آرمی چیف کا شاندار خطاب اور دروازہ توڑ حکومت

23

دروازہ توڑ ماہرین کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اکثر اوقات ان کے ہاتھ صرف بدنامی ہی آتی ہے ملزم ہاتھ نہیں آتا۔ ہمارے کچھ دانشور اکثر فرماتے ہیں کہ پاکستان میں حکومت تبدیل ہو یا جلسے جلوس نکلیں یا کوئی لیڈر مارا جائے میرے جیسے لوگ جھٹ امریکہ کو درمیان میں لے آتے ہیں۔ اب میں بھی کیا کروں کہ دروازہ توڑ حکومت کے پچھلے دور حکومت میں 14 دسمبر 2017 کو وائس آف امریکہ نے ایک خبر دی جو اس وقت تو نہیں لیکن آج بہت دلچسپ لگ رہی ہے۔ خبر دیکھئے: ”پاکستان کے وزیرِ مملکت برائے داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ امریکہ کی طرف سے فراہم کردہ جدید آلات کی فراہمی سے دہشت گردی سمیت ملک کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پولیس کی کارکردگی میں بہتر آئے گی۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ بطور شراکت دار کام کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ خطے میں امن اور استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ سکیورٹی کے معاملات کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں خصوصاً تعلیم کے شعبے میں وسیع اور جامع شراکت داری کا خواہاں ہے۔ واضح رہے کہ امریکی حکومت کی طرف سے بدھ کو پاکستانی پولیس کو دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خلاف لڑنے کے لیے 11 بکتر بند گاڑیاں فراہم کی گئی تھیں“۔
امریکی ریسرچ انسٹی ٹیوٹس اور تھنک ٹینکس ہم سے زیادہ ہمیں جانتے ہیں۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہیں یہ گمان نہیں ہو گا کہ ہماری پولیس یہ بکتر بند گاڑی دہشت گردوں کی سرکوبی کے علاوہ اپنے شہریوں یا سیاستدانوں کے گھروں کے دروازے توڑنے کے لیے بھی استعمال کر سکتی ہے۔ ہماری موجودہ حکومت تو ویسے بھی اپنے مخالف سیاستدانوں کو دہشت گرد ہی سمجھتی ہے کیوں کہ عمران خان سمیت جانے کتنے لوگوں پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج کیے گئے پرچوں کی داستانیں زبان زد عام ہیں۔ اگرچہ ہماری وفاقی اور پنجاب کی صوبائی دونوں حکومتوں نے چودھری پرویز الٰہی کے گھر پولیس کے دھاوا بولنے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چھاپوں سے لے کر مجمع نقص امن کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج تک کے لیے پولیس رولز میں حالات اور اتھارٹی یا مجاز افسر سے اجازت لینے کے قواعد و ضوابط درج ہیں تو بکتر بند گاڑی کے استعمال کی اجازت کم از کم لائن افسر یا ایس ایچ او تو نہیں دے سکتا۔ اب جب کہ اعلیٰ حکمران اس ریڈ کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کر رہے ہیں تو کیا ان کا اپنا یہ فرض نہیں بنتا کہ کم از کم اتنا ہی پتہ کرا لیں کہ بکتربند گاڑی کو استعمال میں لانے کی اجازت کس نے دی۔ غیر مصدقہ ذرائع تو یہ بھی بتا رہے ہیں کہ چودھری پرویز الٰہی کے گھر چھاپے کے احکامات زرداری صاحب نے دیے۔ اب اگر یہ زرداری صاحب پر الزام ہے تو پھر اس لاقانونیت کا پتہ لگانا اور زیادہ ضروری ہے تاکہ بے قصور لوگوں پر بے بنیاد الزام نہ لگتے رہیں۔ ویسے اگر یہ واقعہ عمران خان کے دور میں ہوا ہوتا تو اب تک امریکہ کے انسانی حقوق والے ادارے پاکستان کے پیچھے پڑ چکے ہوتے کہ ہم نے آپ کو بکتر بند گاڑیاں دہشت گردوں سے مقابلہ کرنے کے لیے دی تھیں اپنے شہریوں کے گھروں کے دروازے توڑنے کے لیے نہیں۔ چودھری پرویز الٰہی کے گھر پر دھاوا بولنے کا وقت بھی بہت سارے شکوک و شبہات پیدا کر رہا ہے کیونکہ ادھر مذاکرات شروع تھے اور ادھر کام ڈال دیا گیا۔ ایک اور پہلو بھی مدنظر رکھا جانا بہت ضروری ہے کہ پاکستان آرمی چیف کا دورہ چین کے بعد کیا جانے والا خطاب بہت اہمیت کا حامل ہے جس میں انہوں نے پاکستان کو درپیش داخلی و بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کے عہد کو واشگاف طور پر دہرایا۔ دنیا کے معاشی نقشے سے پھسلتا ہوا امریکہ کبھی مر کے بھی نہیں چاہتا کہ پاکستان چین دوستی مضبوط سے مضبوط تر ہو جبکہ چین چاہتا ہے کہ پاکستان میں ایک پُرامن سیاسی و اقتصادی ماحول پیدا ہو تاکہ پاکستان خطے میں بڑھتے ہوئے معاشی گراف کا حصہ بن سکے۔ ایسے میں لگتا یہی ہے کہ ایسے واقعات بنا کر ایک تو اسٹیبلشمنٹ پر شک ڈالنے اور فوج و عوام کے درمیان فاصلے بڑھانے کا کام لیا جا رہا ہے اور دوسرا مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس میں کسی کو ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ پاکستان کو پچھلے ایک سال سے چاروں اطراف سے اس بُری طرح گھیرے میں لے لیا گیا کہ بچ نکلنا مشکل نظر آ رہا ہے۔ ایک طرف بیچاری مظلوم ریاست اور بے کس مجبور عوام اور دوسری طرف طاقتور آہنی شکنجے دیکھیں جیت کس کی ہوتی ہے، پاکستان کی یا دروازہ توڑ طاقتوں کی۔

تبصرے بند ہیں.