اگلے روز اچانک ٹی وی پر یہ ٹیکرز چلنے شروع ہوگئے ”پی ٹی آئی کے صدر چودھری پرویز الٰہی کے گھر ان کی گرفتاری کے لئے پولیس نے چھاپہ مارا ہے، مجھے بہت حیرت ہوئی پولیس اپنے ہی گھر میں چھاپہ کیسے مار سکتی ہے ؟ پولیس اور چودھری خاندان کا چولی دامن کا ساتھ ہے، بیشمار پولیس افسران اور ملازمین چودھریوں کی حکومت میں ان کے ساتھ کام کرنے کو اپنے لئے بڑا ”اعزاز“ سمجھتے ہیں، لاہور کے ایک سابق ایس پی ہیڈ کواٹر نے مجھے ایک واقعہ سنایا تھا، کہنے لگے”ایک بار مجھے لاہور کے ایک اعلیٰ فوجی افسر کا فون آیا، وہ فرمانے لگے “ آپ کے ماتحت ایک کانسٹیبل ہے، اس کے تبادلے کا کوئی مسئلہ ہے، اپنے سٹاف سے کہیں اس سے پوچھ لے وہ کہاں جانا چاہتا ہے ؟، سفارشی تبادلوں کے لئے میں عموماًاپنے ماتحت متعلقہ افسر سے کہہ دیتا ہوں، مگر اس کانسٹیبل کی سفارش چونکہ بہت تگڑی تھی میں نے سوچا اسے اپنے پاس بلا کر پوچھتا ہوں کہ”باس جی حکم کریں آپ نے کہاں جانا ہے ؟“، وہ کانسٹیبل آیا میں نے اٹھ کر اسے جپھی ڈالی، اسے کرسی پر بیٹھایا، اس کے لئے ”کافی“ منگوائی، میرے اس حسن سلوک پر وہ بھی میرے ساتھ بہت بے تکلف ہوگیا، کہنے لگا”سر جی کافی دے نال پیٹیز تے بسکٹ وی منگواؤ“، میں نے اس کے اس”حکم“ کی فوری تعمیل کی، میں نے سوچا اس سے پہلے کہ وہ مجھ سے کہے ”سر جی تسی میری کرسی تے بیٹھو میں تہاڈی کرسی تے بیٹھنا ایں“، میں نے فوراًاس سے پوچھا ”حکم کرو کتھے تبادلہ کروانا جے؟“، وہ کہنے لگا “سر جی مجھے سابق وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے گھر سکیورٹی سٹاف میں بھیج دیں“، میرے کان کھڑے ہوگئے، ہم پولیس والوں کو جتنے”سیاپے“ ہوتے ہیں ہمارے صرف کان ہی کھڑے ہوتے ہیں، دو چار پولیس ملازمین اس سے پہلے بھی چودھری پرویز الٰہی کے گھر تبادلے کی سفارشیں کروا چکے تھے، میں نے اپنے ”لائن افسر“ کو فوری طور پر اس کے تبادلے کے آرڈر دے کر اس سے پوچھا ” چودھری پرویز الٰہی کے گھر تبادلے کی یہ کوئی پانچویں سفارش مجھے آئی ہے، وہاں کون سی ایسی کھیر بٹتی ہے ہر کوئی وہاں جانا چاہتا ہے ؟“، لائن افسر نے اس کی تفصیل مجھے یہ بتائی کہ ایک تو ان کے گھر سے پولیس ملازمین کو عزت بہت ملتی ہے، تین وقت کا کھانا بھی ملتا ہے اور وہی کھانا ملتا ہے جو چودھری صاحب کے اپنے گھر کے لئے بنتا ہے، دن میں دو تین بار چائے بھی ملتی ہے، اگر گرمی ہو مختلف مشروبات کا سلسلہ بھی سارا دن چلتا رہتا ہے، سب سے اہم بات یہ ہے ایک تنخواہ پولیس ملازمین اپنے محکمے سے لیتے ہیں ایک اضافی تنخواہ انہیں چودھری صاحب پلے سے دیتے ہیں، اس کے علاوہ ان کی ڈیوٹی کے اوقات بھی مقرر ہوتے ہیں، اپنی ڈیوٹی ختم کر کے وہ کہیں بھی آ جا سکتے ہیں، یہ ایسی ”سہولیات“ ہیں جن کی وجہ سے بے شمار پولیس ملازمین اپنا تبادلہ چودھری صاحب کے گھر کے سکیورٹی سٹاف میں کروانا چاہتے ہیں“۔۔ گزشتہ ہفتے ٹی وی پر چودھری صاحب کے گھر پر چھاپے کی فوٹیج دیکھ کر میں حیران ہو رہا تھا پولیس ملازمین اپنے ”محسن و محبوب“ کے گھر پر اندھا دھند دھاوا کیسے بول سکتے ہیں ؟ میں نے سوچا ممکن ہے اس ضمن میں انہوں نے چودھری صاحب سے باقاعدہ اجازت لی ہو یا وہ ان سے پوچھ کر آئے ہوں، ہمارا ایک”قومی اخبار“ تھا، اس اخبار کے تقریباً خاتمے پر مجھے بڑا دکھ ہے، ایک زمانے میں یہ واحد”نظریاتی اخبار“ تھا جس کے ساتھ میں بھی برسوں وابستہ رہا، اس اخبار کی پیشانی پر لکھا ہوتا تھا”جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا جہاد ہے“، ایک بار شاید چودھری شجاعت نے اس کے مالک سے کہا تھا ” آپ نے اپنے اخبار کی پیشانی پر لکھا ہوا ہے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا جہاد ہے، ساتھ بریکٹ میں یہ بھی لکھ دیں (جابر سلطان سے پوچھ کر )۔۔ ایسے ہی میں اب یہ سوچ رہا تھا پولیس افسران و اینٹی کرپشن عرف آنٹی کرپشن نے چودھری صاحب کے گھر ”مشترکہ کارروائی“ کہیں چودھری صاحب سے پوچھ کر ہی نہ کی ہو، میرے اس وہم وسوسے یا خدشے کو تقویت اس وقت ملی جب پتہ چلا پولیس و اینٹی کرپشن نے چودھری صاحب کے گھر کا صرف گیٹ وغیرہ توڑنے پر ہی اکتفا کیا ہے، چودھری صاحب کو گرفتار نہیں کیا جاسکا، یہ تاثر اس وقت مزید مضبوط ہوگیا جب اسی گھر سے ملحقہ ایک گھر میں رہائش پذیر چودھری پرویز الٰہی کے بھانجے چودھری شجاعت حسین کے بیٹے اور شہباز شریف کے وفاقی وزیر چودھری سالک حسین نے فرمایا ”پولیس نے چودھری پرویز الٰہی کے بجائے ہمارے گھر پر دھاوا بول دیا“، نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے بھی اس کی تصدیق کی اور اس کی انکوائری کا حکم دیا، ملک کے”داخلی امور“ میں وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کا کتنا عمل دخل ہے ؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں وہ فرماتے ہیں”چودھری پرویز الٰہی کے گھر چھاپے کی خبر انہیں ٹی وی سے پتہ چلی“۔۔ اللہ جانے اس ملک کا نظام کون سے جن بھوت یا چھلاوے چلاتے ہیں ؟ جو کسی کو دکھائی ہی نہیں دیتے، البتہ معلوم سب کو ہوتا ہے، ان جنوں بھوتوں اور چھلاوں کی ”بہادری و دلیری“ کا عالم یہ ہے وہ سارے وار چھپ چھپ کے کرتے ہیں، پاکستان کی تاریخ ان کے اس ”وصف“ سے بھری پڑی ہے کہ ان کے دانت دیکھانے کے اور کھانے کے اور ہوتے ہیں، ممکن ہے بظاہر جو کاروائی انہوں نے پرویز الٰہی کے خلاف کی اس کا اصل مقصد ان کی سیاسی مقبولیت میں اضافہ کرنا یا اسے بحال کرنا ہو، اپنے ہی بندے کے خلاف کوئی اس حد تک کیسے جاسکتا ہے کہ اسے گرفتار کر کے اذیت پہنچائی جائے ؟۔۔ بدقسمتی سے اس ملک میں ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے جس میں بڑے بڑے سیاسی مجرمان کو جب ان کے بڑے بڑے جرائم پر گرفتار کیا جاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا انہیں واقعی ان کے جرائم پر گرفتار کیا گیا ہے یا ان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی کی جا رہی ہے ؟ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے ہمارے ہاں بڑے بڑے سیاسی راہنما اپنے جرائم کی وجہ سے گرفتار ہو بھی جائیں ”نظریہ ضرورت“ کے تحت وہ نہ صرف رہا ہوجاتے ہیں بڑے بڑے حکومتی عہدوں سے بھی انہیں نواز اور شہباز دیا جاتا ہے، حتی کہ صدر پاکستان کے عہدے تک بھی کوئی پہنچ جاتا ہے، جو خود پھانسی کے قابل ہو اسے بطور صدر پاکستان دوسروں کی پھانسی کی سزا معاف کرنے کا اختیار مل جاتا ہے، چودھری پرویز الٰہی کو واقعی گرفتار کرنا ہوتا ان کے ”اصل مالکان“ کے لئے یہ کوئی مشکل کام تھا ؟ مقصد شاید صرف ایک ایسا ہنگامہ کھڑا کرنا تھا، یا ایک ایسا ماحول بنانا تھا جس کا مستقبل میں کوئی سیاسی فائدہ پرویز الٰہی کو ہو سکے، خصوصاًپی ٹی آئی کے اندر ان کے کچھ مخالفین کی زبانیں بند کروائی جا سکیں، جو یہ کہتے ہیں پی ٹی آئی کے لئے چودھری پرویز الٰہی کی قربانیاں کیا ہیں ؟ اب چودھری پرویز الٰہی کی ایک”بڑی قربانی“ یہ ہوگئی ان کے گھر چھاپہ پڑ گیا، دوسری”بڑی قربانی“ یہ ہوگئی پولیس نے ان کے گھر کا گیٹ توڑ دیا، کچھ اسی قسم کی ”قربانیاں“ خان صاحب خود بھی اپنی پارٹی کے لئے دے چکے ہیں،بس خان صاحب کو ایک خیال رکھنا چاہئے، کہیں اسی طرح کی”قربانیوں“ میں پرویز الٰہی ان سے اتنا آگے نہ نکل جائیں کہ متوقع طور پر خان صاحب کے”مائنس“ ہونے کی صورت میں پارٹی کی سربراہی پرویز الٰہی کے حصے میں آجائے، بس یہی لمحات ہوں گے جب اس راز سے پردہ اٹھ جائے گا پرویز الٰہی کو پی ٹی آئی میں کیوں شامل کروایا گیا تھا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.