ہم لاعلاج ہیں ……؟؟؟

62

مغرب سے درآمدشدہ مدرزڈے، فادرز ڈے، ٹیچرزڈے، عورت ڈے، ویلنٹائن ڈے وغیرہ وغیرہ منا کر جس طرح ہم ”پٹھیاں چھالاں“ مارتے ہیں اسی طرح ہی آج ہم اپنا آزادی کا دن صرف جھنڈیاں لگا کر، تقریبات منعقد کر کے، پابندی کے باوجود باجے بجا کر لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر کے سمجھتے ہیں ہم نے بڑا ”تیر“ مار لیا اور پھر اگلے سال تک میٹھی نیند ”سو“ جاتے ہیں، 14 اگست دراصل ”یوم حساب“ ہے کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا لیکن ہم نے کھویا ہی کھویا ہے، قائداعظمؒ نے کہا تھا کہ چند کھوٹے سکے میری جیب میں ہیں اور بانی پاکستان کے بعد یہی کھوٹے ”سکے“ آج ملک پر قابض ہیں، بانی پاکستان اور شہید لیاقت علی خان کے بعد قوم کو لیڈر نہ ملا جو انہیں یکجہتی سکھاتا، جو انہیں ایک قوم بناتا، جو انہیں وطن سے محبت کی ترغیب دیتا مگر یہاں جتنے بھی حکمران آئے وہ ملک کا ستیاناس کر کے چلتے بنے، کسی نے قومیت کا نعرہ لگا کر لوگوں کو پیچھے لگایا، کسی نے مذہب کا نعرہ لگا کر آگ بڑھائی، کسی نے روٹی، کپڑا اور مکان کا دلفریب وعدہ کیا، کسی نے ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے کا نعرہ لگایا تو کسی نے نوکریوں، گھر دینے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا خواب دکھاکر قوم کو مزید تقسیم کیا، پاکستان زندہ باد کا نعرہ منہ سے لگا کر اور کرسی کے پیچھے قائداعظمؒ کی تصویر لگا کر ہم ہر وہ کام کرتے آئے کہ جن سے اپنی ہی واہ واہ ہو، بینکوں میں اپنے نام کے درجنوں اکاؤنٹس اور ان میں اتنے نوٹ ہوں کہ گننے کے لیے مشین درکار ہو مگر ہم نے ملک کے لیے کچھ کیا نہ عوام کے لیے کہ جن کے ووٹ سے منتخب ہو کر ایوان اقتدار میں پہنچے، ہر دور میں وہی چہرے روپ بدل بدل کر عوام کو ”لالی
پاپ“ دیتے رہے، انہی کھوٹے ”سکوں“ کی بدولت آج ملک بحرانوں کا شکار ہے، آج یہاں بجلی ہے نہ پانی، ویسے تو ہمارا زرعی ملک ہے لیکن گندم باہر سے منگواتے ہیں، چاول باہر سے منگواتے ہیں، کاروبار تباہ، انڈسٹری کو تالے لگ چکے، بیروزگاری کی وجہ سے جرائم بڑھ چکے اور ان جرائم پر قابو پانے والے اسی میں رنگ چکے ہیں، نیب سیاستدانوں کے پیچھے لگاہے ان کے اثاثے ڈھونڈنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے، اگر اتنی کوشش پولیس والوں کے لیے کرے تو پتہ چلے کہ ایک ماڑے سے ماڑے کانسٹیبل کے کتنے اثاثے ہیں؟ آج حال یہ ہے کہ نجی ملازمین کو چھوڑ کر سرکاری ملازمین کام کرنے کو اپنے لیے ”گالی“ سمجھتے ہیں، رشوت اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے، معمولی سے معمولی کام کے لیے بھی ”باباجی“ کی تصویر دکھانا پڑتی ہے ورنہ آپ کی فائل چھلاوا بن جائے گی، مجال ہے کوئی افسر بھی آپ کی شنوائی کرے، انصاف نام کی یہاں کوئی چیز نہیں، عام دفتر سے لے کر عدالتوں، کچہریوں تک میں انصاف برائے فروخت کا بورڈ آویزاں ہے، آج ملک کا جو حال ہے وہ کبھی نہ تھا، اللہ کریم نے 14 اگست 1947ء کو لاکھوں ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بزرگوں کی قربانیوں کے بدلے ”پاکستان“ عطا کیا، جس کی ہم نے قدر نہ کی، کچھ لوگ اسے دن رات بُرا بھلا کہتے ہیں جنہوں نے اس کے لیے کچھ نہ کیا ایسے لوگ مقبوضہ جموں وکشمیر، بوسنیا، چیچنیا اور فلسطین کے مسلمانوں کا حال دیکھیں جو دن رات آزادی کے لیے لڑرہے ہیں کیونکہ وہاں زندگی کو تہہ تیغ کیا جارہا ہے اور ایک ہم ہیں کہ جنہیں بیٹھے بٹھائے آزادی مل گئی اور ہم اس کی قدر نہ کرسکے، قومی اداروں کو ہم نے گھر کی لونڈی سمجھ لیا، پی ٹی وی، پاکستان سٹیل ملز، پی آئی اے، پاکستان ریلوے سمیت دیگر اداروں میں ہر سال اربوں کا خسارہ ظاہر کیا جا رہا ہے، کوئی نئی نسل کو بتائے کہ ان اداروں کو کس نے اس حال تک پہنچایا ہے؟ آج حال یہ ہے کہ ملک کو قرض لے کر چلایا جارہا ہے اور پھر اس قرض کو اُتارنے کے لیے مزید قرض لیا جارہا ہے اور پھر ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ کرے یہ ہمارا آخری آئی ایم ایف پروگرام ہو،اس گردان کو سنتے سنتے ہماری کئی نسلیں جوان ہو گئی ہیں، کئی ماہ وسال گزر گئے لیکن عملی طور پر ہم نے کچھ نہ کیا، آج ہم اپنا 76واں یوم آزادی جوش وجذبے سے منا رہے ہیں، منانا بھی چاہیے کیونکہ زندہ قومیں اپنا یوم آزادی جوش وجذبے کے ساتھ ہی مناتی ہیں لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم نے اس دھرتی کے فائدے کے لیے بھی کچھ کیا؟ ہم نے اپنے ہمسایوں سے اچھا برتاؤ کیا؟ کیا ہم نے ان 76 سال میں اپنے آپ کو کسوٹی میں پرکھا؟ نہیں! کاش ہم اس دن کو صرف تقریبات تک محدود نہ کرتے، کاش ہم قائداعظمؒ کے فرمودات پر عمل کرتے، کاش ہم غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہتے، کاش ہم اپنے نہیں قوم کی بہتری کے لیے منصوبے بناتے تو آج ”ٹکے ٹکے“ کے لیے ترس نہ رہے ہوتے، دکھ صرف اس بات کا ہے کہ ہمارے پاس اربوں روپیہ آگیا ہے، بنگلہ نما گاڑیاں آگئی ہیں ”پر“ عقل نہیں آئی! اوراس عقل کے حصول کے لیے اچھی سوچ کی ضرورت ہے، اچھی لیڈرشپ کی ضرورت ہے، اچھی تعلیم کی ضرورت ہے اور اگر یہ سب کچھ ہو جائے تو ہم واقعی ایشین ٹائیگر بن جائیں،آئی ایم ایف سے جان چھوٹ جائے، خوشحالی ہمارے آگے پیچھے رقص کرے اور ہم دنیا میں سر اُٹھا کر جئیں کیونکہ ہم لاعلاج نہیں ہیں، ضرورت صرف اور صرف اپنے طور طریقوں کو بدلنے کی ہے!!!آئیے عہد کریں 77واں یوم آزادی ہم ایک قوم بن کر جوش اور جذبے کے ساتھ منائیں گے۔

 

تبصرے بند ہیں.