اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے

59

دنیا میں ہر انسان نہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ کام کر سکتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں اسی انسان نے کوئی نہ کوئی کام کرنا ہے جو اس کے ذمہ لگایا گیا، یہاں کوئی جلد شہرت پا جاتا ہے تو کسی کے مقدر میں ہمیشہ کیلئے اندھیرے لکھے جاتے ہیں۔ اگر اداروں کے حوالے سے بات کی جائے اور خاص کر ان کی جو اپنی عمر کی دوسری صدی میں قدم رکھ چکے ہیں وہ جو صدیوں کے ادارے کہلاتے ہیں، خوبصورت شہر لاہور کے سنگم میں لاہور چیمبر آف انڈسٹری اینڈ کامرس کی عمارت جو بنی ساٹھ کی دہائی میں مگر 1923ء میں ادارے کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ یہ وہ ادارہ ہے جو ایک سو سربراہ دے چکا ہے اور خوش قسمت ہے وہ صدر جو آج اس کی تمام روایات کو توڑتے نبھاتے ہوئے نئے قوانین کے تحت آج اپنی مدت کے دوسرے سال میں قدم رکھ رہا ہے۔ کاشف انور لاہور چیمبر کی تاریخ کا وہ صدر جس نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ نہ صرف اچھا صدر، اچھا ایڈمنسٹریٹر، بلکہ سب کو ایک مٹھی میں بند کرنے کی صلاحیت کے ساتھ سب کو متحد کرنے کا عزم بھی رکھتا ہے۔ کاشف انور کی ایک سالہ کارکردگی کا مختصر سا بھی جائزہ لیتے چلیں تو یہ وہ صدر ہے جس نے اوپن ڈور پالیسیز کے تحت تمام تاجر برادری کے لئے نہ صرف دروازے کھولے بلکہ سب کو گلے لگاتے ہوئے بہت سی نئی روایات کو جنم دیا۔
کاشف انور وہ واحد صدر ہے جس نے لاہور چیمبر کی تاریخ میں پہلی بار سینیٹ کے چیئرمین کی دعوت پر سینیٹ میں خطاب کیا۔ کاشف انور جس نے ایوان صدر میں غیر ملکی سفیروں کے اعزاز میں میں نہ صرف ایوارڈ تقریب کا انعقاد کیا بلکہ سفیروں کو لاہور چیمبر کا خوبصورت انداز میں متعارف کرایا۔ کاشف انور کیا اب ایک برینڈ یا لیڈر بن چکا ہے؟ جس کو میڈیا نے ایک سال تک مسلسل اپنی سکرین دی۔ اس کے مؤقف کو کروڑوں ناظرین تک پہنچایا۔ نہ صرف اس نے میڈیا وار کھیلی اور خوب جیتی کہ اب وہ کئی حلقوں میں ایک لیڈر کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ یہ وہ لیڈر ہے جس نے افواج پاکستان کے سربراہ جنرل عاصم منیر کے ساتھ مل کے بلند نعرہ لگایا کہ پہلے معیشت، پھر سیاست اور پھر انتخابات۔ اس عزم نے میڈیا کے اندر ایک تحریک چلا دی۔ کاشف انور جس نے نہ صرف لاہور چیمبر کے ماحولیاتی جمود کو توڑا بلکہ اس کو تمام قومی و صوبائی اداروں میں ایک بڑی شناخت کے طور پر لے کر گیا اور ان اداروں کو باوقار طریقے سے چیمبر کے ساتھ ملا دیا۔ یہی نہیں امریکہ کے موجودہ سفیر نے پندرہ سال کے بعد لاہور چیمبر کا دورہ کرتے ہوئے خوبصورت فقرہ کہا کہ یہ پاکستان ہے۔
آج کاشف انور لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ایوان میں اپنی مدت کے دوسرے سال میں قدم رکھنے جا رہا ہے۔ ایک سال میں وہ جس قدر کام کر گیا، ایک سال میں اس نے جہاں پرائیویٹ اور سرکاری اداروں کے ساتھ لاہور کی تاجر برادری کے بہترین مفادات میں بڑے معاہدے سائن کئے، وہاں یہ بات بھی ثابت کر دی کہ لاہور میں تاجر برادری کی جو شان و شوکت ہے اس کا مرکز صرف لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ہے بلکہ یہ وہ گھر ہے جس کو مخالفین نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ لاہور چیمبر بدلا…… بدلا سا ہے۔ اس کے تمام رنگ اب روشن حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔
