انصاف کہاں ہے!

91

دنیا بھر میں دو قسم کے بیمار پائے جاتے ہیں، ایک ظاہری بیمار اور دوسرے ذہنی بیمار…… ذہنی بیمار وہ ہوتے ہیں جو تشدد کرتے، تشدد کو پسند کرتے، اُسے ہوا دیتے، کسی کو نقصان پہنچاتے یا اُس کا نقصان ہوتا دیکھ کر خوش ہوتے۔ پھر ان کی Mentally Disturb افراد کی بھی آگے بہت سی اقسام ہوتی ہیں، مثلاً جو لوگ بچپن میں جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں، اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بڑے ہو کر اپنے سے کم تر یا عمر میں چھوٹے افراد یا ماتحت افراد سے ”بدلہ“ لیں۔ پھر ان بیمار لوگوں کا Extreme لیول یہ ہوتا ہے کہ یہ بچوں کی پورنو گرافی کو زیادہ پسند کرتے ہیں، اس کے لیے وہ ڈارک ویب کا استعمال کرتے، اور ہزاروں ڈالر بھی خرچ کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ پھر ان ذہنی بیمار افراد میں ایک قسم ایسی بھی ہوتی ہے جنہیں کسی پر تشدد کر کے تسکین ملتی ہے، وہ اپنی فرسٹریشن کسی اور پر نکال کر سکون حاصل کرتے ہیں۔ یہ افراد پاکستان سمیت دنیا بھر میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک مثال گزشتہ دنوں ایک 14،15 سال کی ملازمہ لڑکی پر تشدد کی ہے۔ جس کسی نے بھی وہ تصویر دیکھی، اگر وہ شخص نارمل ہے تو اللہ جانتا ہے کہ وہ انگشت بدنداں ہو کر رہ گیا کہ کیا کوئی ہمارے معاشرے میں ایسا بھی ہے اور وہ بھی خواتین میں اور وہ جج کی بیوی!
اس واقعہ کو دہراتی چلوں کہ یہ کہانی ہے گھریلو ملازمہ رضوانہ کی، جس کی والد ہ کو 23 جولائی کو سرگودھا سے اسلام آباد بلایا گیا وہ اسلام آباد بس سٹینڈ پر پہنچی۔ اسی دوران ایک بڑی گاڑی آئی اس میں سے رضوانہ کو نیچے پھینکا گیا، رضوانہ بُری طرح زخمی اور اس کی حالت انتہائی خراب تھی۔ اس کی ماں نے واپسی کی ٹکٹ کرائی یہ رات کو دو بجے سرگودھا پہنچے وہاں کے ہسپتال میں بچی کو داخل کرا دیا گیا۔ رضوانہ کی حالت ایسی تھی کہ اس کا علاج کسی بڑے ہسپتال میں ہی ہو سکتا تھا۔ اسے لاہور کے جنرل ہسپتال میں ریفر کیا گیا یہاں اس کے ساتھ ہونے والے ظلم کی کہانیاں آہستہ آہستہ میڈیا کے سامنے سامنے آنا شروع ہوئیں۔
رضوانہ گزشتہ کئی ماہ سے سول جج عاصم حفیظ کے گھر ملازم تھی، غربت کے مارے والدین نے 10 ہزار روپے ماہانہ پر اسے جج کے گھر پر کام پر رکھوا دیا انہیں امید تھی کہ دنیا کو انصاف دینے والا ان کی بچی کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی ناانصافی نہیں کرے گا۔ یہی ان کی سب سے بڑی بھول تھی وہ شاید یہ بھول گئے تھے کہ وہ غریب ہیں انہوں نے اپنی حیثیت سے زیادہ بڑا سوچ لیا تھا انہیں پتہ نہیں تھا کہ اس گھر میں ایک بہت بڑی ذہنی مریضہ بھی ہے جو تکبر سے بھری ہوئی ہے یہ ذہنی مریضہ سول جج کی بیوی صومیہ حفیظ تھی۔ صومیہ نے چھوٹی سی بچی رضوانہ کو بے جان چیز سمجھ کر ہر قسم کا غصہ اس پر نکالا۔ دن رات اس پر تشدد کیا، تشدد بھی ایسا کہ بے تحاشا تشدد کہا جائے اس کو تھپڑوں سے مارا۔ اس پر ڈنڈے برسائے اس کو سالن پکانے والے چمچوں سے مارا، اس کے سر، ہاتھوں، پیروں، سینے پر مارا یہاں بھی دل نہ بھرا تو کمر پر بھی اپنے ظلم کی داستان رقم کی پیٹ پر وحشت دکھائی۔ اس عورت نے اس ننھی سی بچی کے جسم کا کوئی ایک ایسا حصہ نہیں چھوڑا جہاں اپنے ظلم کا نشان رقم نہ کیا ہو۔
