"میرے رہنما، میرے ہم نوا”

48

فرید احمد پراچہ اگرچہ پی ایچ ڈی ہیں اور اُن کی نئی کتاب ”میرے رہنما، میرے ہم نوا“ پر اُن کا نام مصنف کے طور پر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ لکھا ہوا ہے لیکن میں ان کا نام فرید احمد پراچہ ہی تحریر کروں گا۔کیوں کہ میں جس فرید احمد پراچہ کو جانتا ہوں ان کا قدو قامت اور علمی مرتبہ میری نظر میں پی ایچ ڈی سے کہیں بڑھ کر ہے۔ فرید احمد پراچہ معروف معنوں میں صحافی یاادیب نہیں لیکن وہ زبان و قلم کے ایسے غازی ہیں جن کے زور ِ بیان میں ملک کے معروف صحافیوں اور ادیبوں سے زیادہ دم خم ہے۔ ان میں جرأت اظہار بھی ہے اور میں نے انہیں صرف قلم سے ہی نہیں زبان سے بھی جابرانہ حکومتوں کو للکارتے ہوئے کئی بار سنا ہے۔ ان کا انداز بیان بڑا پروقار ہوتا ہے۔تحریر ہو یا تقریر کا میدان فرید احمد پراچہ کے اظہار میں وزن، تاثیر اور بانکپن ہوتا ہے۔ان کی بات اس لیے احترام سے سنی جاتی او ر انہماک سے پڑھی جاتی ہے کہ وہ جو بھی بات لکھتے یا زبان سے بولتے ہیں اس میں استدلال کی قوت کے ساتھ ساتھ شائستگی اور وقار کا حسن بھی شامل ہوتا ہے۔فرید احمد پراچہ کی تحریروں اور تقاریر کے پر اثر ہونے کی ایک وجہ ان کا کٹر نظریاتی ہونا بھی ہے۔جب ایک شخص کی ایک نظریات کے ساتھ غیرمتزلزل وابستگی ہو تو پھربات اُس کے دل سے نکلتی ہے۔ایسی بات کا اثر بھی دگنا ہی ہوتا ہے۔فرید احمد پراچہ کی زندگی بچپن اور پھر جوانی کے عہد سے گزرتے ہوئے اب بڑھاپے تک جس نظریے کے لیے وقف ہے وہ اسلامی نظام ہے۔فرید احمد پراچہ کا یہ ایمان ہے کہ پاکستان کی قسمت و تقدیر اس ملک میں اسلامی انقلاب کے سورج کے طلوع ہونے سے ہی بدلنا ممکن ہے۔اسلام اور پاکستان کے ساتھ سچی محبت فرید احمد پراچہ کو اپنے والد گرامی مولانا گلزار احمدمظاہری سے میراث میں ملی۔ اور پھر جس شخص کو مولانا مودودی جیسے مفکر اسلام، مفسر قرآن اور مدبر سیاست دان کی بصیرت و تدبر سے راہنمائی کے بے شمار مواقع میسر رہے ہوں اُس کی صلاحیتوں میں قابل رشک حد تک نکھارپیدا ہوجانا ایک فطری بات ہے۔سید مودودی اور مولانا گلزار احمد مظاہری کے فیضان نظر ہی کا ثمر ہے کہ آج فرید احمد پراچہ ایک ممتاز و مسلمہ مصنف، بہترین مقرر اور کامیاب سیاست دان کے طور پر ہمارے سامنے ہیں۔ موضوع دینِ اسلام ہو یا قومی سیاست فرید احمد پراچہ یکساں سہولت کے ساتھ اظہار خیال کر سکتے ہیں۔پارلیمنٹ میں بھی مدلّل انداز میں موضوع کی مناسبت سے جامع تقاریر کر کے انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔فرید احمد پراچہ کی دوستیوں اور تعلقات کا حلقہ بھی بہت وسیع ہے۔ جماعت اسلامی کے جن راہنماؤں کی قیادت میں وہ خود کام کرچکے ہیں اور پھر ان کے ہم عصر اور ہم سفر راہنماؤں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ہے۔اس کے بعد جماعت اسلامی کے بیرونی حلقوں اور پھر مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نامور افراد جن جن سے بھی فرید احمد پراچہ کا تعلق اور واسطہ رہا۔سر سری تعلقات کی بات نہیں جن احباب اور راہنماؤں سے ان کا گہرا تعلق رہا۔ان سب کے بارے میں مختلف اوقات میں فرید احمد پراچہ نے اپنے تاثرات قلمبند کیے۔کسی کے حوالے سے طویل اور کسی کے بارے میں مختصر۔ اب انہوں نے ان تحریروں کو اپنی نئی کتاب ”میرے راہنما، میرے ہم نوا“ میں یکجا کر دیا ہے۔اس میں سیاست دان بھی ہیں، عالم دین بھی ہیں، مشائخ بھی ہیں، قرآن کے مفسر اور مبلغ بھی ہیں، محقق بھی ہیں، علمی اور صحافتی شخصیات بھی ہیں۔ مشاہیر بھی ہیں اور کچھ کم معروف لوگ بھی۔
