مطمئن ہو گئے ہم بس دعائیں کر کے

36

جڑانوالہ میں جو فساد کچھ نام نہاد مسلمانوں نے برپا کیا اُس پر جتنی لعنت بھیجی جائے کم ہے،”عدم برداشت“ کی یہی انتہا ہے جس کی ابتداء ہمارے سیاسی و اصلی حکمرانوں نے برسوں پہلے کی تھی، اُن کی اپنی لگائی ہوئی یہ آگ کیسے بُجھے گی؟ اُن کی اپنی سمجھ میں اب نہیں آ رہا؟ اور جس طرح کے مشکوک کرداروں کے وہ مالک ہیں، خود ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ آگ وہ بُجھانا بھی چاہتے ہیں یا نہیں؟ ممکن ہے اس آگ سے بھی کوئی نہ کوئی فائدہ اْنہیں پہنچ رہا ہو۔۔ ”روز پلتے ہوئے شعلے نہ بُجھائے مگر۔۔ جب آگ پھیلی تو لوگ شہر بچانے نکلے“۔۔
میں پاکستان سے مستقل طور پر کسی ایسے مقام پر شفٹ ہونے کی پلاننگ کر رہا ہوں جہاں میں گھنٹوں پرندوں، پھولوں، خوشبوؤں، درختوں، پہاڑوں، سمندروں، دریاؤں اور جھیلوں سے باتیں کر سکوں، جہاں کبوتر طوطے اور تتلیاں میرے بازُوؤں اور کاندہوں پر آ کر بیٹھ جائیں، جہاں ہرن اور مور میرے ساتھ ناشتہ کریں، جہاں بُلبلیں اور کوئلیں میرے ساتھ گانے گائیں، جہاں رنگ اور موسم میرے ساتھ رقص کریں، جہاں نفرت، سازش، انتقام، حسد، بغض اور منافقت جیسی لعنتیں دُور دُور تک دکھائی نہ دیں، جہاں میرے ذاتی معاملات سے کسی کو کوئی دلچسپی نہ ہو کہ میں کیا کرتا ہوں، کتنے کنال کے گھر میں رہتا ہوں، میرے پاس گاڑی کون سی ہے؟ میں نے کتنی شادیاں کی ہیں، میرے بچے کتنے ہیں؟ میرا بینک بیلنس کتنا ہے؟ میری کمائی حرام کی ہے یا حلال کی؟ میں کپڑے اور جُوتے کس برانڈ کے پہنتا ہوں، میرے آباؤاجداد کیا کرتے تھے؟ میرا پیٹ باہر کیوں نکلا ہوا ہے؟ یا میں آئے روز مُلک سے باہر کیا کرنے جاتا ہوں؟۔۔
ہماری سوچیں ہی نرالی ہیں، اگلے روز یورپ سے طویل دورے سے واپسی پر میں صبح واک کے لئے اپنے گھر کے سامنے ایک پارک میں گیا، مجھ سے آگے چلنے والی ایک خاتون دوسری خاتون سے کہہ رہی تھی”نی پابی ایہہ سامنے اوں جیڑی چُڑیل جئی آ رئی اے، اینے جیڑا سْوٹ پایا اے، ایہہ سُوٹ میں دس سال پہلے ای ہنڈا لیا سی“۔۔تھوڑا آگے گیا ایک اور خاتون دوسری خاتون سے کہہ رہی تھی”باجی یہ سامنے سے جو موٹا آ رہا ہے میں کتنے سالوں سے اسے واک کرتے دیکھ رہی ہوں، اس کا پیٹ ابھی تک ایک انچ بھی کم نہیں ہوا“۔۔تھوڑا اور آگے گیا مجھے پیچھے سے زوردار ایک آواز آئی، ایک صاحب خود سے زرا دْور جانے والے اپنے کسی جاننے والے کو پْکار رہے تھے”او گنجیا پیچھے ویکھ میں وی آ ریا واں“۔۔ ایسی ہی باتیں جاگنگ ٹریک پر چلنے والے دیگر مرد و زن بھی کر رہے تھے، کوئی یہ نہیں کہہ رہا تھا” آج موسم کتنا اچھا ہے، آج درختوں پر پرندوں کی چہچہاہٹ کتنی بھلی لگ رہی ہے، آج شاخوں پر پھول کتنے کھلے ہوئے ہیں، آج گھاس کا سبزہ کتنا اچھا لگ رہا ہے“۔۔ ایک دوسرے کے ذاتی معاملات میں مداخلت کا جو چسکا ہمیں پڑ گیا ہے وہ دُنیا میں اب باقاعدہ ہماری ”شناخت“ بن گیا ہے، جرمن کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر نے مجھ سے کہا”یوں محسوس ہوتا ہے پاکستان اب نفسیاتی مریضوں کی ایک چراگاہ ہے“، پہلے میں نے سوچا یہ”ریسزم“ ہے، پھر ٹھنڈے دل و دماغ سے میں نے سوچا جو ہم پاکستانیوں کے رویے اور مزاج ہیں، کہہ تو یہ ٹھیک ہی رہا ہے، گزشتہ ستر برسوں سے ہمارے سیاسی و اصلی حکمرانوں نے اپنے ”ہجوم“ بلکہ ”بپھرے ہوئے ہجوم“ کو ”قوم“ بنانے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی، سب ”کمیشن“ ہی کے ”مشن“ میں لگے رہے، اب عدم برداشت کا ایک ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے یہ ”بم“ اب جگہ جگہ پھٹیں گے، جڑانوالہ میں جو سانحہ ہوا، کیا ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں آئندہ ایسا ماحول ہم بنا دیں گے ایسا کوئی سانحہ کسی اور جگہ اب نہیں ہوگا؟