بجٹ پر اعتراضات

50

اصل موضوع سے پہلے ایک قرض ہے جو فوری ادا کر دینا فرض تھا لیکن اسے کوتاہی کہہ لیں کہ ادا نہ کر سکے۔ 9مئی سے چند دن پہلے زمان پارک میں ایک بچہ سے تقریر کرائی گئی اور پھر اسے سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا۔ اس بچے سے جو کہلوایا گیا اس کا سب کو علم ہے کہ جس میں اس نے کہا کہ نبی پاک ﷺ کے والدین خوش قسمت تھے اور اس کے بعد مہاتما کے والدین خوش قسمت ہیں۔ اس وڈیو کی علمائے اکرام اور جس جس کو توفیق ہوئی اس نے نہ صرف یہ کہ مذمت کی بلکہ اسے توہین رسالت ﷺ بھی قرار دیا جو کہ سو فیصد درست تھا اس لئے کہ کیا خاتون جنت سیدۃالنساء جناب فاطمہ ؑ کے والدین دنیا کے افضل ترین والدین میں سے نہیں ہیں جناب حسنین کریمین ؑ کے والدین کیا دنیا کے بہترین والدین نہیں ہیں۔ ان عظیم ہستیوں کا تو مقام ہی بڑا بلند ہے کہاں وہ اور کہاں ہم ایسے گناہ گار بندے کہ ان عظیم ہستیوں کے پاؤں کی جوتیوں کی خاک کا سرمہ بنا کر اگر ہماری آنکھوں میں لگ جائے تو بڑی بات ہے تو کہاں وہ اور کہاں آج کے دنیا دار بندے اور پھر وہ بندہ کہ جس میں پانچوں شرعی عیب ہوں ان کا ان ہستیوں سے کیا تقابل اور میرے آقاﷺ کے ساتھ تو اہل بیت ؑ اور صحابہ ؓ کا تقابل نہیں ہو سکتا تو کسی دوسرے کا تقابل کرنا اور پھر گستاخانہ انداز میں ما سوائے کفر کے اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہوئی تھی کہ کیا آپ دعا کر سکتے ہیں کہ آپ کا بیٹا اور بیٹی بلاول اور مریم جیسے ہوں تو جہاں جہاں مجھے یہ پوسٹ ملی میں نے ریپلائی کیا کہ بالکل میں تو دعا کر سکتا ہوں کہ میرا بیٹا اور بیٹی بلاول اور مریم جیسے ہوں لیکن کیا آپ دعا کر سکتے ہیں کہ آپ کا بیٹا ایسا ہو کہ جو تین تین شادیاں کرے لیکن اپنی مرضی سے اور ماں کی تو چلو وفات ہو چکی تھی لیکن باپ کو پوچھے نہ بہنوں کو پتا چلے بلکہ شادی میں شریک بھی نہ کرے اور جس کی ساری زندگی پلے بوائے کی گذری ہو اور ٹیریان ایسی بیٹی کا باپ ہو۔ اس جواب کے بعد پھر چراغوں میں روشنی نہیں رہتی تھی خدائے بزرگ و برتر کی ذات ہمیں اس گستاخی پر کہ جو کی گئی اس پر تاخیر سے لکھنے پر اپنے حبیب ﷺ کے صدقے معاف فرمائے اور ہماری موت ایمان پر کرے آمین۔
اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ جس قسم کی معاشی صورت حال ہے اس میں اگر کسی کو یہ توقع تھی کہ بجٹ میں غریب عوام کے لئے دودھ اور شہد کی نہریں بہائی جائیں گی تو ایسا تو اس وقت بھی نہیں ہوا کہ جب افغان جنگ کی وجہ سے ملک میں بوریاں بھر بھر کر ڈالر آ رہے تھی تو اب جبکہ ریاست ایک ایک ڈالر کو ترس رہی ہے تو ایسے میں سادہ پانی کی نہریں ہی سلامتی کے ساتھ بہتی رہیں تو بڑی بات ہے لیکن اس کے باوجود کہ ریاست کو جس مشکل معاشی صورت حال کا سامنا ہے اس بجٹ میں کوئی بہت زیادہ نئے ٹیکس نہیں لگائے گئے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور حکومت کی بہتر حکمت عملی سے اس بار بد ترین سیلاب کے باوجود بھی گندم کی بمپر فصل ہوئی ہے اور کاٹن کی فصل کہ جس پر پاکستان کی بر آمد کا بہت زیادہ انحصار ہے اس سال قوی امید ہے کہ اس کی بھی ریکارڈ پیداوار ہو گی۔ زراعت کے حوالے سے ہی ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ حکومت نے بیج، کھاد، زرعی آلات اور زراعت سے منسلک تمام اشیاء پر ہر قسم کے ٹیکس ختم کر دیئے ہیں۔ پاکستان دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ دس ممالک کی صف میں شامل ہے اور ہر سال ہماری ساحلی پٹی کو ایک آدھ سمندری طوفان کا جزوی یا مکمل سامنا کرنا پڑتا ہے اور اب بھی بپرجوئے طوفان کا سامنا ہے۔ ہم سب کو دعا کرنی چاہئے کہ خدائے بزرگ و برتر کی ذات ہم سب کو اس کے اثرات سے محفوظ و مامون رکھے آمین۔ عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ایک تو معاشی صورت حال اور دوسرا قدرتی آفات کا سامنا تو اس میں جس قسم کا بجٹ ہونا چاہئے تھا کم و بیش ویسا ہی ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ یقینا خوش آئند ہے لیکن پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمت کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اس شدید مہنگائی کے دور میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں لیکن چلیے اونٹ کے منہ میں زیرہ ہی سہی لیکن حکومت نے یوٹیلٹی اسٹور پر گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں 80سے لے کر 110روپے فی کلو/لیٹر کمی کی ہے اور اسی طرح آٹے اور دال کی قیمتوں میں بھی کمی کی ہے۔ اسی طرح سولر پینل اور اس سے متعلقہ تمام اشیاء پر ہر قسم کے درآمدی ڈیوٹی اور ٹیکسز کا خاتمہ کر دیا گیا۔
معاشی حوالے سے انھی تحریروں میں روس سے تیل کی درآمد کاذکر کیا گیا تھا اور اب روس سے تیل کی پہلی کھیپ کراچی پہنچ چکی ہے۔ اس حوالے سے اب تک جو تفصیل سامنے آئی ہے اس کے مطابق روس سے کل ضروریات کا 30%تیل درآمد کیا جائے گا اور اس کی ادائیگی چینی کرنسی یو آن میں کی جائے گی اور تیل کی قیمت کم ہے اور وزیر توانائی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ روسی تیل کی تسلسل کے ساتھ آمد کے بعد یقینا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہو گی۔ تیل کے علاوہ ترکمانستان اور آزر بائیجان سے گیس کے کنٹینر لے کر جہاز پاکستان پہنچ رہے ہیں اور یہ بھی سستے داموں ہیں۔ اس میں ایک بات بڑی اہم ہے کہ سردیوں میں ہمیشہ گیس کی قلت پیدا ہو جاتی ہے اور گرمیوں میں بھی گیس کی صنعتوں کو ان کی ضروریات کے مطابق فراہمی نہیں کی جا سکتی اب حکومت یورپین ممالک سے اس بات پر معاہدے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ ملک میں بڑے بڑے گیس سٹوریج بنائیں تاکہ ضرورت سے زیادہ جو گیس ہو اسے ان سٹورز میں رکھا جاسکے اور بوقت ضرورت وہاں سے ملک بھر میں گیس کی فراہمی بلا تعطل جاری رہ سکے۔ یہ سب کوئی مستقبل کے منصوبے نہیں ہیں بلکہ یہ سب شروع ہو چکا ہے لیکن افسوس کہ پوائنٹ سکورنگ کی منفی سیاست ملک میں رواداری کے کلچر کو پنپنے ہی نہیں دیتی۔ موجودہ بجٹ اچھا ہے یا برا ہم اپنی رائے نہیں دیتے لیکن ا س میں حکومت مخالف جماعتوں کو جو سب سے بڑی برائی نظر آئی ہے وہ یہ کہ حکومت نے اس میں اعداد و شمار غلط دیئے ہیں۔ ہم کوئی ماہر معاشیات تو نہیں ہیں لیکن ہمیں اتنا علم ضرور ہے کہ گذشتہ ایک سال سے تحریک انصاف کی پوری قیادت ہر روز پاکستان کو خدا نخواستہ دیوالیہ کرنے پر تلی بیٹھی ہے اور صرف بیانات کی حد تک نہیں بلکہ عملی طور پر بھی کوشش کی گئی کہ سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے کسی طرح ملک دیوالیہ ہو جائے لیکن دوسری جانب اسحق ڈار مسلسل کہتے رہے کہ ملک دیوالیہ نہیں ہو گا اور حکومت نے گذشتہ ایک سال کے دوران 12ارب ڈالر کی ادائیگیاں بر وقت کی ہیں تو اس میں جھوٹا کون اور سچا کون ثابت ہوا یہ سب کے سامنے ہے اور اب بھی میرے خدا نے چاہا تو ملک و قوم کے بد خوا جھوٹے ہی ثابت ہوں گے اور امید ہے کہ ملک معاشی گرداب سے نکل کر ترقی کی راہ پر چل نکلے گا۔

تبصرے بند ہیں.