قوم نے اپنا 77 واں یوم جشنِ آزادی روایتی جوش و جذبے سے منایا۔ یہ جانے بغیر کہ خطہ زمین آزاد ہوا لیکن کیا اس پر بسنے والے انسان بھی آزاد ہیں؟ کیا جمہوریت، معاشی و سماجی انصاف، فرد اور اس کی رائے کی آزادی جنہیں ریاست کے بانی نے ریاست کے لازمی اجزا قرار دیا تھا آج تک مکمل شکل میں نافذ ہو سکے ہیں؟ مسکینی، محکومی اور نومیدی ِکے منحوس سائے ابھی تک وطن عزیز پر چھائے ہوئے ہیں ان کا خاتمہ کیسے ہو گا؟ قیام سے لے کر آج تک ارباب اختیار و اقتدار نے جہاں بانی کے بہت سے تجربات کیے۔ لیکن ان کے پیچھے گروہی مفادات اور اختیارات کا حصول بنیادی مقصد تھا اور عوام کے حصے میں آئے تو صرف خواب اور نعرے۔ جیسے ساحرؔ نے کہا تھا:
یہ جشن یہ ہنگامے دلچسپ کھلونے ہیں
کچھ لوگوں کی کوشش ہے کچھ لوگ بہل جائیں
جو وعدہِ فردا پر اب ٹل نہیں سکتے ہیں
ممکن ہے کچھ عرصہ اس جشن پہ ٹل جائیں
وطن عزیز کی تاریخ میں ملک اور عوام کی خوشحالی کے کیسے کیسے ”اچھوتے منصوبے اور شاہکار منشور“ سامنے نہیں آئے لیکن معاملہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی رہا اور بقول غالبؔ:
ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہیں بیاباں مجھ سے
دو سال قبل معروف مورخ اور محقق ڈاکٹر حسن بیگ کی کتاب صدا بہ صحرا شائع ہوئی ہے۔ اس میں تقسیم ہند کے حوالے سے ایک مضمون پڑھنے کو ملا سوچا قارئین کو بھی شریک کروں کہ آزادی کی نعمت کن پہاڑ جیسی مشکلات کا سامنا کر کے نصیب ہوئی۔
تقسیم ہند کا مضمون اُن حالات اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے جن کا سامنا تقسیم کے وقت مسلمانوں کو کرنا پڑا۔ 1947 کے ہند میں مسلم لیگ اور کانگریس کی مشترکہ حکومت تھی۔ سردار پٹیل وزیر داخلہ تھے، انتظامی ان امور کے پاس تھے اور امن و امان کو قائم رکھنا بھی اُن ہی کی بنیادی ذمہ داری تھی۔ سردار پٹیل نے مسلمانوں کے مقابلے کے لیے ہندوؤں اور سکھوں کو تیار کیا۔ ان کو کثیر تعداد میں سرکاری فیکٹریوں سے تلواریں بنوا کر فراہم کیں۔ ہندو اور سکھوں کو اجازت دی گئی کہ وہ تلوار کے ساتھ جہاں چاہیں جا سکتے ہیں۔ سکھوں کی چھوٹی کرپانوں کو بڑی تلواروں سے بدل دیا گیا۔ اس سے پہلے سکھ چھوٹی کرپانوں کو کُرتے یا بنیان کے اندر رکھتے تھے یا پھر پگڑی کے اندر بالوں میں چھپا لیتے کہ کرپان ان کے مذہب کا لازمی جُز تھی۔ مگر اس اجازت کے بعد یہ ہوا کہ جس سکھ کو دیکھو سائیکل پر تلوار لٹکائے جا رہا ہے۔ دفتر میں بابو کام پر آ رہا ہے تو تلوار اس کی میز پر رکھی ہے۔ مسلمانوں پر پابندی تھی کہ لکڑی بھی نہیں رکھ سکتے چاقو بھی جیب میں نہیں ہونا چاہئے۔ اکیلا مسلمان کہیں آتا جاتا مل جاتا تو سکھ اُس پر حملہ کر دیتے۔ کئی مسلمان اس طرح کے حملوں میں شہید ہوئے۔ آہستہ آہستہ انفرادی حملے اجتماعی حملوں کی شکل اختیار کر گئے۔