، ہمارے اکثر ادارے ”کُھسرے“ ہو چکے ہیں، کسی کے پاس کوئی نئی سوچ، کوئی پلاننگ کوئی وین کوئی طاقت ہی نہیں کہ معاملات میں وہ کوئی بہتری لا سکیں، سب لکیر کے فقیر ہیں، میں نے یہ واقعہ پہلے بھی لکھا تھا، دُکھی دل سے آج پھر عرض کئے دیتا ہوں، بہت برس پہلے ایک بھارتی رسالے‘”ہند سماچار“ میں بھارتی دانشور خشونت سنگھ کا ایک انٹرویو میں نے پڑھا تھا، ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے فرمایا ”1947 میں برصغیر کے مسلمان ایک قوم کی طرح تھے جنہیں ایک مُلک کی ضرورت تھی، قائداعظم نے اُن کے لئے پاکستان بنایا، اب پاکستان ایک مُلک ہے جسے ایک قوم کی ضرورت ہے“۔۔ ایک المیہ یہ بھی ہے بائیس کروڑ کا یہ بپھرا ہوا ہجوم ”قوم“ بننا ہی نہیں چاہتا، نہ ہمارے سیاسی و اصلی حکمران اُنہیں ”قوم“ بنانا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں اگر یہ ہجوم ایک”قوم“ بن گئی سب سے زیادہ نقصان ان اصلی و سیاسی حکمرانوں کا ہی ہوگا، جیہاں، پھر”قوم“ کسی کے ساتھ ظلم و زیادتیوں پر خاموش نہیں رہے گی، پھر قوم آئین کی خلاف ورزیوں پر چُپ کر کے نہیں بیٹھے گی، پھر قوم مُلک توڑنے والوں کی کمریں اور قبریں توڑ دے گی، اُن کے ہاتھ توڑ دے گی۔۔
افسوس ہمارے وہ سب بڑے مر کھپ گئے جو غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کی تربیت کرتے تھے، ہمارے پاس اب صرف ”دولتی بڑے“ رہ گئے ہیں، اب بڑا صرف وہ ہے جس کے پاس پیسہ بڑا ہے، جس کے پاس عزت بڑی ہے اْسے کوئی پوچھتا ہی نہیں، کل ایک افسر سے میں نے پوچھا ”عقل بڑی کہ بھینس؟“، وہ بولا”یقینابھینس بڑی ہے جو دُودھ دیتی ہے، عقل کا کسی نے اچار ڈالنا ہے“۔۔ جڑانوالہ کا سانحہ ہمارے ان ہی رویوں اور سوچوں کا عکاس ہے، جو بیج ہم بو رہے ہیں وہی کاٹ رہے ہیں، ہمارے نااہل اعلیٰ افسران بڑے فنکارانہ انداز میں اس سانحے پر مٹی ڈالنے کی کامیاب کوشش کریں گے، اس سانحے کے اصل کرداروں یا اصل سازش کو بیشمار مجبوریوں کی وجہ سے سامنے لانے سے گریز کیا جائے گا، کچھ لوگ یقینا گرفتار کئے جائیں گے، مگر جب عوام کی نظروں سے حسب معمول یہ سانحہ اوجھل ہو جائے گا اُنہیں بھی چھوڑ دیا جائے گا۔۔مہذب مُلکوں اور معاشروں میں کوئی مسئلہ پیدا ہوجائے وہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، پاکستان دْنیا کا شاید واحد مْلک ہے جہاں کوئی مسئلہ پیدا ہوجائے وہ مسئلہ دبانے کی کوشش کی جاتی ہے،ہم نے اتنے مسئلے اب تک دبائے ہیں کہ ان مسئلوں کی صورت میں دبایا جانے والا ہر بیج ایک تنا اور درخت بن چْکا ہے، یہ”جنگل“ مسئلوں کے ان ہی گھنے درختوں سے اب بھرا پڑا ہے، دعا ہے اللہ ہمارے حال پر رحم فرما دے، ہمارے دلوں کو پھیر دے۔۔
اے آسمان اب زرا پرے ہٹ جا، ہماری دعاؤں کو ہمارے رب تک پہنچنے دے، کیونکہ ھم سوائے دعاؤں کے کچھ نہیں کر سکتے۔۔
یہ نہ سوچاہم نے کچھ دکھائیں کر کے
مطمئن ہوگئے ہم بس دعائیں کر کے

تبصرے بند ہیں.