دونوں میں سے ایک جھوٹ بھول رہا ہے، کون بول رہا ہے اس کا کھوج لگانا ضروری ہے۔ ایک طرف ریاست کا صدر ہے اور دوسری طرف 22 ویں گریڈ کا افسر جو چند ماہ بعد ریٹائر ہونے والا ہے۔ صدر کے ایک ٹویٹ نے ملک میں نیا پنڈورا باکس کھول دیا تو ضروری ہے کہ اس کا کھوج لگایا جائے۔ جب تک عارف علوی صدر ہیں ان کے خلاف کوئی مقدمہ بن سکتا ہے اور نہ ہی کوئی کارروائی ہو سکتی ہے۔ شنید یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سیکرٹری وقار احمد کو خاموش رہنے کے لیے کہا لیکن وقار احمد نے اپنے منہ پر کالک لگا کر ریٹائرمنٹ لینے سے انکار کر دیا۔ صدر عارف علوی کا طرز عمل ایسا رہا ہے جو ریاست کے سربراہ کے وقار کے بالکل منافی ہے۔ وہ ایک دن کے لیے بھی ریاست کے صدر کے طور پر سامنے نہیں آئے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے اندر کا یوتھیا باہر نکلتا رہا۔ اس کے باوجود تحقیقاتی اداروں کو انکوائری ضرور کرنا چاہیے کہ کس نے جھوٹ بولا ہے۔
کیا وقار احمد صدر کے اختیارات استعمال کرتا رہا ہے اور یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا وہ صدر کی جانب سے دیے گئے احکامات کو ایک طرف رکھ کر اپنی مرضی کرنے کا اہل ہے۔ وقار احمد نے جس دن صدر کو خط لکھا ہے اس میں کہا ہے کہ یہ بل ابھی تک آپ کے چیمبر میں موجود ہے تو کیا صدر عارف علوی یہ سب کچھ سیاسی کھیل کے طور پر کر رہے ہیں تاکہ اپنے چیئرمین عمران خان اور پارٹی کے دیگر لوگوں کے خلاف مقدمات کو کمزور کر سکیں۔
صدر عارف علوی نے خود اپنی ٹویٹ میں اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ یہ بل منظور ہو چکا ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے معافی مانگی ہے۔ تازہ ترین حالات یہ ہیں کہ بیوروکریسی کے لوگ صدر عارف علوی کے ساتھ کام کرنے سے انکاری ہیں۔ صدر کی جانب سے اپنے پرنسپل سیکریٹری وقار احمد کو تبدیل کرنے کے اقدام پر بیوروکریٹس میں بھی غصے اور تشویش کا احساس ہے، ان کا خیال ہے کہ صدر مملکت نے 10 روز کی مقررہ مدت میں 2 بل واپس نہ کرنے پر وقار احمد کو ‘قربانی کا بکرا’ بنایا ہے۔
صدر نے وقار احمد کی جگہ جس سیکرٹری کی خدمات مانگی ہیں اس نے بھی ایوان صدر میں کام کرنے سے انکار کر دیا ہے حالانکہ عمیرہ احمد ماضی میں عبوری حیثیت میں صدر کی پرنسپل سیکریٹری کے طور پر خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔ اس وقت وہ قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن کی وفاقی سیکریٹری کے طور پر کام کر رہی ہیں۔
صدر کو بھیجی جانے والی فائلز ایک چین آف کمانڈ کے تحت آگے چلتی ہیں اور اسی ترتیب سے واپس بھی آتی ہیں۔ کسی بھی قسم کی فائل جس پر صدرِ مملکت کے دستخط یا منظوری چاہیے ہو وہ سب سے پہلے ایوان صدر کے سٹاف میں شامل سیکشن آفیسر کے پاس پہنچتی ہے جو ان افسران کی فہرست میں سب سے آخر میں ہیں۔ سیکشن آفیسر اس فائل کا جائزہ لیتے ہیں۔ اب اس فائل میں دائیں جانب اس درخواست، ایکٹ کا متن درج ہوتا ہے اور اس کی تمام تر دستاویزات نتھی کی جاتی ہیں۔اس فائل کی بائیں جانب منٹ شیٹ یا نوٹس فار کانسیڈریشن (این ایف سی) چسپاں کیا جاتا ہے، جہاں سیکشن آفیسر اس فائل سے متعلق مختصر انداز میں لکھتے ہیں کہ یہ فلاں فائل ہے جو قومی اسمبلی، سینیٹ یا فلاں وزارت سے آئی ہے اور یوں اسے اپروول کے لیے اسسٹنٹ سیکرٹری کو بھیج دیا جاتا ہے۔یہاں سے فائل جوائنٹ سیکرٹری، پھر ڈپٹی سیکرٹری اور پھر سیکرٹری ٹو پریذیڈینٹ کے پاس پہنچتی ہے جو یہ فائل صدر کے پاس لے جاتے ہیں۔ ان تمام مراحل کے دوران اس فائل پر نوٹس لکھے جاتے ہیں، اس کو جانچا جاتا ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی کمی کی صورت میں وہ پوری کی جاتی ہے یا متعلقہ وزارت کو واپس بھجوائی جاتی ہے۔ صدر کے پاس پہنچنے کے بعد اگر وہ اس پر تصدیق کی مہر ثبت کر دیں تو کام مکمل ہو جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو وہ ‘ڈس اپروول’ کے ساتھ واپس بھیجی جاتی ہے۔