ایک بند یا کھلے دروازے والے دفتر میں بیٹھا افسر، افسر ہی ہوتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ نان گزٹیڈ ہو یا پھر گزٹیڈ ہاں گریڈ، مرتبے اور عہدے کے لحاظ سے وہ بڑا صاحب یا پھر چھوٹا صاحب ضرور کہلاتا ہے، آج کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو پیشِ نظر کوئی خاص موضوع نہیں تھا مگر پھر میرا خیال کچھ دن پہلے ایک عدالتی ریمارکس کی طرف چلا گیا جس میں کہا گیا کہ سرکاری افسروں کو صاحب کہا اور لکھا نہ جائے، عدالت نے کہا ہے کہ سرکاری ملازمین کا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہے، اور ان کے نام کے ساتھ صاحب کا لفظ استعمال کرنا مائنڈ سیٹ کو ظاہر کرتا ہے، دفاتر میں سرکاری ملازمین کے لیے صاحب کا لفظ حکمرانی کو ظاہر کرتا ہے۔ آئین میں ایسی کوئی شق موجود نہیں تو یہ ایک صائب بات ہے، ان سارے معاملات کو بنیاد بنا کر سرکاری افسران کے لیے صاحب کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا گیا ہے، عوام تو خوش ہیں کہ اچھا ہی ہوا کہ ان کے ٹیکسوں سے تنخواہ پانے والوں کو کچھ تو سمجھ آئے گی کہ ان کی حیثیت کیا ہے، یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سرکاری ادارے عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے بنائے گئے تھے لیکن اتنی ہی ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ اب یہ ممکن ہی نہیں کہ ان اداروں سے کسی عام آدمی کا جائز اور قانونی کام بھی رشوت اور سفارش کے بغیر ہو جائے، حتیٰ کہ ٹرانسفر اور پوسٹنگ جیسے بنیادی ترین کاموں کے لیے بھی سفارش اور پھر رشوت طلب کی جاتی ہے۔ عوام ان سرکاری دفاتر اور وہاں موجود چھوٹے بڑے صاحبوں سے نالاں ہیں، اس حقیقت سے کون آگاہ نہیں کہ سرکاری افسران بے دردی سے قومی وسائل کو استعمال کرتے ہیں جبکہ عوام کے ہاتھ گزرے کل میں بھی خالی تھے اور آج بھی خالی ہی ہیں۔ افسروں کو ہزاروں یونٹ بجلی فری ملتی ہے جبکہ عوام کو بجلی کی قیمت ادا کرنے کے ساتھ ساتھ درجن بھر بھاری ٹیکس بھی ادا کرنا پڑتے ہیں، افسروں کے گھروں اور دفاتر کے ائیر کنڈیشنر روزانہ گھنٹوں چلتے ہیں جبکہ عوام باہر گرمی میں اپنی باری کے انتظار میں نڈھال ہوتے رہتے ہیں، سرکاری افسروں کو سرکاری گاڑیاں ملی ہوئی ہیں جن میں فری پٹرول بڑی ہی بے دردی سے استعمال ہوتا ہے جبکہ عام آدمی ناقص پبلک ٹرانسپورٹ میں دھکے کھاتا ہے یا پھر رکشوں کے بھاری کرایے بھرتا ہے، افسروں کے بچے سرکاری گاڑیوں پر سکول جاتے ہیں بیگمات شاپنگ کرنے جاتی ہیں لیکن سردی ہو یا گرمی عام آدمی سڑکوں پر خجل خراب ہوتا رہتا ہے۔
ابھی پچھلے دسمبر میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے نیشنل کرپشن پر سروے میں پولیس کو ملک کا کرپٹ ترین ادارہ قرار دیا گیا جبکہ کرپٹ ترین اداروں میں ٹینڈرنگ، کنٹریکٹ کا شعبہ دوسرے اور عدلیہ تیسرے نمبر پر تھی، ایسے میں ان افسران کو صاحب کہنے کا کیا جواز بنتا ہے؟ تمام تر قومی وسائل پر حکمرانوں، جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ ہے جبکہ غریب عوام کو کئی طرح کی بنیادی ضروریات سے محروم کر دیا گیا ہے، سیاسی اداروں اور سماجی تنظیموں کی کمی، غیر فعالیت کی وجہ سے عام آدمی کی بات کوئی نہیں سنتا، مہنگائی کے خلاف دو چار سو افراد کا مظاہرہ ہوتا ہے لیکن عرصہ ہو گیا کوئی بڑا مظاہرہ مشاہدے میں نہیں آیا، اس کا سبب اس کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے کہ سرکاری اداروں کے افسران کی طرح ہمارے سیاست دانوں کو بھی اقتدار سے تو غرض ہے لیکن عوام کے مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں، ایسے میں انہیں صاحب پکارنے سے کیا فائدہ ہو گا؟ اس ساری تمہید کا مقصد کسی کونیچا دکھانا نہیں لیکن آج بحیثیت قوم ہمیں آزاد ہوئے چھہتر برس سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے اس لئے یہ سوچنا تو بنتا ہے کہ اس طویل عرصے میں ہم نے کتنی ترقی کی اور کون کون سے مسائل پر قابو پایا؟ جو اب تک صاحب کہلاتے رہے ہیں یا کہلا رہے ہیں انہیں خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ انہیں صاحب کہلانا چاہئے یا نہیں۔
لیکن یہ معاملہ سخن گسترانہ اس طرح بن جاتا ہے کہ ہم تو ویسے ہی غلام قوم رہے ہیں، انگریز دور میں صاحب کا لفظ شروع ہوا، کئی صاحب اور کئی لاٹ صاحب بنے اب تو ہر گھر میں صاحب بھی ہیں اور بیگم صاحب بھی ہیں، ہم عادی ہو گئے ہیں صاحب کہنے اور کہلوانے کے اور کوئی ہمیں بھی صاحب نہ کہے تو عجیب سا لگتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہم کسی صاحب یعنی بڑے افسر کو صاحب نہیں کہیں گے اور سیدھا اس کا نام پکاریں گے تو کیا اس کے بُرا مان جانے کا خدشہ موجود نہیں رہے گا؟ اور اس طرح عوام کے کام جو پہلے ہی نہیں ہو رہے ان کا ہونا بالکل ہی ناممکن نہیں ہو جائے گا؟ رشوت دیں یا کسی سفارش کا اہتمام کریں پہلے تو عوام کے کام کچھ نہ کچھ کسی نہ کسی حد تک ہو جاتے رہے ہیں لیکن اب اگر ہم کسی افسر کے نام کے ساتھ صاحب کا لاحقہ نہیں لگائیں گے تو پھر اُن سے کام کون کرائے گا؟
جب ہم یہاں تک پہنچتے ہیں تو ایک اور مسئلہ سامنے کھڑا نظر آتا ہے کہ ہمارے ہاں سرکاری دفاتر میں اردو زبان کو رائج کرنے کا منصوبہ ایک عرصے سے التوا کا شکار ہے، اگر ہم اردو زبان کو اپنے سرکاری دفاتر میں رائج کریں گے تو سب جانتے ہیں کہ اس میں عمر اورحفظِ مراتب کا بڑا خیال رکھا جاتا ہے، اسی طرح جب ہم کسی افسر کے نام کے ساتھ لگا ہوا صاحب کا لاحقہ ہٹا دیں گے تو ہماری اردو زبان پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کچھ اس بارے میں بھی غور کر لینا چاہیے۔ فرض کریں کسی افسر کا نام اکرم ہے تو لوگ اس شخص کو اکرم صاحب اکرم صاحب پکارتے ہیں، اب وہ شخص جو اکرم صاحب اکرم صاحب سننے کا عادی ہے وہ کسی عام بندے کے منہ سے سیدھا اکرم یہ کر دو اکرم وہ کر دو اکرم اس درخواست پر سائن کر دو سنے گا تو ذرا تصور کیجیے ردِ عمل کیا ہو گا، بہرحال اس تمام تر سخن گستری کے باوجود میں عدالت کے احکامات کا قائل ہوں اور رہوں گا۔
پھر ایک اور حقیقت کو نظر انداز کرنا بھی چاہیں تو شاید ہمارے لیے ممکن نہ ہو کہ ہم نے بطور ایک قوم جتنا عرصہ غلامی میں گزارا ابھی اتنا عرصہ ہمیں آزاد ہوئے نہیں ہوا اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ صاحب والا معاملہ ہے انگریز دور سے شروع ہوا تھا، انگریز چلے گئے ہم آزاد ہو گئے لیکن جہاں انگریزوں کی بہت سی دوسری رسموں کو ہم نے نہیں چھوڑا یہ صاحب والا معاملہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے چنانچہ ایک بڑا غور طلب سوال یہ ہے کہ جو طرزِ عمل عوام پونے دو سو سالوں سے اپنائے ہوئے ہیں وہ یک دم چھوڑا جا سکے گا؟ لیکن یہ بھی تو ایک زمینی حقیقت ہی ہے کہ کسی بھی تبدیلی کے لیے کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں سے تو آغاز کرنا ہی پڑتا ہے تو عدالت نے جو ایک موقع فراہم کیا ہے کیا ہم اسے غلامی کی ایک خُو سے نجات حاصل کرنے کے لیے بہترین موقع بنا سکتے ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.