی، برابر کی چوٹ کی دو بڑی شخصیات اور پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دعا مانگنا کہ اے پروردگار ان دو عمروں میں سے ایک عمر عطا فرما
دے۔ رب تعالیٰ نے اپنے محبوبؐ کے لیے عمر بن خطابؓ کو چن کر اپنے حبیبؐ کی خدمت میں پیش کر دیا اور پھر عمر بن خطابؓ کی خلافت کے زیر سایہ پوری دنیا پر اسلام کا پرچم لہرا دیا گیا۔ بین ہی معاملہ کچھ تحریک پاکستان کا تھا۔ مسلمانوں کو ایک الگ سلطنت درکار تھی، ایک اسلامی سلطنت۔ وہی بدھ مت جو چودہ سو سال قبل اہل اسلام کے درپے تھا، آج بھی اسی جنونیت کے ساتھ اہل اسلام کا بدترین دشمن تھا۔ دو قومی نظریہ جو چودہ سوسال قبل بھی موجود تھا اور تب بھی جب تحریک پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔ یہاں پر بھی قدرت کا فیصلہ سامنے آیا۔ برصغیر پاک و ہند کے اس معرکے میں دو نامور شخصیات آمنے سامنے۔ دونوں بڑے قانون دان، سیاست دان، اہل علم، زیرک و ذہین، نڈر و بے باک، بے لوث و بے خوف، برابر کا جوڑ مگر اللہ عز و جل کا انتخاب چونکہ محمد علی جناح تھے لہٰذا جناح کا انتخاب ان دو بڑی دلیلوں اور حقائق سے ثابت ہے۔ پہلا یہ کہ قائد اعظم نے ایک مرتبہ خود فرمایا ”اگر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دست شفقت میرے سر پر نہ ہوتا تو پاکستان کبھی نہ بنتا“۔ اور دوسری بڑی دلیل و حقیقت ”پشاور کے ایک بزرگ اور اللہ کے ولی نے اچانک فرمایا دیا کہ قائد اعظم فوت ہونے والے ہیں۔ اور اس کے دو ہی دن بعد قائد اعظم اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ دنیا اور اخباری رپورٹرز ان بزرگ کی طرف امڈ پڑے کہ آپ کو یہ کیسے پتا چلا؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے دو روز قبل خواب دیکھا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت کے دروازے پر تشریف فرما ہیں۔ کچھ صحابہؓ وہاں سے گزرتے ہیں اور عرض کرتے ہیں یا رسولؐ اللہ! آپ یہاں تشریف فرما ہیں؟ حضورﷺ فرماتے ہیں کہ میرا ایک دوست آرہا ہے میں اس کے استقبال کے لیے یہاں دروازے تک آیا ہوں۔ صحابہ کرامؓ رشک کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں۔ یا رسولؐ اللہ! وہ کون خوش نصیب ہے جس کے استقبال کے لیے آپؐ خود دروازے تک تشریف لائے؟ آپﷺ فرماتے ہیں ’محمد علی جناح آ رہا ہے‘۔ یہ خواب دیکھا تو میں سمجھ گیا کہ قائد اعظم فوت ہونے والے ہیں“۔ لہٰذا اس بات سے ثابت ہے کہ اللہ کے حبیبؐ کی خواہش پر ہی اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمد علی جناح کو اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے منتخب فرمایا اور ان کے ہاتھوں یہ عظیم معجزہ رونما ہوا اور یہی وہ وجہ بھی تھی ”پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الہ اللہ“ کا نعرہ وجود میں آیا اور اس کلمے کی برکت سے پاکستان ایک آزاد و خود مختار اسلامی سلطنت کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ یہاں پر یہ بات نہایت اہمیت کی حامل اور قابل ذکر ہے کہ تب سے لیکر اب تک جس نے اس مملکت خداوند کے وجود کو نقصان پہنچایا، اس کا وجود ذلت و رسوائی کی داستان بن گیا۔ جنہوں نے اسے دولخت کرنے میں بھیانک کردار ادا کیا، وہ گھرانے کئی لخت ہو گئے۔ بہرکیف! بات اسلام کی حرمت اور بابائے قوم کی ہو رہی تھی۔ چند سال قبل مشہور و معروف کانگریسی صحافی جسونت سنگھ نے بھی قائد اعظم کو گاندھی کے مقابلے میں ایک عظیم قائد تسلیم کیا جس کے بعد ان متعصب ہندوؤں نے انہیں پارٹی ہی سے نکال باہر کیا لہٰذا ایسے لوگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ اللہ ہی کی مرضی تھی کہ جس طرح ابو جہل جیسا ظالم و جابر اور دشمن دیں لاکھوں کی تعداد رکھنے کے باوجود مٹھی بھر مسلمانوں کا راستہ نہ روک سکا بالکل اسی طرح یہ بھی اللہ ہی کی مرضی تھی کہ گاندھی جیسا سیاسی و مذہبی مفکر و مدبر رہنما ہر طرح کے وسائل اور پچاس گنا افرادی قوت رکھنے کے باوجود نہتے مسلمانوں کو ان کے عظیم مقصد کے حصول سے نہ روک سکا۔ ہم نے اپنی تاریخ بھلا دی اور تاریکیوں میں ٹھوکریں کھانے لگے جبکہ غیر مذہب نے ہماری تاریخ اپناتے ہوئے دنیا پر اپنی حکمرانی قائم کر لی: بقول اقبالؒ
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو
ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
مہاتما گاندھی نے 1937میں کانگریسی وزیروں کو سادگی کی زندگی گزارنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا ”میں رام چند اور کرشن کا حوالہ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ تاریخی ہستیاں نہیں تھیں، میں مجبور ہوں کہ سادگی کی مثال کے لیے ابوبکر ؓ اور عمرؓ کا نام پیش کروں، وہ بہت بڑی سلطنت کے حاکم تھے مگر انہوں نے فقیروں والی زندگی گزاری“ (ہریجن27-7-1937)۔ یہ خراج تحسین ہمارے حکمرانوں اور وزیروں مشیروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

تبصرے بند ہیں.