علامہ اخلاق حسین عرب سرائے کے سادات میں سے تھے۔ بہت سی کتابوں کے مصنف اور لکھنے پڑھنے کا شوق رکھتے تھے۔ پہاڑ گنج میں سکونت پذیر تھے۔ رہائش کے لیے دو منزلہ مکان تعمیر کیا تھا جس کی بالائی منزل کرائے پر دے رکھی تھی۔ ایک روز سہ پہرکے وقت مکان کے برآمدے میں بیٹھے چائے بنا رہے تھے۔ انگیٹھی پر کیتلی چڑھی ہوئی تھی، ایک دم باہر سے غل و شور کی آواز آئی۔ لوگ چیختے ہوئے آئے، ماسٹر صاحب جلدی آؤ، وہ گھبرا کر ننگے پیر بھاگے کہ دیکھیں کیا بات ہے؟ باہر آئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ ایک ٹرک پر سوار ہیں، ان کو بھی ہاتھ پکڑ کر اوپر گھسیٹ لیا اور ٹرک چلنا شروع ہو گیا، سڑک لاشوں سے پٹی پڑی تھی، ٹرک لاشوں کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ اُن کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا ہوا ہے۔ ٹرک نے ان کو عید گاہ پہنچا دیا۔ جہاں ایک کیمپ بن چکا تھا۔ ان کا دماغ ماؤف ہو گیا۔ تین دن اور تین راتیں بے سر و سامان اِدھر اُدھر پھرتے رہے، بھوک نہ پیاس۔ اس عرصے میں ان کے چھوٹے بھائی حکیم سید حسن ان کو ڈھونڈتے ہوئے چھپ چھپا کر ان کے پاس پہنچے اور کہا کہ چلیے کچھ فاصلے پر ایک جھونپڑی میں بغیر دودھ کی نمکین چائے بن رہی ہے وہ چل کر پئیں۔ اس کے بعد وہ اپنے بھائی کے ساتھ بستی حضرت نظام الدینؒ آئے۔ اُن کے گھر چھوڑنے کے بعد اُن کا سارا گھر لُٹ گیا، تمام روپیہ، پیسہ سارا ساز و سامان۔ اُن کی اپنی اچھی لائبریری تھی، اُس میں قیمتی کتابیں موجود تھیں۔ سب سے زیادہ اُن کو اپنی لائبریری کے برباد ہونے کا افسوس تھا۔ بعد میں کسی نے اُن کو اطلاع دی کہ آپ کی کچھ کتابیں جامع مسجد کے پاس کباڑی بیچ رہے ہیں۔ وہاں جا کر اپنی ہی کُتب جو دستیاب ہو سکیں خود ہی خرید لائے۔
عبداللہ قریشی ایڈووکیٹ بھی پہاڑ گنج میں رہا کرتے تھے۔ اُن اور اُن کے بھائی کے وہاں ذاتی مکان تھے۔ پولیس نے آ کر اُن کے محلے کو گھیر لیا، گولیاں چلنا شروع ہو گئیں، اُن کو حکم ہوا کہ نکل جاؤ، یہ سب اپنے بیوی بچوں کو لے کر باہر آئے، اُن کے بھائی پھر اندر گئے کہ کچھ ضروری کاغذات لے آئیں، اُس کے بعد اُن کا پتہ نہیں چلا، غالباً شہید ہو گئے، سب مکانوں پر شرناتھیوں کا قبضہ ہو گیا۔
یہ تو فقط چند سطری واقعات ہیں۔ ایسے ہزاروں واقعات ہیں، کہ کس طرح لوگوں نے اس سرزمین کے حصول کے لیے کیا کیا قربانیاں دیں اور کس طرح کھڑے پیروں اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت اختیار کی۔ مگر ہمارے یہاں پاک بھارت کی مشترکہ ثقافت کا ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ تقسیم کی مخالفت کی جاتی ہے۔ سکھوں کی خوب آؤ بھگت کی جاتی ہے۔ یقینا اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پڑوسی ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات ہونے چاہئیں اور مذہبی جذبات کا احترام بھی روا رکھا جانا چاہیے۔ لیکن کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ سرحدیں ختم ہو جانی چاہئیں؟ اور اپنے وجود اور شناخت کو مٹا دینا چاہیے؟ جیسا کہ ہمارے یہاں ترقی پسند اور لبرل کہلائے جانے کے شوق میں مبتلا دانشوروں نے بیانیہ گھڑ رکھا ہے۔ یہ وطن عوام کی قربانیوں سے وجود میں آیا ہے، لاکھوں شہداء نے اپنے خون سے اس کی آبیاری کی ہے۔ اس کی حفاظت اس کی ترقی اور اس کے عوام کی خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ عوام کی رائے کا احترام کیا جائے۔ جاگیرداروں، وڈیروں، مذہبی پیشوائیت، سرمایہ داروں کی اقتدار اور وسائل پر اجارہ داری کو ختم ہونا چاہیے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.