بچوں کے عالمی دن کے حوالے سے یہ ایک سنجیدہ کالم ہے جس میں وجوہات کے ساتھ حل کی بات بھی کی جارہی ہے،اس سال چائلڈ لیبر کے خلاف عالمی دن پر اقوام متحدہ کی توجہ سماجی انصاف پر مرکوز ہے اور عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ چائلڈ لیبراور سماجی انصاف کے درمیان ربط کو مربوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سب کو یکساں انصاف مل سکے۔ جن مسائل کو ہماری قومی و مذہب، سیاست،میڈیا، مسجد مدرسہ اور تعلیمی اداروں میں موضوع بحث ہونا چاہیے ان پر ہم بات کرتے ہوئے شرماتے ہیں یا ہماری ترجیحات میں یہ موضوع شامل ہی نہیں ہیں ماسوائے سول سوسائٹی کی تنظیموں یا افراد کے علاوہ مین سٹریم سیاسی ایلیٹ اور میڈیا میں اس طرح کے موضوع جگہ ہی نہیں پاتے۔ ویسے ایک سوال سیاسی و مذہبی اشرافیہ سے پوچھا جانا چاہیے کہ کیا اس عوام کے ادنی حقوق کی فراہمی کے لئے بھی آپ کے ذہنوں میں کوئی منصوبہ ہے؟ مسائل کے بڑھتے ہوئے انبار سے تو لگتا ہے کہ ایسی سوچنا بھی یہ لوگ گناہ سمجھتے ہیں۔آئے روز سڑکیں،چوک بلاک کرنے والے عوام کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنتے ہیں سیاست کے نام پر فساد فی الارض پھیلایا جارہا ہے۔ ایسے حالات میں ان موضوعات پر کون سوچے گا جن پر ہم جیسے اکثر و بیشتر لکھتے رہتے ہیں۔ تکریم آدمیت دنیا بھر کے منشور کا پہلا تقاضا قرار پاتا ہے جبکہ اسلامی تعلیمات کی تو بنیاد ہی احترام انسانیت پر ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں صبح و شام اسی انسان کے حقوق پاوں تلے روندھے جاتے اور جگہ جگہ تذلیل کے مظاہرے نظر آتے ہیں یہاں کوئی بھی ہو جس کے پاس ذرا سا بھی اختیار ہے وہ کسی نہ کسی روپ میں چھوٹا فرعون بنا نظر آتا ہے۔
اس ملک کی اکثریتی آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے اور جو غربت کی لکیر سے اوپر ہے اس کا حال بھی کچھ اچھا نہیں انسان اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے اور کنبے کی راحتوں کے لئے ”غلامی“ کرنے پر مجبور ہو چکا ہے جس کے مظاہرے ہمیں گھروں،بھٹوں اور ورکشاپوں پر کام کرتے ہوئے انسان نماؤں کودیکھنے سے ہوتا ہے۔کسی شادی بیاہ کی تقریب ہو، ہوٹلنگ یا شاپنگ مالدار فیملیوں کے ساتھ ان کے گھریلو ملازم چھوٹی عمر کے لڑکے اور لڑکیاں ضرور ہوتے ہیں ان کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ”میم اینڈ صاحب“کو بچوں کے اٹھانے کی مشقت نہ اٹھانا پڑے اور وہ اطمینان سے رومانوی ماحول میں کھانا کھا سکیں، شاپنگ کر سکیں اور تقریبات
میں گپ شپ کر سکیں اس سارے وقت میں یہ ”غلام“ ان کے ساتھ مگر تھوڑا فاصلہ رکھ کر ساتھ ہی رہتے ہیں۔ میم اور صاحب کو کھانا کھاتے،شاپنگ کرتے حسرت بھری نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں۔ ان کے نصیب میں ہوٹلوں اورگھروں کا بچا ہوا کھانا اور اترن ہی ہوتی ہے۔اگر توہین انسانیت کی کوئی بدترین شکل ہو سکتی ہے تو بچہ غلامی کی شکل میں ہمارے معاشرے کے کھاتے پیتے متمول اور درمیانے طبقوں کے گھروں میں بچے اور بچیوں کوکام کرتے دیکھیں۔ ان بچوں کی زندگی کی خوشی غمی سکھ اور آرام ان کے ”مالکان“ کے مرضی پر منحصر ہوتا ہے ”بچہ غلامی“ کی وہ شکل تو اور بھی زیادہ ہولناک ہے جس میں بچہ یا بچی مالکان کے گھر میں ہی سکونت بھی رکھتے ہوں ایسے بچے چوبیس گھنٹے کے غلام ہوتے ہیں جن کی انسانی حیثیت کا تعین بھی ان کے مالکان کا مرہون منت ہوتا ہے۔ بچہ غلاموں کی صبح راحت لے کر آتی ہے اور نہ رات کوخوش کن خواب ان کی آنکھوں میں اترتے ہیں عجیب بے بسی حسرت کی تصویر بنے یہ بچہ غلام اپنی ساری عمر ایک ہی گھر میں گزار دیتے ہیں۔