جن پھولوں کو اپنا گلدستہ تیار کرنے کے لیے پراچہ صاحب نے چُنا ہے۔ان میں سے کسی کے رنگ اور کسی کی خوشبو سے آپ ضرور متاثر ہوں گے۔
رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے
”میرے رہنما، میرے ہم نوا“ میں چند ایسی شخصیات بھی ہیں۔جن کے حوالے سے مجھے ایک شعر یاد آرہا ہے۔
بہت لگتا ہے دل صحبت میں اس کی
وہ اپنی ذات سے اک انجمن ہے
سید مودودی اور نوابزادہ نصراللہ ایسی ہی بلند مرتبہ ہستیاں تھیں کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے اور ایک ادارہ بھی۔فرید احمد پراچہ کی تحریر کا حسن یہ ہے کہ جب آپ ان شخصیات کے حوالے سے ان کی لکھی ہوئی یادوں کا مطالعہ کریں گے تو آپ یہ محسوس کریں گے کہ آپ بھی ان کے ساتھ ان کی محفلوں میں موجود ہیں۔
اسلام اور پاکستان سے محبت رکھنے والے راہنما اور صحافی فرید احمد پراچہ کے دل کے بہت قریب ہیں۔اسلام اورپاکستان سے گہری وابستگی جن سیاست دانوں کی پہچان ہے ان پر اپنی محبت و عقیدت کے پھول برسانے میں فرید احمد پراچہ اپنا تما م تر زور بیان صرف کر دیتے ہیں۔
جس طرح اسلام اور پاکستان کے ساتھ محبت کے چراغ فرید احمد پراچہ کے دل و دماغ میں روشن ہیں و ہ ہر کسی کو ایسا ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ایسے صحافیوں کو بھی بہت پسند کرتے اور اپنے دل کی مسند پر بٹھانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں جنہوں نے کلمہ حق کہنے کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی اور جن کے جنوں کی شورش کو زندانوں کی سختیاں بھی نہ دبا سکیں۔
ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا
جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں
ازاُفق تابہ اُفق خوف کا سناٹاتھا
رات کی قید میں خورشید کی تنویریں تھیں
ان اشعار کے خالق شورش کا شمیری کا ذکر فرید احمد پراچہ نے بڑی عقیدت کے ساتھ کیا ہے۔ اس عقیدت کی وجہ شورش کاشمیری کا عاشق ِ رسولؐ ہونا بھی ہے۔رسول ِکریم کی حرمت و عزت کے تحفظ کی خاطر اسلام کے غدار قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے میں شورش کاشمیری کا قائدانہ اور تاریخی کردار خود شورش کاشمیری کی زندگی کا بھی روشن ترین باب ہے۔1974ء کی تحریک ختم نبوت میں فرید احمد پراچہ کا کردار بھی بڑا کلیدی تھا بلکہ وہ اس تحریک کو شروع کرنے والے ہر اول دستہ میں شامل تھے۔
