فاختہ اداس ہوگئی

44

نو اگست کو موجودہ حکومت اپنا عرصہ اقتدار پورا کرنے کے بعد رخصت ہو رہی ہے اس نے ڈیڑھ برس تک حکمرانی کے مزے لوٹے اس دوران اسے کچھ نشیب و فراز کا بھی سامنا رہا۔ وہ مہنگائی کو قابو کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر اس میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اسے قومی خزانے کے خالی ہونے کی وجہ سے خاصا پریشان ہونا پڑا کیونکہ آئی ایم ایف نے قرضہ دینے کے لیے بعض ناگوار شرائط سامنے رکھ دیں جن پر من و عن عمل درآمد کرنا مشکل تھا مگر دوسری طرف ہر گزرتے دن کے ساتھ ملکی اثاثوں میں تیزی سے کمی واقع ہوتی جا رہی تھی لہٰذا اسے (حکومت) طوعاً و کرہاً سخت ترین مطالبات کو ماننا پڑا یوں ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا مگر آئی ایم ایف کے پروگرام سے تادم تحریر ایک اضطراب جنم لے چکا ہے کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرنے پر ہر چیز کو آگ لگ گئی ہے۔ اس سے پہلے بجلی وغیرہ کی جو قیمتیں بڑھائی گئیں اس پر لوگ پہلے ہی دہائی دے رہے تھے اب مزید چیخ وپکار کر رہے ہیں مگر حیرت افسوس اور دکھ یہ ہے کہ کسی بااختیار کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی سب خاموش ہیں سب تماشا دیکھ رہے ہیں جس سے یہ واضح ہے کہ اہل اقتدار و اختیار پہلے بھی پتھر دل تھے مگر انہیں عالمی حالات کے پیش نظر تھوڑا بہت عوامی مفاد کا خیال رکھنا ہوتا تھا۔ اب جب وہ حالات ایک نئی کروٹ لے چکے ہیں تو حکمرانوں کو عوام کے مفادات سے کوئی سرو کار نہیں رہا وہ اپنی حکمرانی کے لیے پریشان اور سنجیدہ ہوں تو ہوں۔
چند روز کی مہمان حکومت ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں پر عمل پیرا رہی ہے ویسے بھی ڈیڑھ برس میں کیا کر سکتی تھی، مگر اس کے مطابق پچھلی حکومت نے معیشت تباہ کر دی تھی نظام زندگی درہم برہم ہو گیا تھا قانون کو پس پشت ڈال کر فیصلے کیے جا رہے تھے وغیرہ وغیرہ لہٰذا مختصر وقت میں اسے وہ سب ٹھیک کرنا پڑا اس وجہ سے وہ عوام کو بڑے ریلیف نہ دے سکی اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آتی ہے تو مسائل کے ”کڑاکے“ نکال دے گی لوگوں کو انصاف سستا اور آسان ملے گا تھانے پٹوارخانے اور سرکاری محکمے ”تکلے“ کی طرح سیدھے ہو جائیں گے رشوت کا نام و نشان تک نہ ہوگا۔
یہ باتیں اس کی سادگی یا پھر ہوشیاری کو ظاہر کرتی ہیں اب لوگ کیسے مان لیں کہ وہ آئے گی تو بہار بھی آجائے گی کیونکہ وہ پھر آئی ایم ایف کی ہی سنے گی اور مانے گی کیونکہ اس وقت بھی قرضے کی ضرورت ہو گی قسطیں ادا کرنا ہوں گی، مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہو گا۔ آبادی میں اضافہ ہونے سے موجودہ مسائل گھمبیر ہو گئے ہوں گے لہٰذا وہ کیسے آبشاروں اور چشموں کے نظارے پیش کر سکے گی ہاں اگر اس کے ہاتھ اس وقت کوئی الہ دین کا چراغ آگیا تو پھر یقینا ہر سمت چین کی بانسری کی سریلی آوازیں سنائی دے رہی ہوں گی۔