کسی بھی فائل کی واپسی بھی اسی چین آف کمانڈ کے تحت ہوتی ہے جس سے وہ پہلے صدر کے دفتر تک پہنچی تھی۔ سیکشن آفیسر فائل واپس ملنے پر اعتراضات کے ساتھ اسے متعلقہ ادارے، محکمے، وزارت یا پارلیمنٹ بھیج دیتے ہیں۔ اس معاملہ میں ہوا یہ ہے کہ فائلز صدر کے پاس پہنچی اور انہوں نے اس فائلز کو اپنے پاس رکھ لیا۔ صدر کا اپنا سیکریٹریٹ ہے اور اس کے معاملات کو انٹرنل ونگ دیکھتا ہے جس میں ملٹری سیکرٹری اور ان کے ماتحت افسران اور سیکیورٹی کا عملہ شامل ہوتا ہے. یہ فائل صدر کے پاس ہے یا انٹرنل ونگ کے پاس۔ پہلا کام تو ان فائلز کا سراغ لگانا ہے کہ یہ فائلز کس کی کسٹڈی میں ہیں اور کیا وہ اس فائل کو اپنے پاس رکھنے کا مجاز ہے یا نہیں۔ یہ خود صدر کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ بتائیں کہ فائلز کہاں پر ہیں اور انہوں نے اس پر کیا اعتراضات لگائے تھے۔ جو بھی اس میں ملوث ہوا اسے بالآخر اسی قانون کے تحت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہو سکتا ہے کہ جب صدر اپنے عہدے پر نہ رہیں تو ان کے خلاف اسی قانون کے تحت کارروائی ہو اگر یہ بل اس وقت تک موجود رہا۔ ان دونوں قوانین کے حوالے سے بے شمار اعتراضات کیے جا سکتے ہیں اور صدر اگر اس سے متفق نہیں تھے تو یقینی طور پر اس پر اپنے اعتراضات لگائے ہوں گے محض یہ کہہ دینا کہ میں نے ان بلوں کو واپس بھیجنے کے لیے کہہ دیا تھا کیونکہ مجھے اس پر اعتراض تھا تو پھر یہ اعتراض بھی فائلز پر موجود ہو گا۔ اعتراض لگا کر فائل کو واپس بھیجنے کا ایک طریقہ کار ہے اس طریقہ کار کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہو گا۔ اس کے باوجود اگر ان کے سیکرٹری وقار احمد نے فائلز کو دبائے رکھا تو ان کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ دائر ہو گا۔
ایک وکیل ذوالفقار احمد بھٹہ نے ان دونوں قوانین کے حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جن کے بارے میں صدر نے کہا کہ انہوں نے اس بل پر دستخط نہیں کیے۔ یہ درخواست آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر کی گئی ہے جس میں بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار کا سہارا لیا گیا ہے، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ترمیمی بل انتہائی حساس ہیں جن سے ملزمان متاثر ہوں گے۔ درخواست میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اگر سپریم کورٹ نے بروقت اس معاملے کو حل نہ کیا تو مستقبل میں ان بلوں کے تحت لوگوں کے خلاف پراسیکیوشن بری طرح متاثر ہوگی اور تفتیشی اداروں کی تمام کوششیں بے سود ہو جائیں گی۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ ان خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ الزامات سے بری ہونے کے بعد بری ہونے والے افراد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور دیگر متعلقہ افسران کے خلاف پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 219 اور 220 کے مقدمات درج کر اسکتے ہیں۔ سیکشن 219 کہتا ہے کہ جو کوئی سرکاری ملازم بدعنوانی یا بدنیتی سے عدالتی کارروائی کے کسی مرحلے پر کوئی رپورٹ، حکم یا کوئی ایسا فیصلہ دیتا ہے جسے وہ قانون کے خلاف جانتا ہے، اسے سات سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
وقار احمد کو اپنے وقار کا اس قدر خیال ہے کہ انہوں نے اپنے خط میں صدر سے کہا ہے کہ وہ ایف آئی اے سمیت کسی بھی ایجنسی سے اس معاملے کی انکوائری کرائیں کہ فائلز کہاں پر موجود ہے، وہ سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں تو اب صدر کا فرض ہے کہ وہ ایف آئی اے یا کسی بھی دوسرے تحقیقاتی ادارے جس پر انہیں اعتماد ہو سے اس معاملہ کی انکوائری کرائیں تاکہ پتہ چل سکے کہ قصور وار کون ہے۔ چونکہ یہ دونوں قوانین انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور کئی لوگ اس قانون سے متاثر ہوں گے تو اس سارا گناہ اس کے سر ہو گا جس نے جان بوجھ کر یہ سب کچھ کیا ہے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.