ہم جب موٹروے سے اتر کر جڑانوالہ کی طرف مڑے تو گیارہ کلومیٹر کا یہ فاصلہ ایک شرمندگی بھری مسافت تھی۔ مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ محترمہ سرینا عیسیٰ بغیر پروٹوکول اسی دن یہاں پہنچے تھے۔ سڑک کے اطراف میں آباد لوگ اپنے کاروبار میں مگن تھے مگر ان کے چہروں پر عدم تحفظ کا احساس نمایاں تھا۔ جڑانوالہ شہر سے ذرا پہلے چک 240 کی آبادی تھی اور پھر ایک چوراہا آباد تھا۔ شہر سے آنے والا ہجوم یہاں بھی پہنچا تھا اور مضافات کی آبادیوں میں بھی آگ لگا کر اللہ کی وحدانیت کے نعرے لگاتا ہوا منتشر ہوا تھا۔
ہم سینما چوک پہنچے تو یہاں پر چند پولیس اہلکار تعینات تھے اور اس چوک سے لے کر کرسچن کالونی تک سڑک خاردار تاروں سے بند کی گئی تھی۔ بکتر بند پولیس وین، چند ڈالے اور رینجر کی ٹیم بھی موجود تھی۔ لوگ اظہار یکجہتی کے لیے عیسیٰ نگر، کرسچن کالونی، ناصر کالونی، مہاراوالا اور چک 120 گ ب میں جا رہے تھے۔ ان تمام علاقوں میں ریلیف کیمپ بھی لگ چکے تھے اور سہمی ہوئی عورتیں اپنے جل چکے گھروں کی راکھ سمیٹ رہی تھیں۔ پورے علاقے میں نصب بجلی کے میٹر اور تاریں بھی جل چکی تھیں جس کی وجہ سے مستقل لوڈشیڈنگ ان بستیوں کا مقدر تھی۔
بطور عام شہری اظہار ہمدردی کے لیے جڑانوالہ جانے والے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وہاں پر پہنچے ہوئے سی سی پی او فیصل آباد سے پوچھا کہ آپ کی پولیس اقلیتوں کو بچانے کے لیے کیوں نہیں پہنچی؟ تو جواب معمول کا تھا کہ یہ سب کچھ اچانک ہوا تھا اس لیے پولیس ہجوم کا مقابلہ نہیں کر سکی۔ قاضی فائز عیسیٰ نے تعجب کرتے ہوئے کہا اچانک کیسے ہو گیا، باقاعدہ مساجد میں اعلانات ہوتے رہے اور لوگوں کے جمع ہونے کا انتظار کیا گیا، مشتعل لوگ تو اعلان پر جمع ہو گئے مگر پولیس نہیں پہنچ سکی؟ قاضی صاحب نے کہا کہ ایس ایس پی کا بیان بھی ریکارڈ کا حصہ بنایا ہے؟ ان تمام سوالات کا جواب دینے کے لیے سی سی پی او کے پاس الفاظ نہیں تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جب ہجوم مشتعل ہو تو انہیں روکنا پولیس کے بس کا کام ہی نہیں۔
کرسچن کالونی کی تنگ گلیوں میں درجنوں گھر جل چکے تھے۔ چارپائیاں، بستر، برتن، سامان الیکٹرونکس خاکستر ہو چکا تھا اور بہت سارا قیمتی مال لوٹ لیا گیا تھا۔ عورتیں ایک دوسری کے گلے لگ کر رو رہی تھیں۔ چند تاریک گلیوں سے گزر کر ہم اس چرچ تک پہنچے جس کی پیشانی پر درج تھا "یہ خدا کا گھر ہے یہاں قدم بھی آرام سے رکھ” چرچ کے اندر آگ کی وہ کالک تھی جو ہجوم نے اپنے کردار سے اتار کر یہاں پر مل دی تھی۔
جل چکے چرچ کا پادری ہمارے گلے لگ کر یوں رویا جیسے ہم ان کے دکھ کا مداوا کر سکتے تھے، ہم تو صرف دلاسا دینے آئے تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کچھ رقم باعزت طریقے سے متاثرین میں تقسیم کی اور مسز سرینا عیسیٰ نے کھانا بانٹا۔ انسانی حقوق پر ہمیشہ زور دینے والے جسٹس قاضی صاحب وہاں پر بنیادی آئینی حقوق کی پامالی پر افسردہ تھے۔ انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں پر ظلم اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔ ہمارے آئین نے بھی انہیں مذہبی آزادی دی ہے۔ عیسائیوں کو چرچ بنانے کا اتنا ہی حق ہے جتنا ہمیں مساجد بنانے کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ مانتا ہو اس لیے آگ لگانے والوں نے اپنی ہی شریعیت کی خلاف ورزی کی ہے اور تعلیمات اسلامی کا مذاق اڑایا ہے۔
ہم مختلف راہداریوں میں جلے ہوئے گھروں کو دیکھتے رہے اور رنجیدہ ہوتے رہے کہ حسن سلوک کا درس دینے والے مذہب کو کس نے شدت کا ایندھن دیا ہے کہ ہم بغیر معاملہ دیکھے اور بلا تحقیق کیے اپنے ہی وطن کے شہریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ مختلف گھروندوں میں مقدس کتاب کے اوراق بھی جلے پڑے تھے، وہی کتاب جس کی تصدیق قرآن مجید نے کی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ ماضی قریب میں گزرے جشن آزادی کی جھنڈیاں بھی جلی ہوئی تھیں۔
جڑانوالہ واقعہ پر چند مخصوص ذہنوں کے علاوہ ساری قوم افسردہ ہے۔ گھروں سے باہر فصلوں میں چھپ کر رات گزارنے والے عیسائیوں کی تصاویر آبدیدہ کرتی ہے اور اب تک ان بچوں کے ذہنوں میں غریب الوطنی کے حوالے سے جو سوال تھے ان کا جواب ہمارے پاس تھا اور نہ ریاست کے پاس۔
سالویشن آرمی چرچ کی جو صلیب توڑنے والے ساتھ لے گئے تھے وہ ابھی تک برآمد نہیں ہوئی۔ صلیب سے عیسائیوں کی وہی وابستگی ہوتی ہے جو ہمیں مسجد کے مینار سے ہے۔ مجھے ذاتی طور پر چرچ کی تباہی سے زیادہ دکھ اس لڑکی کا جہیز جلنے سے ہوا جس کی شادی چند دن بعد تھی میں جہیز کی راکھ پر کافی دیر کھڑا رہا مگر ذہن میں اٹھتے ہر سوال کا جواب کئی خدشات ساتھ لاتا تھا۔
اس تباہی اور غریب الوطنی کے باوجود متاثرین نے ریاست کے خلاف کوئی نعرہ نہیں لگایا۔ 80 مکانات اور انیس گرجا گھروں کی باقیات دراصل وہ کہانی لیے ہوئے تھیں جس کے کردار ہم نے خود تخلیق کیے تھے۔ نصاب کی کتابوں سے لے کر تاریخ کے متعصب مورخ تک اس واقعہ کے ذمہ دار ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مبلغین نے شائد دوسرے مذاہب کو برداشت کرنے اور انسان کی تکریم کا درس ہی نہیں دیا۔
ہم جب جڑانوالہ سے نکلے تو مساجد کے لاؤڈ سپیکروں سے اذان عصر کی مبارک آواز بلند ہو رہی تھی جس میں فلاح کی طرف بلایا جا رہا تھا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.