آج کے گوئبلز

110

”ایک بار بولا جھوٹ جھوٹ ہی رہتا ہے لیکن بار بار یا ایک ہزار بار بولا ہوا جھوٹ سچ بن جاتا ہے“۔ یہ قول ہے ہٹلر کے وزیر برائے پراپیگنڈا جوزف گوئبلز کا۔ اس کے ان حوالوں سے درجنوں اقوال ہیں مگر آج کی دنیا میں ہزار والی بات تو بہت پیچھے رہ گئی سوشل میڈیا اور ٹویٹر کا دور ہے ایک ہی بار کروڑوں سے ضرب کھا جاتی ہے۔ گویا آج کی دنیا میں ایک بار بولا گیا یا لکھا گیا جھوٹ پہلے لمحے ہی کروڑوں اربوں انسانوں تک سرحدوں کی پروا کیے بغیر پہنچ جاتا ہے۔ بھارت کا مودی بھی اس کی مثال ہے لیکن وطن عزیز میں تو ایک سیاسی لبادے میں شخص عمران نیازی نے صرف خود پر بھروسہ نہیں کیا ساتھ ہزاروں لاکھوں لوگ ملا لیے جو ایک جھوٹا ٹویٹ کرتے ہیں جس کو حواری ری ٹویٹ کرتے ہیں یا پوسٹ۔ تجزیہ کار اور ”دانشور“ جن کے اب کوئی کالم پڑھتا نہ تجزیے سنتا تھا اس ٹویٹ اور بیانیے کو دہراتے ہیں کہ ان کی ریٹنگ بڑھے اور یوٹیوب، فیس بک، ٹویٹر پر، ٹی وی چینلز پر ان کی اجرت کے ساتھ ساتھ ”شہرت“ کو فائدہ ہو لہٰذا وطن عزیز میں روانی، فراوانی اور بے شرمی کے ساتھ جھوٹ بولا گیا۔ اگر جوزف گوئبلز آج زندہ ہوتا تو ان کے پاؤں پڑ جاتا۔ منافقت کا یہ عالم ہے کہ قرون اولیٰ کے منافق بھی ان کی بیعت کر لیتے۔ کئی میڈیا پرسنز جن کو وقت نے امانت کر کے دفنا دیا تھا آج کے گوئبلز بنے بیٹھے ہیں۔ یہ خواہش کو خبر بنانے کا دور ہے، یہ اپنی مرضی کو قانون اور آئین کا درجہ حتیٰ کہ فتویٰ دینے کا دور ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر آج کے گوئبلز اور خود ستائشیے پوری ڈھٹائی کے ساتھ عقل کل بنے بیٹھے ہیں۔ ایک نے لکھا کہ اگر طاقت کی حکومت ہوئی تو فوج کرے گی اگر ووٹ کی تو عمران کرے گا۔ یہ صاحب میاں نواز شریف کے لیے بھی راگ الاپتے رہے۔ ایک نام نہاد دانشور کہتا ہے،پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ پاکستانی شخص یعنی عمران کو باہر کی دنیا میں زیر بحث لایا گیا، اس پیرا شوٹر کو علم نہیں وہ تاریخ سے کھلواڑ کر رہا تھا، تاریخ مسخ کرنا علمائے دین ہوں یا مورخ آج کل ان کا روزگار اور شیوہ ہے۔ مگر یہ تو ایک میڈیا پرسن ہے بس۔ مجھے یاد ہے 1986 میں، میں امریکہ میں تھا۔ میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ وکیل جس کو مسٹر جو کہتے تھے، کہا کہ میرا تعلیمی سیشن پورا ہونے کو ہے اب مجھے جاب نہ ملی تو ویزہ میں تبدیلی یا پھر سیاسی پناہ لے دیں۔ اس نے کہا، سیاسی پناہ کس بات پر؟ میں نے بتایا کہ میں ایم آر ڈی کا کنوینئر ہوں اور پیپلز پارٹی کارکن، ینگ لائرز کا صدر ہوں۔ کراچی میں طیارہ اغوا کیس ہو چکا تھا۔ اس کو جب پتہ چلا کہ میں بھی وکیل ہوں، خوش ہوا۔ اس نے کہا کہ ضیا کی حکومت Puppet ہے، امریکہ کی کٹھ پتلی ہے یہ آپ کو ضیا حکومت کے خلاف سیاسی پناہ نہیں دیں گے اور ساتھ ہی اس نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ مسٹر بھٹو کی بیٹی بہت مقبول ہے۔ ضیا پاکستان میں نا پسندیدہ ترین شخصیت ہے اور مزید کہا کہ مسٹر بھٹو جانتے تھے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے ساتھ یورپین، امریکن لابیز کا ذکر کر کے کہ ہماری کونسی نس دبانے سے تکلیف کی نوعیت کیا ہے اور خون کی سپلائی کس حصے کی معطل ہو گی۔ قارئین وہ یہودی تھا۔ گریٹ بھٹو سولی چڑھے، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہوئیں، نواز شریف دو مرتبہ قید رہے جلاوطن ہوئے، رسول بخش پلیجو کئی سال قید رہے مگر ریاست کے خلاف بات کی نہ اقدام کیا۔ آج قیام پاکستان 1992 کو سمجھنے والے، 2018 کو انقلاب سمجھنے والے، 9/10 اپریل کی رات بادشاہت ختم ہونے والے سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہوا ہے پہلی بار عمران نیازی کے وقت میں ہوا ہے۔ عمران نیازی جعلی ایبسولوٹلی ناٹ کہنے والا بریڈ شرمین، جان بولٹن سے رابطے کر کے جھوٹ سنا رہا ہے کہ سابقہ آرمی چیف نے میری حکومت گرائی حالانکہ وہ نیم دلی سے غیر جانبدار ہوئے تھے ورنہ چودھری پرویز الٰہی پی ٹی آئی جوائن نہ کرتے۔ نیازی صاحب اگر بات کی ہی تھی تو پورا سچ سناتے کہ سابقہ آرمی چیف نے مجھے سلیکٹ کیا تھا، دھونس دھاندلی کر کے مسلط کیا تھا، غیر جانبدار ہونے پر عدم اعتماد سے نااہل ہوا ہوں۔ کاش اس نے رسول بخش پلیجو، جاوید ہاشمی، آصف زرداری، ایم آر ڈی، پیپلز پارٹی کے لوگوں، ورکروں، منہاج برنا، عباس اطہر، آفتاب عالم، جناب پرویز صالح کی قیدیں، جیلیں، کوڑے تو دور کی بات اپنے ہی دور میں پونے چار سال میاں نواز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، شہباز شریف اور پورے خاندان، صدر زرداری خاندان، خورشید شاہ، شرجیل میمن، خاقان عباسی، خواجہ برادران گویا پوری کی پوری اپوزیشن کے ساتھ ناروا سلوک، جعلی اور جھوٹے مقدمے بھی بنائے ہوئے یرغمال شدہ چیئرمین نیب کے ہاتھوں سیاسی مخالفین کے ساتھ دشمنوں سے بدتر سلوک اس کو بھول گیا؟ اس کو عدالتیں بھی گڈ ٹو سی یو، مخالفین اچھے نہ بھی لگیں تو بات کر لیں، ہمیں ڈر ہے آپ کو ہماری کسٹڈی میں کچھ ہو نہ جائے، کہتی ہیں۔ عدالت پہنچنے کے باوجود دو دو گھنٹے ہائی کورٹ کے جج رات نو بجے تک انتظار کرتے ہیں کیا یہ مظلوم ہے۔ دراصل جنگوں میں عام انسان مرے ہیں اور عدالتوں نے ہمیشہ عظیم انسان مارے ہیں۔ رضا رومی اپنے پروگرام میں سوال کرتے ہیں کہ جواب ان کی مرضی کا آئے۔ اگلے روز سوال کرتے ہیں یہ جو پکڑ دھکڑ ہے لگتا ہے مارشل لا کا سا ماحول ہے۔ اس پر وہ کیا جواب دے گا۔ اگر سوال کرتا کہ یہ جو عسکری اداروں، ان کی رہائش گاہوں، ٹاورز پر حملہ ہوا ہے لگتا ہے دشمن ملک نے حملہ کر دیا ہے تو یقینا جواب مختلف آتا۔ یاد رکھیں فوج ضروری ہوتی ہے اگر اپنے ملک کی نہیں تو پھر دشمن یا دوسرے ملک کی فوج، لہٰذا بطور ادارہ فوج قابل قدر اور فخر ادارہ ہے۔ فوجی عدالتوں اور فوجی ایکٹ کے تحت آئین کی شقوں کو حرکت میں ہرگز نہ لایا جاتا۔ اگر اعلیٰ عدلیہ باقاعدہ ایک فریق کے طور پر سامنے نہ آتی دراصل یہ عدلیہ کی جانب داری کا ردعمل ہے اور ویسے بھی ہر جرم کی نوعیت مختلف ہوا کرتی ہے۔ اب ارطغرل مائنس ہونے کو تیار ہے بغیر پیشکش کے باہر جانے سے انکاری ہے کہ پیشکش کی جائے، جس کے در و دیوار میں اربوں روپے چنے گئے ہوں اس کو باہر کی دولت کی کیا پروا اور ویسے بھی کون جانتا ہے کرپشن کے یہ کیسز کہاں تک ہیں؟
پہلے نہتی پولیس پر پٹرول بم پھینکے گئے جب حد سے گزر گئے معلوم ہوا کہ ردعمل اور قانون حرکت میں آئے گا تو کہاں امریکہ کو جعلی انٹرویو میں ایبسولوٹلی ناٹ کہنے والا کمشنر لاہور سے مذاکرات کو غنیمت جاننے لگا۔ اس نے لکھاریوں، اینکرز اور اداروں میں گوئبلز بھرتی کیے اور کر رکھے ہیں مگر یاد رہے کہ اسی جوزف گوئبلز نے کہا تھا ”ایک دن آئے گا جب سارے جھوٹ اپنے ہی وزن سے گر جائیں گے اور سچ کی دوبارہ فتح ہو گی“۔ لہٰذا عمران نیازی اور اس گوئبلز کے جھوٹ اپنے ہی وزن سے گر پڑے ہیں، سچ کی فتح کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ میرا ایمان ہے کہ روضہ رسولؐ پر بے حرمتی اور بد زبانی کے بعد عمران نیازی کا زوال شروع ہو چکا ہے۔

تبصرے بند ہیں.