ایسے سودے بھی ہوتے ہیں

69

وہ یتیم بچہ تھا۔اس کا دادا اسے دکان پر لے کر آیا تھا۔ دکان اس کے دادا کے دوست کی تھی۔بچّے نے چپس اٹھائے اور نہ جوس کی طرف توجہ مبذول کی۔ بس بچہ ترازو سے لپٹ گیا۔ وہ دونوں قہقہہ لگا کر ہنسے۔ بچہ ترازو سے الگ ہونے کو تیار نہ تھا۔دادا کو اپنے یتیم پوتے سے بڑی محبت تھی۔ وہ ترازو ہی اٹھا لایا۔بچہ ہر وقت باٹ رکھ کر وزن برابر کرتا رہتا۔چھ برس کی عمر میں اس کے پاس کئی ترازو موجود تھے۔انہی دنوں ایک ردی فروش اخبار خریدنے آیا۔ دادا نے آکر دیکھا توبچہ خاموشی سے رو رہا تھا۔ دادا کے کان میں بولا!ترازو قائم نہیں کیا۔ سات کلو کافرق ہے۔ دادا نے اپنی نگرانی میں تلوایا تو عین سات کلو کا فرق نکلا۔حسابی کتابی بچہ بڑا ہو رہا تھا۔دن بھر منڈیوں میں پھرتا رہتا۔ نو برس کی عمر میں اس نے پہلا سودا کرایا۔جس منڈی میں قدم رکھتا ، ترازو قائم ہو جاتا۔ایک سودا طے ہو چکا تھا۔خریدار رقم لینے گاڑی تک گیا۔اتنے میں دوسرے گاہک نے بہتر پیشکش کی اور بڑی پیشکش کی۔
چراغ دین نے کہا:سودا ت±ل چکا وہ شخص ضد پہ اڑ گیا۔اس نے دو گنا، تین گنا اور آخر پانچ گنا قیمت لگائی۔چراغ دین قہقہے لگاتا رہا۔اس کی زندگی ایک ہی چیز کے گرد گھومتی تھی۔ صحیح قیمت کا تعین اور پھر سودا۔اسکی شادی کا قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک یتیم لڑکی کی گاڑی اپنے چچازاد کو فروخت کی۔ آٹو میٹک گاڑی کو مینول سمجھتا رہا۔معلوم ہوا توپیروں تلے زمین نکل گئی۔بھاگم بھاگ چچازاد کے پاس گیا۔ایک لاکھ اور دو۔اس نے انکار کر دیا۔ اپنی جیب سے ایک لاکھ روپے لے کر لڑکی کے گھر پہنچا۔زمانے بھر کی ٹھوکریں کھاتی لڑکی اسے دیکھتی رہی اور مسلسل دیکھتی رہی۔بولی :مجھ سے شادی کرو گے ؟مجھ سے شادی کرو گے کیا؟۔۔۔چراغ دین نے آنکھ اٹھا کے دیکھا اور دیکھتا رہ گیا۔نجابت ، حسب نسب اور قیامت خیز حسن۔ کہنے لگا!
جتنا حق مہر تمہارا بنتا ہے ، میں فقیر کہاں دے
سکتا ہوں۔لڑکی قہقہہ لگا کر ہنسی۔شادی ہو گئی۔ بیوی سے بہت محبت تھی۔حمل میں پیچیدگی ہوئی، زچہ بچہ دونوں جاں بحق ہو گئے۔آخری واقعہ گاڑی میں پیش آیا۔ شدید سردی کے دن ایک ننھا سا لڑکا انڈے بیچ رہا تھا۔ ان کی طرف لپکااور پھسل کر گرا۔ انڈا پچک گیا۔ بچہ رو پڑا۔گرم اور صاف انڈے کی قیمت تیس روپے تھی۔”سات روپے “اس کے غیر معمولی دماغ نے قیمت لگائی۔چراغ دین نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔پھر آنکھ اٹھا کر اس نے بچے کی طرف دیکھا۔
انتہائی خوبصورت ، گورا چٹا بچہ سردی سے کانپ رہا تھا۔ اس کے ہونٹ نیلے پڑچکے تھے۔ ”نجانے کس کا لختِ جگر ہے ؟۔“چراغ دین نے سوچا اور اسے اپنا بیٹا یاد آیا۔ چراغ دین کا ہاتھ کانپنے لگا۔ ترازو قائم کرنے کی طاقت نہ رہی۔ جیب بچے کے ہاتھ پہ خالی کردی زندگی میں پہلی بار اس نے گھاٹے کا سودا کیا تھا۔ اچانک اسے یوں محسوس ہوا کہ ریڑھ کی ہڈی تڑخ چکی ہے۔جنوری کی سردی میں وہ پسینے میں نہا گیا۔گھر پہنچا تو بستر پہ گر گیا۔بھابھی نے کھانے کا پوچھا۔ بولا!میرا آخری دم ہے۔میری چارپائی لان میں رکھ دو