ہم مایوسی کی بات نہیں کرتے نہ ہی خوامخواہ کسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لہٰذا عرض ہے کہ اگر یہی حکمران چاہتے تو آئی ایم ایف کی شرائط کو من و عن تسلیم نہ کرتے ہوئے امور مملکت چلا سکتے تھے وہ قرضہ نہ بھی دیتا تو چند بڑے خاندان جو اس کے شریک سفر تھے آگے آتے اور اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیتے مگر انہیں بھی غریب عوام کا خیال نہیں آیا انہوں نے جب بھی کوئی خیال آیا تو اپنے آشیر بادیوں کا ‘ کہ جو انہیں اقتدار میں لانے میں ان کو سپورٹ کرتے ہیں لہٰذا یہی وجہ ہے کہ اب تک معاشی حالت خراب رہی ہے اور اب اس کی سانسیں اکھڑ چکی ہیں۔ لوگوں نے رونا دھونا شروع کر دیا ہے اور وہ اس نظام حکومت و حیات کو تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں مگر انہیں اذیت پہنچانے والی اشرافیہ ان کو بد دل و بدگمان ہی نہیں ہراساں بھی کر رہی ہے اور آئی ایم ایف کے چنگل میں بری طرح پھنسا رہی ہے کہ وہ روٹی ، انصاف اور روزگار کے خوف میں مبتلا رہ کر ان کے فلک بوس حسین و جمیل دلکش محلوں کی طرف نہ دیکھ سکیں لہٰذا اس وقت پورے ملک میں مایوسی کی ابھری ہوئی لہر کو صاف طور سے دیکھا جا سکتا ہے جس میں خوف بھی شامل ہو چکا ہے جو ہر لمحہ کمزور اور بے بس عوام کو اونچا سانس بھی لینے نہیں دے رہا۔
کیا کرے کوئی اور کیا نہ کرے مگر کچھ لوگوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ دیار غیر میں جابسیں بالخصوص نوجوانوں نے اور وہ اب قانونی و غیر قانونی طریقے سے یورپ و مغرب میں جانا شروع ہو گئے ہیں وہ یہ کہنے میں نہیں ہچکچاتے کہ انہیں یہاں اپنے مستقبل کے روشن ہونے کا امکان دکھائی نہیں دے رہا لہٰذا وہ بھیگی آنکھوں سے ملک چھوڑ رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا مگر ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے کبھی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا وہ ہمیشہ بڑی طاقتوں کے مرہون رہے ان کی ہی آشیر باد سے اختیارات کی مچان پر بیٹھتے اپنے عوام سے ان کا تعلق سطحی ہوتا بلکہ ان کو بیوقوف بنانے کے لیے ہوتا لہٰذا وہ چھہتر برس گزرنے پر بھی آنسو بہا رہے ہیں تکلیف اور رنج یہ ہے کہ انہیں اب رونے بھی نہیں دیا جا رہا وہ انصاف کے لیے عدالتوں کا رخ بھی نہیں کر سکتے کہ ان کے پاس پیٹ بھرنے کے لیے پیسے ختم ہوتے جا رہے ہیں وہ کیسے وکیلوں کی فیسیں ادا کریں بہرحال ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چھہتربرس کے بعد ملک ترقی کرتے ہوئے بہت آگے نکل چکا ہوتا مگر اس اشرافیہ نے اپنے مفادات کے لیے اس راستے پر چلنا ضروری نہیں سمجھا۔ اب حالات سب کے سامنے ہیں کوئی قانون اور آئین کی پروا نہیں کر رہا سیاستدان آپس میں ایک دوسرے کے بیری ہیں اقتدار کے حصول کے لیے انتہائی تکلیف دہ حکمت عملیاں اختیار کرتے ہیں اب جب چوبیس کروڑ عوام مسائل کے نوکیلے پتھروں سے گھائل ہیں اور ان کے زخموں سے مسلسل خون بہہ رہ ہے تو بھی کوئی اختیار والا ان کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ نہیں رکھ رہا۔ بس ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کے کھڈے لائن لگنے کے منتظر ہیں لہٰذا ہمیں یہ ڈر ہے کہ کہیں امن کی فاختہ اداس نہ ہو جائے۔ پھر کیا کرو گے اہل زر و اختیار ذرا سوچو! مگر تمہیں کیا ‘ تم نے تو ” اڈ پڈ “ جانا ہے تمہارے گھونسلے سر سبز وادیوں میں ”ہولارے“ لے رہے ہیں جن میں خوشبوئیں بھری ہوئی ہیں وہاں کوئی کسی کو دکھ نہیں دیتا اذیت نہیں پہنچاتا کیونکہ ہر کوئی قانون کے آگے سر جھکاتا ہے منصف کسی شخصیت کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرتا وہ انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.