کاشف انور کے بارے میں اب یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ نہ صرف نڈر اور کھلے اور بڑے فیصلے کرنے کی قوت رکھتا ہے جس نے چیمبر کے اندر بند کمروں میں کھیلی جانے والی سیاست کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کرا دیئے اور سیاست کرنے والوں کو یہ بات باور کرا دی کہ قانون کے راستے پر چلو گے تو اچھے راستے ملیں گے، اگر توڑو گے تو تمہارے لئے چیمبر کے دروازے بند رہیں گے۔ کم از کم مزید ایک سال اور قوانین پر عملدرآمد کے سلسلے کو مزید مضبوط کرتے ہوئے اس کے بُرے نقش مٹانے کا اب وقت آ گیا ہے۔ اب اِدھر اُدھر کی سیاست کی بجائے کام اور صرف کام ہوتے نظر آئیں گے۔ یہ میں کاشف انور کے حق میں کوئی قصیدہ نہیں پڑھ رہا، نہ اس کی تعریف کے پہلوؤں پر بات کر رہا ہوں بلکہ کاشف انور کی ایک سال کی کارکردگی نے جو پورے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ہر روز کسی نہ کسی ایشو پر نمایاں نظر آتی ہے جو ہر روز کوئی نہ کوئی نئی بات کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ان کاموں کو دیکھتے ہوئے برملا کہا جا سکتا ہے کہ سابقہ صدور نے وہ کام کیوں نہ کئے جو آج کے کاموں کے مقابلے میں چھوٹے نظر آتے ہیں۔ وہ اس لئے لیڈر ہے کہ اس نے اپنے ویژن، مشن اور کاموں سے ثابت کیا ہے کہ وہ بہترین تھا تو بہترین کام نظر آئے ورنہ ان کے اپنوں اور مخالفین نے گزشتہ دو تین ماہ میں جو اس کے خلاف سیاست گیری کی اور صدارت سے ہٹانے کے لئے وہ کون سے غلط راستے تھے جو نہیں اپنائے گئے اور کس طرح کے دباؤ نہیں ڈالے گئے، کون سے ایسے حربے تھے جو استعمال ہونے سے رہ گئے مگر کاشف انور کا ایک ہی جواب تھا کہ قانون کی بات کرو…… کہ قانون مجھے صدارت کے دو سال دے ر ہا ہے۔
لوکو میں نئیں بولدی میرے وچ میرا یار بولدا
آج کاشف انور  نے بڑے کاموں کے حوالے سے سب کے منہ بند کرتے ہوئے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ وہ نہیں بولتا آج اس کے کام بول رہے ہیں۔ آج اس نے آنے والے صدور کو یہ بات باور کرا دی کہ چاہے ایک سال میں ہی سہی وہ کام کر جاؤ کہ تاجر برادری کا سر جھکے نہ بلکہ مائع لگی پگ کی طرح بلند نظر آئے۔ کہتے ہیں کہ جب آپ کسی ادارے کی کامیابی اور فروغ کے لئے اپنی حکمت عملی اپناتے ہیں تو مشکلات ضرور آتی ہیں اور جہاں معاملات کو جان بوجھ کے بگاڑا جائے تو پھر فتح حق اور سچ کی ہوتی ہے، گو ایسے رستے میں مشکلات بہت آتی ہیں مگر بعض اوقات یہاں غیبی مدد بھی حق کا ساتھ دینے پہنچ جاتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی لاہور چیمبر آف کامرس کی تاریخ کا حصہ بن گئی کہ اس کے سالانہ انتخابی پراسیس کو عدالتوں کے اندر لڑتے دیکھا گیا۔ قانون کاشف انور کو دو سال رہا تھا مگر گروپنگ سیاست کسی نہ کسی مسئلے کو سامنے لے آتی۔ یہاں بھی فتح حق اور سچ کی ہوئی اور قانون نے اپنا راستہ بنایا۔
کاشف انور کے لئے چیمبر کی صدارت کوئی بڑی توپ نہیں تھی مگر وہ قانون پر عملدرآمد کی پاسداری کے حق میں تھا۔ اسی جہد مسلسل میں اس کے اندر چھپی بے شمار صلاحیتیں سامنے آئیں۔ یہاں اس کا یہ عمل بھی دیکھنے کو ملا بطور لیڈر اس نے میڈیا کے اندر ایک قومی لیڈر کی طرح سوچ کو اپنایا۔ ایک کہاوت ہے کہ پتھر کندن کی آگ میں جل کر ہیرا بنتا ہے اور وقت اور حق یہ بات ثابت کرتا ہے کہ آپ کے اندر کچھ کرنے، آگے بڑھنے کی لگن ہو تو پھر آپ اوروں کے لئے خوبصورت مثال بن کر سامنے آتے ہیں۔ میرے نزدیک کاشف انور کو وقت نے ایک لیڈر کے طور پر اپنے ساتھ لے کر چلنا شروع کر دیا ہے اور اس نے اپنی مدت کے پہلے سال میں یہی بات ثابت کی ہے کہ وہ لیڈر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آنے والا کل میری یہ بات ثابت کر دے۔
جیسا کہ میں نے کالم کے آغاز میں لکھا کہ کاشف انور اپنی مدت کا دوسرا سال آج شروع کرنے جا رہا ہے اور اس کو اپنے کاموں کے تسلسل کو آگے لے کر چلنا ہے اور نئے راستے کھولتے ہوئے نئے کام، نئی سوچ کے ساتھ تاجروں کے اس گھر کے اندر مزید بہتری لانا ہے۔ اُمید ہے کہ یہ سال لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے لئے جہاں بڑی تبدیلیاں لائے گا وہاں قومی اور صوبائی سطح پر تاجروں کے مسائل کو حل کرتا نظر آئے گا۔
تندی مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

تبصرے بند ہیں.