ہندو دہشت گردی یا پھر نسل پرستوں کا دیس بھارت

91

مشرک ہندوؤں کی اسلام و مسلمانوں سے دشمنی کوئی نئی بات نہیں بلکہ ان کو یہ دشمنی ان کے آباء و اجداد سے ورثے میں ملی ہے۔ لیکن اس دشمنی نے اس وقت وحشت و بربریت کی انتہا کر دی جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی۔ غیر جانبدار مبصرین کے مطابق اس وقت کم و بیش 6 ملین نہتے مسلمانوں کو انتہائی بیدردی سے شہید کیا گیا۔ مسلم نسل کشی کا یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ موقع و محل کی مناسبت سے یہ شیطانی فعل جاری و ساری ہے۔ انتہائی محتاط اندازے کے مطابق گذشتہ ستر سال کے دوران 50,000 کے قریب بھارتی مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ خیال رہے کہ ان میں مقبوضہ کشمیر میں ایک لاکھ پچیس ہزار شہید ہونے والے مسلمان شامل نہیں ہیں۔ مشرک ہندوؤں کی مسلم دشمنی کی فطرت کو قرآن نے آج سے چودہ صدیاں قبل ہی بغیر کسی ابہام کے کھل کر بیان کر دیا تھا۔ (یقینا آپ ایمان والوں کا سب سے سخت دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے، سورۃ المائدہ)۔ چند روز قبل بھارت کی الہ آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے نے مجھے چونکا دیا، جس کے تحت بنارس کی معروف اور تاریخی گیان واپی مسجد کے سائنسی سروے کی اجازت دے دی گئی۔ قانونی حکم نامے کے مطابق اب archaeologist مسجد کے در و دیوار، اس کی بنیادوں اور تعمیرات کا جائزہ لے کر یہ بتائیں گے کہ صدیوں پرانی یہ مسجد کیا کوئی ہندو مندر توڑ کر بنائی گئی تھی یا مندر کے کچھ حصے کی تعمیر نو کر کے اسے مسجد میں بدل دیا گیا تھا۔
اس موقع پر بھارتی ریاست اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا بیان محب اسلام طبقوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ موصوف فرماتے ہیں ”مسلمانوں کو ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس مسئلے کا حل پیش کرنا چاہیے“۔ صاف محسوس ہو رہا ہے کہ وہ بغضِ اسلام کا بدترین مظاہرہ کر رہا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے دین اسلام (قرآن وسنت) پر ایمان رکھنے والوں کے لیے موجودہ حالات کی منظر کشی کو بہت ہی واضح انداز میں بیان کیا ہے۔ (ان کی دشمنی تو خود ان کی زبان سے ظاہر ہو چکی ہے اور جو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے ہم نے تمہارے لیے آیتیں بیان کر دی ہیں اگر تم سمجھ رکھتے ہو، سورۃ العمران)۔ دراصل ”ماضی کی غلطی کا اعتراف“ سے یوگی یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ مسلمانوں نے مساجد تعمیر ہی کیوں کیں؟۔ اہل ایمان کو جس حقیقت کے ادراک کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ تعصب پر مبنی ہائیکورٹ کا فیصلہ اور نسل پرست وزیر اعلیٰ کا بیان، یہ محض ایک بیان یا پھر فیصلہ نہیں بلکہ اسلام دشمنی پر مبنی ان کی پالیسیوں کا بنیادی محور ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے اس فیصلے کی آڑ میں وہ پورے بھارت کی مساجد کا خاتمہ یا پھر اپنی تحویل میں لینا چاہتے ہیں۔ اسلام و مسلم دشمنی میں بھارتی لوک سبھا، عسکری و مندری مذہبی قیادتوں اورعدلیہ سمیت نسل پرست معاشرہ سب ایک پیج پر ہیں۔
نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ چلتی ٹرینوں میں سرعام حاضر سروس فوجی اہلکار چیتن سنگھ چن چن کر 3 نہتے مسلمانوں کا قتل کر دیتا ہے اور کوئی پوچھنے والا، پکڑنے والا نہیں۔ الٹا ایسے دہشت گردوں کو نسل پرست بھارتی معاشرے میں ہیرو کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ دن دیہاڑے دارالحکومت نئی دہلی سے محض چند کلومیٹر دور واقع گروگرام میں شدت پسند ہندوؤں کا ہجوم ایک مسجد کو نذر آتش کر دیتا ہے۔ اس دوران 22 سالہ امام مسجد محمد سعد سمیت دو مسلمانوں کو انتہائی سفاکانہ طریقے سے شہید کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح ضلع نواح میں ہندو بلوائیوں نے دو مزید مساجد کو آگ لگانے کے ساتھ ساتھ بہت سے علاقوں میں جمعہ اجتماعات پر پابندی بھی لگا دی۔ ان اندوہناک واقعات نے ہر محب اسلام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مسلم دشمنی میں ہندو کافر کس حد تک انسانیت سے گر چکے ہیں کہ اس ایک واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مانو مانیسر نامی ہندو killer اپنے ساتھیوں سمیت نہتے و بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرتے وقت باقاعدہ ویڈیو بناتے ہوئے قہقے لگاتے ہیں اور پھر ان ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں۔
پچھلے کچھ سال سے بھارت میں مسلم و اسلامو فوبیا میں انتہائی تیزی آئی ہے۔ جس کے نتیجے میں اب تک سیکڑوں بے گناہ مسلمان مرد و خواتین بچے اور بوڑھے شہید ہو چکے ہیں۔ جبکہ ہزاروں کی تعداد میں زخمی بھی ہوئے۔ مساجد، عیدگاہوں، رہائشی و تجارتی املاک کو تباہ کرنا، جلانا، گائے لے جاتے ہوئے تاجروں کا وحشیانہ طریقے سے قتل عام اور زندہ درگور کرنے سمیت عزت مآب مسلم خواتین کا ریپ روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ 8 لاکھ مسلمان بچیوں کی جبراً مشرک ہندوؤں کے ساتھ شادی کر دی گئی ہے۔ اس وقت نسل پرست بھارتی معاشرے میں مسلمان ہونا سب سے بڑا جرم بن چکا ہے۔ درحقیقت مشرک ہندو، مسلم دشمنی میں اپنا ذہنی توازن کھو چکے ہیں۔ اس ہندو دہشت گردی کے بعد ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ بھارت اپنی تاریخ کی آخری انگڑائیاں لے رہا ہے۔ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تب غزوہ بدر جیسے معرکے برپا ہوتے ہیں۔ کبھی نہ بھولنا اے مسلم ”غزوہ بدر ہی غزوہ ہند کی بنیاد ہے، جس نے غزوہ ہند کی مخالفت کی اس نے غزوہ بدر کی مخالفت کی، اور جس نے غزوہ بدر کی مخالفت کی گویا اس نے اللہ اور مجاہد اعظم محمد رسول اللہﷺ کی مخالفت کی“۔ فیصلہ اب بھارت کے مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے کہ عزت کی زندگی اور آزادی یا پھر اپنی نسلوں سمیت بدترین غلامی؟۔ جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا مدد کرنے اور فتح کی بشارت دینے کا واضح پیغام ہے (تم ان سے جنگ ”جہاد“ کرو اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا ذلیل و رسوا کرے گا تمہیں ان پر مدد دے گا اور مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا، سورۃ التوبہ)۔

تبصرے بند ہیں.