پاکستان میں مزدور طبقے کی پریشانیاں

71

یومِ مئی مزدوروں کا وہ عالمی دن ہے، جس سے مزدور اور محنت کش طبقے پر ہونے والے مظالم اور ان مظالم کے خلاف محنت کشوں کی جدو جہد کے تاریخ میں درج واقعات ذہنوں میں تازہ ہو جاتے ہیں۔ یکم مئی ۱۸۸۶ءدنیا بھر کے محنت کشوں کی سرمایہ داروں کی غلامی سے انکار کی مزاحمتی داستان ہے، یہ سرمایہ دارانہ اور سامراجی استحصال، ظلم و جبر اور محنت پر دولت کی بالادستی کے خلاف جدوجہد کا وہ عہد ساز اور لازوال دن ہے، جسے عصرِ حاضر کے مزدور آج بھی روایتی جوش اور جذبے سے مناتے ہیں۔
مزدور کی محنت کا معاوضہ بنیاد ہے ایک خوشحال معاشرے کی۔ اس معاوضے کو طے کرتے وقت ہمارے یہاں نہایت خِصت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے حالانکہ محنت کا جائز معاوضہ نہ دینا، استحصال، حق مارنا، پورا حق ادا نہ کرنا اور ظلم کرنا یہ وہ اعمال ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ان بڑی برائیوں میں شمار کیا ہے جن کا اس کے ہاں غیر معمولی مواخذہ ہو گا۔ پاکستان کے چاروں صوبوں اور مرکز میں کم از کم اجرت بورڈ (Minimum Wages Board) موجود ہیں۔ جن کے قیام کا مقصد غیر ہنر مند مزدور کی کم از کم اجرت کا تعین کرنا اور اس امر کو کو یقینی بنانا ہے کہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری، غربت اور معاشی بدحالی کے باعث مزدوروں کی محنت کا استحصال نہ ہو۔ لیکن افسوس کہ دوسرے اداروں کی طرح یہ بھی اپنا موثر کردار ادا کرنے سے معذور ہے۔ پاکستان ورکرز کنفیڈریشن نے جی ایس پی پلس اور پاکستان میں معیاراتِ محنت پر عمل درآمد کے چیلنجز برائے ۲۰۱۵ءکے حوالے سے ایک جامع رپورٹ مرتب کی ہے جس میں ایک کنبے کے کم از کم ماہانہ اخراجات چالیس ہزار پانچ سو روپے بتائے گئے ہیں۔ لیکن آج بھی ملک کے چھوٹے شہر تو ایک طرف وفاقی دارالحکومت میں ایسے ادارے موجود ہیں جہاں کام کے اوقات بارہ بارہ گھنٹے ہیں اور اجرت پندرہ سے سترہ ہزار روپے ماہانہ ہے۔ یورپ کم از کم اجرت کے معیار سے نکل کر معقول اجرت (Living Wages) کے معیار تک پہنچ چکا ہے اور ہم اب تک کم از کم اجرت اور اوقات کار ہی طے نہیں کر پائے ہیں۔
پاکستان ورکرز کنفیڈریشن نے جی ایس پی پلس اور پاکستان میں معیاراتِ محنت پر عمل درآمد کے چیلنجز برائے ۲۰۱۵ءکی رپورٹ میں پاکستان میں مزدور طبقے کے مسائل کو نہایت جامع اور سائنٹیفک انداز میں پیش کیا ہے جس میں سے فقط چند مسائل کو آگے چل کر بیان کیا گیا ہے۔ پاکستان کے تقریباً ہر شہر کے صنعتی علاقوں میں بے شمار چھوٹے غیر رجسٹرڈ یونٹس کام کر رہے ہیں۔ جن کے مالکان اپنے اداروں کو رجسٹرڈ کرانے سے اجتناب کرتے ہیں۔ ان یونٹس میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد ۵ سے لے کر ۵۰ تک ہوتی ہے۔ جن سے ملازمت کی شرائط، اجرت اور اوقات کار زبانی بنیادوں پر طے کیے جاتے ہیں۔ ایسے اداروں کے مزدور سوشل سکیورٹی، ای او بی آئی، حادثے کی صورت میں موت، معذوری یا زخمی ہونے کی صورت میں علاج معالجے کی سہولیات سے محروم ہیں۔
