پیپلز پارٹی اور رفیق احمد شیخ کی ترقی پسندانہ سیاست

32

1940ء میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن سے اپنی سیاست کا سفر شروع کرنے والے رفیق احمد شیخ اس تنظیم کے پنجاب کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ وہ اپنے عہدے اور کام کی وجہ سے قائداعظم اور محمد علی جناح اور دیگر لیڈران کے بہت قریب بھی رہے۔ سب کی کوششوں سے پاکستان کا قیام عمل میں آگیا مگر اس کے قیام اور قائد اعظم کی پر اسرار رحلت کے بعد تحریک پاکستان کے اہم لیڈران نے مسلم لیگ سے کنارہ کشی کر لی۔ جن میں میاں افتخارالدین بھی شامل تھے۔ میاں صاحب کانگریس کے سینئر رہنما بھی رہے۔ انہوں نے ایک نئی سیاسی پارٹی پاکستان آزاد پارٹی کی بنیاد رکھی۔ جس میں میاں محمود علی قصوری، شیخ محمد رشید، رفیق احمد شیخ، سردار شوکت حیات، امیر حسین شاہ، اسماعیل ضیاء جیسے لوگ شامل ہوئے۔ یہ جماعت لبرل یا لیفٹ کی پارٹی تصور کی جاتی تھی۔ 1957ء میں یہ جماعت بھی پاکستان نیشنل پارٹی میں ضم ہوگئی۔ 1948ء میں ایک اور سیاسی جماعت آزاد پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام بھی عمل میں آیا جس کے صدر خان عبدالغفار خان اور جی۔ ایم سید سیکرٹری جنرل تھے۔ اُن کی مسلم لیگ سے علیحدگی کی وجہ بھی یہی تھی۔ 1947 میں مسلم لیگ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں حسین شہید سہروردی نے سوال اٹھایا کہ پاکستان مسلمانوں کے لیے بنا ہے۔ اپنی سیاسی تنظیم کو فرقہ وارانہ بنیاد وں پر قائم کرنا درست ہے بھی کہ نہیں۔ جی۔ ایم سید، میاں افتخارالدین، سردار شوکت حیات، امیر حسین شاہ، بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید، رفیق احمد شیخ ان میں سر فہرست تھے۔ یہ سب لیڈران مختلف الرائے تھے۔ اپنی اپنی سوچ کے قریب جماعتیں اُن کا پڑاؤ رہی ہیں۔ بالآخر اُن کی اکثریت میاں محمود علی کی قیادت میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئی۔ یہ 1969ء کا واقعہ تھا۔ دلچسپ بات ہے کہ پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے ان ساٹھ کے قریب لوگوں کو پیپلز پارٹی کی ٹکٹیں ملیں جن میں سے 40 کے قریب اسمبلیوں میں پہنچے۔ ان میں نمایاں میاں محمود علی قصوری، رفیق احمد شیخ، اسماعیل ضیاء شامل ہیں۔ 1970 کے الیکشن کے بعد شیخ مجیب الرحمن اور جنرل یحییٰ خان کے ٹولے میں اختلافات نا قابل قبول حد تک آگے پہنچ گئے۔ یحییٰ خان نے الیکشن نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی کی خواہش پر 88 سیٹوں پر دوبارہ الیکشن کرایا جس میں نہ ہونے کے برابر ووٹ پڑے۔ جماعت اسلامی کو ان 88 میں سے 54 سیٹیں تحفے کے طور پر دی گئیں۔ رفیق احمد شیخ کا ذکر کرتے کرتے میں اُن کے تاریخی پس منظر میں گم ہوگیا تھا۔ 1970 ء کے الیکشن میں رفیق احمد شیخ نے لاہورکے شہری حلقے موچی دروازہ اور گوالمنڈی سے الیکشن لڑا اور کامیاب ہو کر پنجاب اسمبلی کے سپیکر بنے۔ وہ عوامی سے بھی زیادہ عوامی لیڈر تھے۔ وہ تھڑوں پر بیٹھ کر اور ہر کسی کی خوشی و غمی میں شریک ہوتے تھے۔ اگر لاہور میں نہ بھی ہوں تو واپسی پر لازمی جاتے۔ ایک دن میں 20 شادیوں میں شرکت کی جو شاید ایک ریکارڈ ہو۔ اُن کے پاس جو پہنچ جاتا اُس کا کام کرنے کی پوری کوشش کرتے۔ اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی کام اپنی پارٹی کا کرنا چاہیے لیکن حکومت میں ا ٓنے کے بعد تمام شہری برابر ہوتے ہیں۔ 1977ء کے عام انتخابات میں رفیق احمد شیخ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے مگر غیر ملکی اور جنرل ضیاء ٹولے کی سازش کی وجہ سے پہلے بھٹو کے خلاف الیکشن لڑنے کے لیے 9 جماعتوں پر مشتمل قومی اتحاد بنایاگیا اور امیدواروں اور سیاسی گروہوں کو بھاری رقوم تقسیم کی گئیں۔ اس انتخاب میں بھٹو کی پیپلز پارٹی نے 200 میں 155 سیٹیں جیت لیں۔ جب کہ قومی اتحاد جو کہ اصل میں اس وقت کا فوجی اتحاد تھا کو 36 نشستیں حاصل ہوئیں۔ دھاندلی کے نام پر تحریک چلائی گئی جس میں عوام کے جذبات سے کھیلتے ہوئے نفاذ نظام مصطفی کے نام کا استعمال کیا جانے لگا۔
تحریک کو بھڑکایا گیا اور قومی اور نجی املاک کو آگ لگائی گئی۔ اس تحریک کے شروع ہونے سے قبل لاہور میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور رہنماؤں نے ایک اجلاس منعقد کیا اور فیصلہ کیا کہ سفید ہاتھی کے ڈالر پر چلنے والی تحریک کا مقابلہ عوام کی مدد سے کیا جائے۔ اس اجلاس میں رفیق احمد شیخ، عارف اقبال بھٹی، چوہدری نذیر، شیخ اخلاق حسین، خالد بٹ، حسن ایوب نقوی، عابد جمیل باجوہ، شفیق پانوں والا، ناظم حسین شاہ، آغا امیر حسین (موچی دروازہ)، شیخ فیاض الرحمن، مرتضیٰ جعفری، غلام صادق بٹ اور بہت سے لوگ شریک ہوئے تھے۔ یاد رہے عام انتخابات کے بعد بھٹو شہید نے محسوس کرلیا تھا کہ عالمی طاقتیں اُن کا تختہ اُن کی پالیسیوں کے باعث الٹنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے پیپلز کے وفادار ترین لوگوں کو آگے لانے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں رفیق احمد شیخ کو فوری طور پر وزیر قانون بنایا اور ساتھ ہی لاہور پی پی پی کا صدر نامزد کر دیا۔ بھٹو نے ایک ماہ میں دیکھ لیا کہ رفیق احمد شیخ پارٹی سے وفاداری نبھانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ اُن کو پنجاب پیپلز پارٹی کا صدر نامزد کر دیا۔ 9 اپریل کو پہیہ جام ہڑتال کی کال دی گئی رفیق احمد شیخ نے اس موقع پر فروٹ اور سبزی منڈی، انارکلی بازار اور چیمبر لین روڈ کی مارکیٹیں کھلوادیں جس پر مظاہرین نے دکانداروں اور آڑھتیوں پر شدید تشدد کیا اس موقع پر کئی ہلاکتیں ہوئیں۔ رفیق احمد شیخ، عارف اقبال بھٹی، ناظم حسین شاہ، جہانگیر بدر، رانا شوکت محمود، منصور ملک کے گھروں اور گاڑیوں پر حملے کیے گئے۔ اس دوران بھٹو شہید کی حکومت اور قومی اتحاد کے درمیان مذاکرات بھی شروع ہوئے جسے جنرل ضیاء کے پس پردہ ہاتھوں نے ناکام بنانے کی کوشش کی۔ بھٹو نے مذاکرات نے میز پر اپوزیشن کو دوبارہ انتخابات میں جانے کی پیشکش کر دی۔ یوں جنرل ضیاء، اختر عبدالرحمن، فیض علی چشتی ٹولہ 5 جولائی 1977 کو عوامی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہوگیا۔ذوالفقار علی بھٹو نے بیگم نصرت بھٹو کو ہدایت کی کہ کچھ بھی ہو جائے رفیق احمد شیخ پر مکمل اعتماد کرنا۔ اور وہ 14 جولائی 2007 ء زندگی کے آخری دن تک بھٹو کی پارٹی سے وفا نبھاتے رہے۔ وہ ضیاء آمریت کے گیارہ سال میں تقریباً چھ سال قید رہے۔ وہ جب بھی رہا ہوتے پارٹی کو منظم اور متحرک کرتے۔ اسی لیے بھٹو کے قتل کے چند ماہ بعد ضیاء ٹولے نے عوامی رائے عامہ کو جاننے کے لیے بلدیاتی انتخابات کرائے۔ صدر پنجاب پیپلز پارٹی نے کارکنوں سے اس طرح کا مضبوط رابطہ رکھا ہوا تھا کہ اٹک سے صادق آباد تک (اس وقت تنظیمی طور پر پورے صوبے میں پارٹی کا ایک ہی ڈھانچہ تھاجو کہ اب سنٹرل پنجاب اور جنوبی پنجاب ہوگیا ہے) عوام دوست کے نام پر امیدواروں نے جماعت اسلامی سمیت مارشل لاء کے حامیوں کے عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔ صرف لاہور میں ہی 100 براہِ راست نشستوں پر انتخاب میں عوام دوست 84 کے قریب کامیاب ہوئے۔ جن میں ڈاکٹر ضیاء اللہ بنگش، اسلم گل، ضیاء بخت بٹ، چوہدری صلاح الدین، غلام صادق بٹ، چوہدری یونس، یعقوب شاکر، چوہدری بشیر احمد چونا شامل تھے۔ میاں شجاع الرحمن کو دھونس دھاندلی اور بندوقوں کی نالی کے زور پر 24 ووٹ دلا کر لاہور کا میئر بنا دیا۔ سیاسی طور پر بے انتہا بہادر ہونے کے باوجود وہ نجی زندگی میں بہت سادگی اختیار کرتے تھے۔ ہاتھ میں پلاسٹک کی ٹوکری پکڑ کر سودا خریدنے صفانوالہ چوک اور دوسری جانب پرانی انارکلی پیدل جاتے، راستے میں سیکڑوں احباب سے ملاقات کرتے، کہیں کسی کھوکھے پر بیٹھ کر چائے بھی پیتے، اُن کی سبز رنگ کی مزدہ گاڑی LEO-20 جو 1974 ماڈل بہت مشہور تھی۔ مجھے اُس کو ہزاروں دفعہ دھکا لگانے کا شرف حاصل ہے۔ پارٹی کے دیگر خوشحال لیڈر جان کی پروا نہیں کرتے تھے مگر اپنی مہنگی گاڑی کو مارشل لاء کے خلاف سرگرمیوں سے دور رکھتے تھے۔ مارشل لاء کے دوران پیپلز پارٹی کے چار بڑے ڈیرے لاہور میں تھے۔ شیخ رفیق احمد کا گھر، رانا شوکت محمود کا گھر بڑا اور وسائل ہونے کے باعث کارکنوں کے قیام کا بھی بندوبست تھا۔ عارف اقبال حسین بھٹی شہید اور پیر سید ناظم حسین شاہ کا پرانی انارکلی کا ڈیرہ، مزنگ کی کنک منڈی میں باؤ شفیق پانوں والے کی دکان پر بھٹو کی قد آدم تصویر کوئی بھی مائی کا لال اتروانے میں ناکام رہا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آج پارٹی لیڈر بھی اپنے گھروں اور کاروباری مراکز پر پارٹی کا جھنڈا لگانے سے شرماتے کیوں ہیں؟ مجھے یہ فخر بھی حاصل ہے کہ 1978ء میں پیپلز پارٹی کا پنجاب آفس جین مندر میں ہوتا تھا۔ مارشل لاء حکام نے جب وہ خالی کرایا تو کچھ سامان میں فرخ مرغوب صدیقی، عتیق شیخ، توثیق شیخ وہاں سے اٹھا کر لائے۔ اُس وقت میری عمر 14 سال کے قریب تھی۔ یہ بات میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ رفیق احمد شیخ کی پیپلز پارٹی کی پنجاب کی صدارت کے دوران 1978 ء سے 1985ء تک بہت سے سیاسی کام اور آفس کی سرگرمیاں میں ہی کرتا تھا۔ اور 1985ء سے 1988ء تک اُن کے سنٹرل انفارمیشن سیکرٹریٹ کی مکمل مدد میں شامل تھا۔ پھر دسمبر 1988ء سے 1997 تک سیکرٹری جنرل کے آفس کا تمام تر سیاسی اور انتظامی کام میرے ذمہ تھا۔ مگر کبھی کسی سے کسی طرح بھی ایک روپیہ تنخواہ دور کی بات تحفے تحائف کو کبھی قریب سے نہیں گزرنے دیتا کہ کل کو کوئی مجھے کانا کرنے میں کامیاب ہو۔ لاہور میں تو کوئی مسئلہ نہیں تھا، اسلام آباد آنا جانا ہوتا تو بھائیوں سے کرایہ مانگ کر جاتا۔ 1988ء میں رفیق احمد شیخ کے سیکرٹری جنرل بننے پر میری ذمہ داریوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ شیخ صاحب کی تیار کردہ قراردادیں، منٹس آف میٹنگ، ایجنڈا اور 1988ء اور 1993ء میں دوران حکومت پارٹی پالیسیوں پر حکومتی اداروں کی کارکردگی پر عمل درآمد کی رپورٹ حاصل کر کے اُسے بھی کاغذات پر منتقل کرنا میری ذمہ داری تھی۔ کوئی ایک ایک لفظ بھی کسی شخص کو پتہ نہ لگنے دینے والا اعتماد صرف مجھ میں تھا۔ رفیق احمد شیخ کوضیاء حکومت کی طرف سے دو مرتبہ اعلیٰ عہدے کی پیشکش ہوئی انہوں نے اس موقع پر اور بعد میں مجھے کہا کہ کسی کو ایسی جرأت کیسے ہوگئی کہ مجھ سے ایسی بات کرے۔ اُن کے گھر میں دسترخوان لگنے کا کوئی رواج نہ تھا۔ کیونکہ وہ اکثر جیلوں میں ہوتے، اُن کی بیگم ہسپتال میں، اُن کے دونوں بیٹوں میں سے کوئی نہ کوئی جیل اور شاہی قلعہ میں ہوتا۔ بیٹی نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ڈاکٹر حمیرہ نے KE سے میڈیکل کیا۔ سرٹیفیکیٹ لینے کے موقع پر بھرے مجمع میں کہہ دیا کہ مارشل لاء کے نامزد گورنر کے قریب جانا بھی پسند نہیں کرتی۔ میں چند ماہ قبل اسلام آباد میں 85 ایمبیسی روڈ والے پارٹی آفس میں کوئی چوبیس سال بعد گیاتو خوشگوار حیرت ہوئی کہ پانچ کمروں والا اور ایک استقبالیہ والا آفس بیسمنٹ سمیت کئی منزلوں پر مشتمل ہے۔ گراؤنڈ فلور پر کئی بڑے بڑے کمرے بنے ہوئے ہیں۔ وہاں بہت سے لوگ موجود تھے جن میں سے کسی کو پہچاننے میں کامیاب نہ ہوا۔ سیکرٹری جنرل نیر بخاری صاحب کے بارے میں معلوم کیا تو پتہ لگا کہ وہ آج تشریف نہیں لائے۔ تلاش کرتا ہوا آفس سیکرٹری کے پاس پہنچا، سلام دعا کے بعد اُس سے پوچھا کہ نیر بخاری صاحب سے پہلے پارٹی کے سیکرٹری جنرل کون تھے تو اُس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ اُس سے پوچھا کہ پارٹی کے چیئرمین کون ہیں؟ جواب ملا آصف زرداری۔ میں نے اسلام آباد میں رفیق احمد شیخ کی نگرانی میں جس آفس کی ہما پلازہ میلوڈی مارکیٹ میں بنیاد رکھی جو 1993 میں ایمبیسی روڈ پر منتقل ہوا۔ اُسے بھی رفیق احمد شیخ کی ہدایت پر منظم اور ترتیب دے کر چلایا۔ کسی فیلڈ میں پیشہ ور ماہر ہونا غنیمت ہوتا ہے۔ مگر سیاست پیشہ نہیں عبادت ہے، یہی میں نے رفیق احمد شیخ سے سیکھا۔
آج رفیق احمد شیخ کی سولہویں برسی ہے۔ امید ہے پارٹی ایسے عہدیداروں کا انتخاب کرے گی۔

تبصرے بند ہیں.