کار چور سے ملاقات

67

کسی بھی پیشہ سے منسلک ماہر افراد سے ملاقات یقینا معلوماتی اور فائدہ مند ثابت ہو تی ہے۔ میرا تو چونکہ روزگار ہی ایسے کام کے ساتھ جڑا ہوا ہے کہ بھانت بھانت کے لوگوں سے ملاقات ہو ہی جاتی ہے اور نہیں تو میں کوشش کر کے اس قسم کی ملاقات کا اہتمام کر لیتا ہوں۔ چونکہ میرے گھر کے باہر ہی پولیس کا ناکہ لگتا ہے اس لیے آتے جاتے علاقہ پولیس کی کارگزاریوں کا بھی پتا چلتا رہتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ناکہ پر موجود اہلکار نے پانی مانگنے کے لیے گھنٹی بجائی اور علیک سلیک کے دوران بتایا کہ انہوں نے کار چوروں کا کوئی گینگ گرفتار کیا ہے۔ میں نے ایس ایچ او سے اجازت لے کران کار چوروں سے ایک تفصیلی ملاقات کی اورگپ شپ کے ماحول میں ان کا ایک انٹرویو کر ڈالا۔
اچھے گھروں سے تعلق رکھنے والے ان نوجوان چوروں نے بتایا کہ گاڑی لے اڑنے والے سبھی لوگ کار چور نہیں ہوتے۔ کچھ تو صرف پارٹس کے متلاشی ہوتے ہیں اور اپنے مطلوبہ پرزے نکال کر گاڑی کہیں چھور جاتے ہیں۔انہیں کار چوروں کی کیٹیگری میں سب سے نیچے کا درجہ حاصل ہے۔
کار چوروں نے بتایا کہ عام طور پر گاڑی پارک ہونے کے پانچ سے سات منٹ کے اندر چوری ہو جاتی ہے اس لیے گاڑی مالکان کو چاہیے کہ گاڑی کھڑی کرنے کے کچھ ہی دیر بعد اس کو چیک ضرورکریں ۔ اس کے علاوہ گاڑی کی پچھلی سکرین پر کوئی نا اترنے والا سٹکر لگائیں اور کسی نا کسی اضافی تالہ کا استعمال ضرور کریں۔ کیونکہ یہ وہ اقدامات ہیں جنہیں چور ناپسند کرتا ہے۔ دوسرے درجے پر آنے والے چوروں کی کیٹیگری سب سے دلچسپ ہے۔ یہ لوگ کسی ضرورت یا مجبوری میں چوریاں نہیں کرتے بلکہ ایڈونچر اور تھرل کے لیے اس قسم کے کام کرتے ہیں۔ شہر میں اس قسم کے چوروں کی تعداد کافی زیادہ ہے اور تیزی سے بڑھ بھی رہی ہے۔یہ لوگ اچھے گھروں کے چشم چراغ ہوتے ہیں لیکن ایڈونچر کی
خاطر مہنگی مہنگی گاڑیاں چوری کرتے ہیں ، شہر کی سڑکوں پر ان گاڑیوں پر مختلف قسم کی کرتب بازیوں یا واردوتوں کی پریکٹس کرتے ہیں اور پھر گاڑی چھوڑ دیتے ہیں۔ تیسری قسم کے چور وں کو اگر ضمنی چور کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ یہ لوگ بڑے بڑے گینگز کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں اور مہنگی سے مہنگی گاڑی ایک واجبی سی فکس قیمت پر استادوں کے حوالہ کر دیتے ہیں۔
اس کے بعد نمبر آتا ہے اصل پروفیشنل چوروں کا۔ اس کیٹیگری کو بھی آگے دو یا دو سے زائد حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پہلی کیٹیگری میں آنے والے جنوبی پنجاب، اندون سندھ یا بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے نواحی اضلاع سے آپریٹ کرتے ہیں اور چوری کی گاڑیاں بی گریڈ کے چوروں سے واجبی قیمت پر خرید کرنے کے بعد یا تو انہیں افغانستان بھجوا دیتے ہیں یا سیکنڈ ہینڈ فاضل پرزوں کے ڈیلر وں کو فروخت کر دیتے ہیں۔ اس طرح کروڑوں کی گاڑی کی کہانی چند لاکھ میں ختم ہو جاتی ہے۔