جس طرح ہم دیگر برائیوں میں خودکفیل ہیں بچہ غلامی“ میں بھی ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔ گھریلو غلامی کے خلاف بات کرنے والوں کے اپنے گھروں میں ”بچے غلامی“ کی شکل میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔۔ حقوق نام کی کوئی شے سے ان کا واسطہ نہیں ہوتا۔۔!بچوں کے حقوق کے لے کام کرنے والی تنظیموں میں کیا اتنی اخلا قی جرأت ہے کہ وہ ہر گھر بچہ غلامی فری کی کمپین چلائیں۔میں خود بچوں اور خواتین کے حقوق کے لئے کام کرتا ہوں اس لئے سب سے پہلے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں اس گھر سے کچھ نہیں کھاؤں پیوں گا جس گھر میں ”بچہ“ غلام ہو گا۔
پاکستان حاصل کرنے کا ایک بڑا اور واضح مقصد دوسروں کی غلامی سے نجات اور معاشی استحکام تھا۔ ایک ایسا ملک جس میں بسنے والا کوئی بھی فرد بھوکا اور بے گھر نہ رہے ساری جد و جہد اسی آرزو کی تکمیل کے لئے تھی، آج 75 برس بعد بھی نہ ہی یہاں سے بھوک ختم ہو سکی اور نہ اپنے گھر بار چھوڑ کر آنے والوں کی اکثریت کو گھر نصیب ہوئے۔جبکہ غلامی کی بدترین شکلیں معاشرے میں موجود ہیں، گھریلو بچہ غلامی، فیکٹریوں میں غلامی،اینٹوں کے بھٹوں پر بدترین غلامی، اور اس طرح کی اطلاعات بھی ہیں کہ لاہور کی بڑی تجارتی مارکیٹوں میں ”لیزنگ غلامی“ بھی موجود ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان غلامی کی بدترین شکل والے ممالک کی فہرست میں 167 نمبر پر ہے اور 30لاکھ سے زائد لوگ جبری غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں سب سے زیادہ غلام اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرتے ہیں۔ توہین انساینت کی اس بد ترین صورت حال پر ملک کی تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں خاموش رہ کر ”اشرافی جمہور“ کی خدمت کر رہی ہیں۔۔۔
کہا جاتا ہے کہ انسانی تاریخ میں وہ دن سب سے زیادہ منحوس تھا جب کسی غلام نے اپنے آقا کو اتنا کما کر لا دیا جو اس سے زیادہ تھا جتنا اس کا آقا اس کی مزدوری دیتا تھا۔اس عمل سے ایک انسان دوسرے انسان کے لیے آمدنی کا ذریعہ بن گیا،یہیں سے نظام سر مایہ داری کی ابتدا ہوئی۔وہ صنعتی دور نہیں تھاکہ غلاموں کے مالک ان سے کچھ چیزیں بنوا کر اپنے لیے آمدنی حاصل کرتے،وہ زرعی معیشت کا دور تھا اس لیے وہ اپنے غلاموں سے زمین ہی کاشت کرا سکتے تھے۔اس مقصد کے لیے طاقت ور لوگوں نے زمین پر لکیریں کھینچ کر ”میری زمین اور تیری زمین“ کا انسانیت کش تصور وضع کیا اس تصور سے ”خدا کی زمین“ خدا کے بندوں کے لیے عام نہ رہی،انسانوں کی ملکیت بن گئی۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مزدوروں کی تعداد تقریباً 6 کروڑ 30 لاکھ سے زائد ہے اور ان میں سے بیشتر دیہی علاقوں میں کام کاج کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گھریلو ملازمین سے متعلق قانون سازی میں ایک بڑی رکاوٹ ملک میں جاگیردارانہ نظام بھی ہے جس میں دو وقت کھانے کے عوض پورے خاندان سے کام لیا جاتا ہے۔پاکستان میں گھریلو ملازمین کے مسائل میں طویل اوقاتِ کار، بدسلوکی، جنسی تشدد، اجرت کی عدم ادائیگی اور کم عمر بچوں سے زبردستی کام کرانا جیسے مسائل ہیں۔پاکستان میں گھریلو ملازمین کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں طویل اوقات کار، ملازمت کا عدم تحفظ، کم عمر بچوں سے جبراً مشقت لینا اور ان کے ساتھ زیاتیوں کے واقعات، جو عام طور پر تو رپورٹ نہیں ہوتے شامل ہیں۔ بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے، سول سوسائٹی نیٹ ورک چائلڈ رائٹ مومنٹ(سی آر ایم) کے فوکل پرسن نذیر احمد غازی اور دیگر نمائندے یہ سمجھتے ہیں کہ محنت مزوری کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ان وجوہات کو ختم کیا جائے جو بچوں سے مشقت کرانے کا سبب بنتی ہیں، جن میں سرفہرست غربت، وسائل کی کمی اور کسی خاندان میں رونما ہونے والے وہ اسباب ہیں جو بچوں کو چائلڈ لیبر کی جانب دھکیل دیتے ہیں تاکہ وہ خاندان کا پیٹ پالنے میں اپنا حصہ ڈال سکے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.