صومیہ نے اس بچی پر اتنا تشدد کیا کہ اس کے دونوں ہاتھ توڑ دیے اس کے گردے زخمی کر دیے اس کے پھیپھڑوں اور جگر تک کو چوٹیں پہنچائیں بچی کو بھوکا پیاسا رکھا بڑی مشکل سے ایک وقت کا کھانا دیتی، تشدد کا شکار اس ننھی بچی کے سر کے زخموں میں کیڑے پڑ گئے لیکن اس عورت کو ذرا بھی رحم نہ آیا۔ آخر کار وہ دن آ ہی گیا جب اس ظلم کا پردہ چاک ہونا تھا پھر پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ کس طرح مبینہ طور پر ایک شریف گھرانے سے تعلق رکھنے والی اس عورت کے اندر چھپا ہوا ایک وحشی درندہ سامنے آیا۔ رضوانہ کو جنرل ہسپتال لاہور منتقل کیا گیا تو وہ انتہائی خوف کا شکار تھی کوئی قریب جاتا تو اس کو دیکھتے ہی پکار اٹھتی مجھے نہ مارو مجھے نہ مارو۔ یہ بچی نہ صرف جسمانی طور پر ٹوٹ چکی تھی بلکہ ذہنی طور پر بھی شدید صدمے میں تھی۔ ڈاکٹروں نے اس کا علاج شروع کیا مسائل دیکھے تو میڈیکل بورڈ بنانا پڑا مجموعی طور پر میڈیکل بورڈ میں 13 ڈاکٹرز رضوانہ کی جان بچانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ کئی روز تک اس کو آکسیجن پر رکھا گیا اور اب اس کی حالت قدرے بہتر ہو رہی ہے۔ رضوانہ کے کیس میں دو طرح کے رویے ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں، ایک طرف ڈاکٹر ہیں جو رضوانہ کی جان بچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف اسلام آباد پولیس ہے جو جج اور اس کی بیوی کو بچانے کی کوشش میں مصروف ہے۔
پولیس والوں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا، پھر بھی ان کو کسی بھی قسم کا کوئی رحم نہ آیا۔ اسلام آباد پولیس کے اہلکار بھی بچوں کے والدین ہوں گے حیرت ہے کہ کیسے انہوں نے باریک واردات ڈالی اور واقعہ کی ایف آئی آر میں ایسی دفعات لگائیں کہ ملزمہ کو اس کا پورا پورا فائدہ پہنچایا گیا اس نے لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت لے لی، اسلام آباد پولیس نے صرف یہی نہیں کیا بلکہ انہوں نے رضوانہ کے والدین کے ساتھ بھی پورا پورا ہاتھ کیا۔ اسلام آباد پولیس کے اہلکار جنرل ہسپتال آئے رضوانہ کے ان پڑھ والدین سے دستخط کرائے۔ والدین نے جب کہا کہ ہمیں پڑھ کر سنائیں اس میں کیا لکھا ہے تو الٹا انہی پر غصہ ہونے لگے۔ اب پتہ نہیں پولیس والے کس چیز پر دستخط کرا کر لے گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کل کو کیس چلے تو یہ بات سامنے آ جائے کہ رضوانہ کے والدین تو پہلے ہی پیسوں کے عوض صلح کر چکے ہیں۔ یہ پاکستان ہے، یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یقین مانیں ابھی محرم کا مہینہ شروع ہوا ہے، ہم ”کوفہ“ والوں کے ظلم و ستم پر آنسو بہا رہے ہیں لیکن معذرت کے ساتھ ہمارے کردار بھی کوفہ والوں سے کم نہیں ہیں۔ یہ ہم ہی ہیں جو غریب کے بچوں کو ”کچرا“ سمجھتے ہیں، ورنہ جس خدا نے ہمیں پیدا کیا ہے، اُسی خدا نے ان بچوں کو بھی پیدا کیا ہے، مگر فرق صرف رہن سہن میں ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم سب نے مل کر ایسا معاشرہ تشکیل دیا ہے جہاں صرف مفاد پرستی ہے، جہاں ہر کوئی اپنے مفاد کی خاطر کسی کو بھی نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرتا۔ جہاں انصاف برائے نام رہ گیا ہے، جہاں غریب کے لیے انصاف اور ہے اور امیر کے لیے اور۔ جہاں امیر کے لیے رات 12بجے بھی عدالتیں کھل جاتی ہیں جبکہ غریب بے گناہ بیسیوں سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہتا ہے، اور اُس صومیہ جیسی جلاد خاتون کو فوری ضمانت بھی مل جاتی ہے! اور کچرا بچے یوں ہی سڑک پر پھینک دیے جاتے ہیں۔ بقول جج کی بیوی کے ”اُٹھاؤ، اپنا گند اور ساتھ لے جاؤ اسے!

تبصرے بند ہیں.