کار چوروں کے مہا استاد وہ لوگ ہیں جو گاڑیاں یا تو خود چوری کرتے ہیں یا چوری شدہ گاڑی کو اونے پونے داموں میں خریدتے ہیں۔ پھر جانے کیسے گاڑی کے مالک کا فون نمبر حاصل کر کے اسے فون کرتے ہیں اور گاڑی واپس کرنے کے لیے ایک معقول رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ باقاعدہ سودے بازی کر کے کوئی رقم طے کر لیتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس قسم کے فون مقامی نمبروں سے ہی آتے ہیں اور پھر پیسے بھی جاز کیش یا ایزی پیسہ کے زریعے وصول کیے جاتے ہیں۔ ان فون نمبروں کے حصول اور ان کے طریقہ استعمال کی بھی ایک طویل کہانی ہے جو کسی اور موقع پر تفصیل سے عرض کر دوں گا۔
یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ چوروں کو بطورتاوان ادا کی جانے والی رقم کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی اور یہ چور لوگ شک و شبہ کا شکار ہونے والوں سے ناراض بھی ہو جاتے ہیں اور پھر معافی صرف اسی صورت میں ملتی ہے جب لاکھ دو لاکھ مزید ادا کیے جائیں۔ بہرکیف چور حضرات سودے بازی کرنے کے بعد رقم اپنے بتائے ہوئے طریقہ کار کے مطابق وصول کرتے ہیں اور پھر ایک دو دن بعد فون کر کے بتاتے ہیں کہ آپ کی گاڑی فلاں جگہ پر موجود ہے آپ جا کر لے لیں۔ چوروں کی اسی کیٹیگری میں کچھ لوگ تھوڑے گھٹیا لیول کے بھی واقع ہوئے ہیں اور وہ گاڑی واپس کرنے کے بعد گاڑی کے کاغذات جو عموماً گاڑی کے اندر ہی ہوتے ہیں کی واپسی کے لیے مزید رقم کا مطالبہ کر دیتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل اسی قسم کی صورتحال سے دوچار ہونے والے ایک دوست نے بتایا کہ تاوان کے لیے انہیں فون کرنے والے شخص جو گفتگو سے پٹھان معلوم ہوتا تھا نے انہیں کہا کہ ، ’یار اپنے دوستوں کو بھی بتاو کہ جب گاڑی چوری ہو جائے تو فوراً مقدمہ درج کروانے نا بھاگ کھڑے ہوا کرو، بلکہ کچھ دیر فون کال کا انتظار کیا کرو۔ مقدمہ درج ہونے کے بعد ہمارے لیے مشکلات بڑھ جاتی ہیں ۔ اور اگر ہمارے لیے مشکلات بڑھیں گی تو ظاہر ہے اس کی قیمت تو آپ کو ہی ادا کرنی پڑے گی‘۔ میں ذاتی طور پر بجلی کے میڑ کی چوری کی صورت میں اسی قسم کی صورتحال بھگت چکا ہوں اس لیے مجھے معلوم ہیں کہ آپ متعلقہ پولیس ، ایف آئی اے یا دیگر کسی ادارے کو ان چوروں کے نمبر دیں یا ان کی گفتگو ٹیپ کر کے ریکاڈنگ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سپرد کریں ہوتا کچھ بھی نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم جیسے عام لوگوں کے پاس اتنی معلومات ہیں تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس تو معلومات کے انبار لگے ہوں گے لیکن صد افسوس کہ نا تو قانون بنانے والے اور نا ہی اس پر عملدرآمد کروانے والے عوام کی جان و مال کو تحفظ فراہم کرنے میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں شائد یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں وارداتیوں اور قانون شکنوں کی تعداد میں اور قانون کو ماننے والوں کی مجبوری اور بے کسی میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

تبصرے بند ہیں.