کچھ دیر پہلے بارش ہوئی تھی۔ دفعتاً قوسِ قزح نمودار ہوئی۔ ایک مور اپنے رنگین پر پھیلا کر ناچنے لگا۔ادھررنگا رنگ پھول جیسے گلشن میں آگ لگا رہے تھے۔چراغ دین کے حلق سے ایک چیخ نکلی۔ زندگی میں پہلی بار رنگ اس سے باتیں کر رہے تھے۔”رنگوں کو تو تولاہی نہیں کرتا تھا “ خوف زدہ سوداگر نے سوچا۔بھورے رنگ کی ایک بلی اپنے تین رنگوں کے بلونگڑوں کو دودھ پلا رہی تھی۔”ممتا نہیں تولی “ چراغ دین چیخ اٹھا۔قدرے اندھیرا ہوا تو جگنوجلنے بجھنے لگے۔”روشنی نہیں تولی “ چراغ دین تڑپتا رہا، چیختا رہا.چراغ دین سب اشارے سمجھ رہا تھا لیکن افسوس کہ بہت دیر ہو چکی تھی۔ اس کے چچازاد نے یاد کرایا کہ اگلے دن زمینوں کا ایک کروڑوں روپے کا سودا ہے
” بھلا ٹوٹا ہوا ترازو بھی تولتا ہے۔“اس نے قہقہہ لگایا.ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا چراغ دین سے چھیڑچھاڑ کرنے لگا ”ہوا کو تولا ہی نہیں“ غم زدہ سوداگر نے سوچا۔ پانی کے چندقطرے گرے ”بارش نہیں تولی “وہ رو پڑا۔ اِدھرسورج نمودار ہوا۔ا±دھراندر کوئی تلاوت کر رہا تھا”نور علیٰ نور “ ”روشنی پہ روشنی “ غم زدہ تاجر سوچتا رہا، روتا رہا۔حقیقت نہیں تولی، مجاز تولتا رہا
صبح انجمن تاجران بیمار پرسی کو آئے۔ سب حوصلہ دلاتے رہے۔غم زدہ بیوپاری نے غم سے بلکتے ہوئے کہا :
ایک تاجرگھر سے ہیرا خریدنے نکلا تھا، کوئلہ خرید بیٹھا.ایک تاجر کہنے لگا : سودے منسوخ بھی ہو جاتے ہیں۔ اس نے قہقہہ لگایا اور یہ کہا”سودا تل چکا اور منڈی ٹھنڈی ہو گئی۔“ یہ کہتے ہوئے اس کی روح پرواز کر گئی۔اسکے چچا زاد نے خواب دیکھا۔چراغ دین حساب کیلئے کھڑا ہے، بالکل خالی ہاتھ۔ ”اور تو سبھی سے سودا کیا ، ہم سے کبھی سودا نہ کیا“ ایک گونجتی ہوئی آواز نے کہا وہ شرمندہ اور خاموش کھڑا رہا فرشتے اعمال تولنے لگے۔ چراغ دین پنجوں کے بل کھڑا ہو کر تول دیکھنے لگا۔فرشتے حیران کہ اتنی اچھی فطرت کا بندہ لیکن اس کے پاس تو خدا کی یاد ہی نہیں گناہوں والا پلڑا بہت نیچے تھا.پروردگار نے پوچھا
کیا سبھی کچھ تُل گیا؟
فرشتہ کہنے لگا:ایک عمل باقی ہے
اس نے ایک تھیلی نیکیوں میں پھینکی ترازو پہ لگا ہوا اخلاص کا بٹن جل اٹھا۔نیکیوں والا پلڑا یوں نیچے گیا ، جیسے ٹنوں وزن ڈال دیا گیا ہواورگناہوں کو اٹھا کر اس نے ترازو سے باہر پھینک دیا۔ چراغ دین بخشا گیا”یا الٰہی تھیلی میں کیا ہے؟ چراغ دین نے روتے ہوئے پوچھا ” تھیلی میں ایک ٹوٹا ہوا انڈا ہے“مہربان رب نے اسے جواب دیا۔”انڈے کا کچھ زیادہ مول نہیں ڈال دیا؟“جب وہ چراغ دین کو لے کر جا رہے تھے تو ایک فرشتے سے چراغ دین نے سوال کیا !”یہاں ایسے ہی سودے ہوتے ہیں؟”یہاں ایسے ہی سودے ہوتے ہیں۔
بس خلق خدا سے محبت ہی اصل محبت ہے۔

تبصرے بند ہیں.