لوگوں سے ناامیدی آزادی ہے

161

امید ایک ایسی نعمت ہے جو زندگی اور کائنات کی روح ہے۔ سزائے موت کے قیدی کا بلیک وارنٹ جاری ہو چکا ہو، کسی موذی مرض میں ڈاکٹروں نے زندہ رہ سکنے کی کوئی صورت نہیں کہہ دیا ہو مگر ایک امید ہے جو انسانوں کا حوصلہ بندھاتی ہے لیکن حضرت علیؓ کا یہ حکمت سے بھرپور قول انسانوں کی حمیت، غیرت، انا، خودی اور اللہ پر بھروسہ رکھنے کے لیے ایک لازوال نصیحت ہے یہ وہ امید نہیں جو انسان اللہ کے اذن سے باندھتا ہے یا اللہ کے حکم پر، یہ انسانوں سے وابستہ امید ہے، لوگوں سے امید ہے اور اس کے لیے کہا گیا ہے "لوگوں سے نا امیدی آزادی ہے”۔ قارئین آج تھوڑی دیر کے لیے اس عظیم قول کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے معاشرت میں لوگوں سے بندھی امیدوں پر غور کرتے ہیں اور پھر ذرا ان امیدوں سے چشم پوشی کر کے دیکھتے ہیں۔ آپ یہ رویہ، آزادی حاصل کرنے کا یہ طریقہ صرف ایک سوچ کو اپنے دل و دماغ میں اتار کر تو دیکھیں۔ یہ افسروں کے گھروں کی حاضریاں، وزراء کی تعریفیں، سیاست دانوں، اہل ثروت و اقتدار کی شخصیات کے ہٹتے ہوئے خول اور برآمد ہوتی ہوئی غلاظت و گندگی آپ کو عجیب آسودگی اور سکون عطا کرے گی۔ یقین کریں یہ آزادی بڑی سے بڑی غلامی سے بڑی آزادی محسوس ہو گی۔ ہمارے ہاں چونکہ عملی طور پر نظام سرے سے موجود ہی نہیں، نظام کی جگہ لوگوں سے امیدیں وابستہ کرنا ہماری معاشرت کی نمایاں کمزوری ہے اور دوسری جانب طاقت بھی ہے جب یہ طاقت خود اوندھے منہ گرتی ہے تو ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہمارے معاملات پھر بھی چلتے رہتے ہیں۔ لوگوں پر امید ایک خوفناک غلامی کے سوا کچھ نہیں۔ میرے ایک دوست تھے جو لڑکپن سے قابل بھروسہ یار تھے، ہمیشہ ہی رب العزت نے مجھے دنیاوی اعتبار ہر حوالے اور لحاظ سے زیادہ نوازے رکھا۔ وہ لاہور سے گوجرانوالہ موٹر سائیکل پر ہی مجھے ملنے کی خاطر آتے رہے۔ جب عیدکارڈ عام تھے اور عیدین پر پیغام کا بہترین ذریعہ تھا 35/40 سال پہلے دو تین سو تک کے بھی عید کارڈ ہوا کرتے تھے تب ہم ایک دوسرے کو عید کارڈ بھیجا کرتے تھے۔ یہ رشتہ میرا اس دوست کے علاوہ ارشد رؤف، شاہد چودھری، طاہر مسعود گل وغیرہ کم از کم درجنوں دوستوں سے تھا۔ اللہ نے اس کی اصلیت کا انکشاف کرنے کے لیے پانچ سال سے بھی کم مدت کے لیے کسی اعلیٰ عہدے سے نوازا۔ ایک مشترکہ دوست کا کوئی معمولی سا کام جو جائزبھی تھا جس کی اس نے خود پیشکش کی کہ میں کسی سے کہہ دوں گا۔ مگر ہوا یہ کہ دو تین دفعہ میں نے یاد دہانی کرائی مگر میری حیرانی کی انتہا نہ تھی کہ یہ دوست یوں بے اعتنائی برتے گا، حالانکہ اعلیٰ سرکاری عہدے کے دوران بھی وہ اپنے کام مجھے کہتا اور الحمدللہ میرے رب نے مجھے اس کے ان گنت کام کرنے کی توفیق دی۔ کسی کے کام آنے کی توفیق اللہ ہی کسی کو دیتا ہے ورنہ انسان کی کیا اوقات۔ ایک دن میں اس دوست کے رویے پر الجھن کا شکار تھا کہ ایک دوست ڈاکٹر سید محمد اسد پاکستانی کرکٹ ٹیم کے فزیو تھراپسٹ نے حضرت علیؓ کا یہ قول سنایا اور ساتھ مجھے تین چار سو سال پہلے شائع ہونے والی کتاب دی۔ قارئین تاریخی حوالے سے خصوصاً مذہبی تاریخ کی کتابیں جو ضیاالحق کے بعد چھپی ہیں میں ان پر کم کم ہی تکیہ اور اعتبار کرتا ہوں۔ اول تو تاریخ ویسے ہی کسی حد تک ناقابل اعتبار مضمون ہے اور پھر مذہبی تاریخ چونکہ اس میں عقیدت و نفرت اور ذاتی جذبات ہوا کرتے ہیں لہٰذا اس کا تقابلی جائزہ ضرور لینا چاہیے۔ اکثر دیکھا سنا گیا ہے کہ صدیاں پہلے ایک کاذب کی کتاب کو بنیاد بنا کر کتابیں لکھنے والے پھر ان کتابوں کا حوالہ دینے والے تقریروں میں کہیں گے کہ میں آپ کو 70/80 کتابوں کا حوالہ دے رہا ہوں۔ اب سامعین کو کیا پتہ کہ یہ 70/80 کتابیں اور ان کی بنیاد پر ہزاروں تقریریں دراصل ایک جھوٹ کی بنیاد پر ہیں۔ اس لیے کتابوں کی سند اور تصدیق بھی ضروری ہے۔ لہٰذا جب ڈاکٹر سید محمد اسد نے قول سنایا اور ساتھ کتاب دی جس کے صفحے کافی خستہ تھے میں نے جلد کھلوا کر کاپی کرائی اور ان کی کتاب واپس کی۔ اب وہ کتاب کاپی کی صورت میں میرے پاس بھی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ کبھی اس کو آزمائیں آپ یقین کریں میری جو ذہنی کیفیت اور سوچ تھی اس میں ان کا یہ مشورہ مجھے لازوال آزادی دلا گیا، وہ "دوست” جس پر میں تکیہ کیے ہوئے تھا بالکل ایک مخولیہ، مسخرہ، مفت بر لگنے لگا۔ ویسے بھی میرے مزاج میں تھا اور ہے کہ میں، جیسے تین بار دستک دینے کا حکم ہے، تین بار سے زیادہ کسی کو کوئی کام نہیں کہتا۔ نہ جانے اس سے زیادہ بار مجھے یہ لگتا ہے کہ میں شرک میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ گویا اس کے علاوہ تو میرا یہ کام کوئی کرے گا ہی نہیں حالانکہ کوئی کام اللہ کریم کے اذن کے بغیر ممکن نہیں۔ میری اس کیفیت کو کہ اللہ کی صفات کو انسانوں سے باندھنا بھی کسی حد تک شرک ہے، مثلاً رزق، عزت، خوش بختی وغیرہ۔ اس سوچ کا عقدہ ڈاکٹر اسرار صاحب نے بیان میں حل کیا، فرماتے ہیں، آپ کوئی کام کسی شخص سے کہیں وہ نہ ہو سکے، ہو سکتا ہے اسے یاد نہ رہا ہو یا اگلا دوست نہ مل سکا، رابطہ نہ ہوا کوئی بھی بات ہو گئی پھر آپ دوسری بار کہتے ہیں اور وہ پھر نہیں ہوتا تو تیسری بار آپ شرک میں داخل ہو گئے کہ اس کے علاوہ گویا یہ کام ہو ہی نہیں سکتا۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ زبردست ایمان والے تھے ہم ویسے ایمان والے نہیں لہٰذا میں دستک دینے کے حکم تک بات کرتا ہوں یعنی زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ۔ قارئین آپ یہ کر کے دیکھیں آپ کو وزرا، اعلیٰ عہدوں پر متمکن چھوٹے اور جھوٹے لوگ، محلوں میں بسنے والے بوزنے، بڑے ناموں کے وجود رکھنے والے میمنے، دولت مند، عقلمند، سرکاری افسران، عہدے داران، میڈیا پرسنز، مذہبی و سیاسی رہنما قوت و طاقت کے جعلی سرچشمے ہیں، اللہ گواہ ہے سرکس کے کردار دکھائی دیں گے۔ لہٰذا لوگوں سے نا امیدی آزادی ہے خواہ مخواہ یارانوں، رشتوں اور اپنی زندگی قربان کیے ہوئے قیمتی لمحوں اور خرچ کیے بلکہ بہائے ہوئے پیسے پر غمزدہ نہ ہوا کریں بس اللہ سے امید اور محنت پر تکیہ کریں، صرف ایک بار کر کے دیکھیں پھر اس آزادی سے لطف اندوز ہوں۔ اللہ سے امید باندھیں لوگ تو آپ کو کسی کا صحیح فون نمبر بھی نہیں دے سکتے، لوگوں سے نا امیدی آزادی ہے۔

تبصرے بند ہیں.