مستقل نوعیت کی پیداوار کرنے اور منافع کمانے والے اداروں میں عارضی اور کنٹریٹ لیبر کا دور دورہ ہے۔ یہ نظام سرکاری، نیم سرکاری اداروں، کارپوریشنز حتیٰ کہ کالج یونیورسٹیوں میں بھی رائج ہے۔ روزانہ اجرت اور ٹھیکیداری نظام جو 1986 کے بعد سے بتدریج فروغ پاتا آ رہا ہے۔ اس نظام میں جن اداروں کو کام کے لیے مزدوروں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اس مقصد کے لیے قائم کردہ اداروں کو آگاہ کر تے ہیں، جو ایک طے شدہ کمیشن پر مزدور فراہم کر دیتے ہیں۔ ان سے کام لینے والا ادارہ ان کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا بلکہ ان کے تمام معاملات کا ذمہ دار انھیں فراہم کرنے والا ادارہ ہوتا ہے۔ ایسے ملازمین کو تقرر نامہ دیا جاتا ہے نہ ہی ای او بی آئی یا سوشل سکیورٹی کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔
پاکستان میں ایک غیر روایتی ذریعہ روزگار بھی ہے، ان میں گلی گلی آواز لگا کر سبزی، غبارے، چوڑیاں ، اچار، چادریںاور کھیس، قلفیاں فروخت کرنے والے، گھروں میں رنگ و روغن اور فرنیچر ٹھیک کرنے والے اور ایسے بے شمار شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں جو ملک کی معیشت میں اور روزگار کے مسائل حل کرنے میں تو کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن ان سہولتوں سے محروم ہوتے ہیں جو روایتی شعبہ جات میں کام کرنے والوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ یہ ہمارے ملک کا وہ طبقہ ہے جس کا سارا دار و مدار اس کی اپنی ہمت اور محنت پر ہے۔ اگر اسے کسی بیماری یا حادثے کا سامنا ہو تو اس کے پاس کو ئی راستہ نہیں ہے۔ 2013-14 کے لیبر سروے کے مطابق پاکستان میں محنت کش افراد کی تعداد تقریباً 60.1 ملین ہے جو کل آبادی کا 33 فیصد ہے۔ آبادی کے اس ایک بڑے حصے کو جن مسائل کا سامنا ہے اس حوالے سے ہماری سیاسی و مذہبی جماعتیں کے منشور توخوبصورت اور دلفریب الفاظ سے مزین ہیں لیکن عملاً کوئی قابلِ ذکر اقدام اس حوالے سے نہیں اٹھائے گئے ہیں۔
پاکستان کے عوام کے سماجی و معاشی مسائل کا تقاضا ہے کہ جاگیر داری، سرداری اور سرمایہ داری کے تسلط کو توڑا جائے۔ ملک کے مزدوروں اور محنت کشوں کے دن بھی تب بدلیںگے، جب ملک میں موجود بدترین طبقاتی کشمکش ختم ہو گی۔ جب پاکستان کے ہر کونے میں اہلِ وطن کو زندگی کی بنیادی سہولیات میسر ہو گی۔ جب غریب الوطن پاکستانیوں کو محنت کا معقول معاوضہ ملے گا ۔ جب تجارتی و صنعتی اداروں میں ٹریڈ یونین کی آزادی ہو گی، جب صحت اور تعلیم کے شعبوں کا بجٹ مناسب ہو گا، جب امن و امان کی صورتحال کنٹرول میں ہو گی، جب بے گھر لوگوں، کسانوں، ہاریوں کو زمینیں دی جائیں گی، جب زرعی اصلاحات کی جائیں گی۔ جب دیہی اور شہری آبادی کی تفریق ختم ہو گی۔ تب بدلے کا حقیقی طور پر جناح، اقبال اور عوام کا پاکستان۔

تبصرے بند ہیں.