آبروئے صحافت مجید نظامی بھی اپنے عشق رسولؐ اور عقیدۂ ختم نبوت پر اپنے غیر متزلزل ایمان کے باعث فرید احمد پراچہ کی محبوب ترین شخصیت تھے۔بڑے بڑے سے جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کے حوالے سے بھی مجید نظامی کی جرأ ت بے مثال تھی۔نظریہ پاکستان پر مجید نظامی یقین ہی نہیں بلکہ یقین محکم رکھتے تھے۔تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے مجید نظامی کا قلم کے ذریعے جہادمسلسل بھی ہماری صحافت ایک درخشاں باب ہے۔ان سب حوالوں سے فرید احمد پراچہ نے ایک بھرپور مضمون لکھا ہے جو اُن کی نئی کتاب میں شامل ہے۔الطاف حسن قریشی کو فرید احمد پراچہ نے اپنی کتاب میں فہم و فراست کی دہلیز پر اسلام اور پاکستان سے محبت کے چراغ روشن کرنے والے ایک مفکر اور نظریاتی جنگ لڑنے والے ایک دانشور کا خطاب دیاہے۔ مجیب الرحمن شامی کو پراچہ صاحب نے جرأت اظہار کا ایک استعارہ اور آمریت کے مدمقابل ہر طبقے کے لیے ایک نشان ِحوصلہ قرار دیا ہے۔ممتاز کالم نگار عبدالقادر حسن مرحوم کے حوالے سے فرید احمد پراچہ لکھتے ہیں کہ ”اُن کی تحریر کی سطر سطر میں نظریہ پاکستان بولتا ہے اور حرف حرف میں اسلام اور پاکستان کی خوشبو آتی ہے“
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ فرید احمد پراچہ کی محبت و عقیدت کی الگ ہی داستان ہے۔اس محبت کا بنیادی حوالہ بھی پاکستان کے ساتھ محبت ہے۔فرید احمد پراچہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پورے عالم اسلام کا محسن قرار دیتے ہیں۔ڈاکٹر خان فرید پراچہ کے مردِ مومن اور مرد مجاہد تھے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان امت مسلمہ کا اپنے دل میں درد رکھنے والی ایک عظیم شخصیت ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سید مودودی کے بعد جس ممتاز شخصیت کے حوالے سے فرید احمد پراچہ نے اپنے تاثرات محبت و عقیدت میں ڈوب کر لکھے ہیں، وہ ڈاکٹر عبدالقدیرخان ہیں۔پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا جنازہ پڑھانے کی سعادت بھی فرید احمد پراچہ کو حاصل ہوئی۔
فرید احمد پراچہ نے اپنی کتاب ”میرے رہنما، میرے ہم نوا“ میں تقریباً ایک سو پچاس شخصیات کے حوالے سے اپنی تاثراتی تحریروں کو محفوظ کر دیا ہے۔ ان میں سے 20 کے قریب ایسی ممتاز شخصیات ہیں جن پر پراچہ صاحب نے بڑی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔اس کتاب کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ غیر محسوس طور پر فرید احمد پراچہ نے پاکستان کی ملّی، دینی اور سیاسی تاریخ بھی محفوظ کر دی ہے۔جن ممتاز شخصیات کی قومی، دینی اور سیاسی جدو جہد کا تذکرہ اس کتاب میں موجود ہے۔وہ ہماری قومی زندگی کی اگر مکمل تاریخ نہیں تو اہم ابواب کی حیثیت تو ضرور رکھتا ہے۔ وہ شخصیات جو اپنی ذات میں فی الواقعہ ایک ادارہ ہیں۔ جب ان کا ذکر ہوگا تو وہ ایک پورے ادارے کی رو داد صداقت ہوگی۔یہ گزرے ہوئے پچاس ساٹھ سال کے عہد کی ایک مکمل سرگزشت جو ہمارے لیے ”میرے رہنما، میرے ہم نوا“ کے عنوان سے لکھ کر فرید احمد پراچہ نے ایک قومی فریضہ ادا کیا ہے۔ شورش کا شمیری نے کہا تھا
بہت قریب سے دیکھا ہے رہنماؤں کو
بہت قریب سے کچھ راز پائے ہیں میں نے
شکریہ فرید احمد پراچہ! کہ آپ نے ہماری نوجوان نسل کی رہنمائی کے لیے وہ معلومات، مشاہدات اور تجربات اپنی کتاب میں محفوظ کر دئیے ہیں۔ جن تک رسائی اور دسترس صرف آپ کو حاصل تھی۔کیوں کہ ان راہنماؤں، مفکروں اور صحافیوں کے ساتھ آپ کی مثالی قربت رہی۔ اور آپ نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔

تبصرے بند ہیں.