لڑائی بڑھ گئی، ریفرنسوں کی گونج

36

سیاسی بحران، عدم استحکام ہر گزرتے دن کے ساتھ شدید ترین ہوتا جا رہا ہے۔ اداروں میں لڑائی بڑھ گئی، حالات اس حد تک بوائلنگ پوائنٹ پر پہنچ گئے کہ بڑوں بڑوں کے آنسو نکل پڑے۔ بقول سیف الدین سیف ”ہم کو تو تلخی حالات پر رونا آیا، رونے والے تجھے کس بات پر رونا آیا“ بیرونی صورتحال پر کسی نہ کسی طور قابو پایا جاسکتا ہے مگر اندر کی لڑائی کا کیا کیا جائے۔ اداروں میں تقسیم الارمنگ صورت اختیار کر رہی ہے۔ سیاسی اداروں میں ہائپر ایکٹو ازم شروع ہوگیا۔ خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں۔ ریڈ الرٹ، ایمرجنسی کا نفاذ، ذرائع خطرات، خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ مستقبل کا منظر نامہ سامنے آگیا ہے جس سے واضح ہو رہا ہے کہ کہانی ختم نہیں ہوئی شروع ہوئی ہے۔ افتخار عارف نے کہا تھا۔ ”کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے، یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا“ ایک باب ختم دوسرا شروع۔ 3 رکنی بینچ نے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کے بارے میں 4 اپریل کو فیصلہ دے دیا۔ پارلیمنٹ فیصلے کے خلاف ڈٹ گئی حکومت اور وفاقی کابینہ نے طبل بجا دیا۔ قومی اسمبلی نے اوپر تلے دو قراردادیں منظور کرلیں جن میں فیصلہ کو اقلیتی فیصلہ قرار دے کر مسترد کردیا گیا۔ تند و تیز تقریریں، وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں اہم فیصلے، اتحادی جماعتوں کے سربراہی اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے سیاسی قیادت کو بتایا کہ ہم نے فاضل جسٹس سے استدعا کی تھی کہ ایک اہم قومی مسئلہ پر فل کورٹ بنایا جائے لیکن ہمارا مطالبہ مسترد کردیا گیا۔ سماعت کرنے والا بینچ سکڑ کر فاضل چیف جسٹس سمیت 3 رکنی رہ گیا۔ اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل دیے ملک کی معاشی صورتحال اور دیگر عوامل کی وضاحت کی دیگر سیاسی جماعتوں کے وکلا کے دلائل کی نوبت ہی نہ آسکی۔ فیصلہ محفوظ کرلیا گیا اور 4 اپریل کو سنا دیا گیا کہ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے الیکشن 14 مئی کو ہوں گے۔ فیصلہ میں انتخابی شیڈول بھی جاری کردیا گیا۔ 10 اپریل (آج) وفاقی حکومت الیکشن کمیشن کو انتخابی اخراجات کے لیے 21 ارب دے گی نہ دیے تو الیکشن کمیشن اگلے روز سپریم کورٹ کو رپورٹ دے گا توہین عدالت نا اہلی کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ فواد چوہدری نے ڈرانے کی کوشش کی کہ ایک اور وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا جائے گا، اکیلے وزیر اعظم کیوں؟ ارکان پارلیمنٹ اور وفاقی کابینہ سبھی نے فیصلہ مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ اجتماعی سیاسی شہید بننے کو تیار ہیں۔ جہاں تک الیکشن کی تاریخ کا تعلق ہے اعتزاز احسن نے تو کہا تھا کہ الیکشن 90 دن سے ایک دن بھی آگے نہیں جاسکتے۔ 32 دن آگے چلے گئے۔ 4 اپریل کو فیصلہ آ گیا۔ قومی اسمبلی میں 4 اپریل کے حوالے سے بڑی جذباتی تقریریں کی گئیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ”فل کورٹ بن جاتا تو کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔ چار تین کے بینچ نے تاریخ دینے کی درخواست مسترد کردی تھی، 3 رکنی بینچ نے تاریخ دے دی“ اس سے قبل جسٹس فائز قاضی عیسیٰ نے جو آئندہ چیف جسٹس بننے والے ہیں اپنے ایک فیصلے میں نئے رولز بننے تک بینچوں کی تشکیل روک دی تھی۔ ایک سرکلر کے ذریعے اسے ناقابل عمل قرار دے دیا گیا۔ رجسٹرار کے خلاف کارروائی بھی روک دی گئی۔ بعد میں 6 رکنی بینچ نے جسٹس فائز قاضی عیسیٰ کا فیصلہ بھی کالعدم کردیا۔ لمبی کہانی لیکن 4 اپریل کا فیصلہ ہی نافذ العمل ہوگا، کیا حکومت الیکشن کمیشن کو 21 ارب دے گی؟ نہیں دے گی تو توہین عدالت کی کارروائی وزیر اعظم، وفاقی کابینہ کے 84 وزراء، وزرائے مملکت، معاونین خصوصی اور پارلیمنٹ کے تمام ارکان اس کی زد میں آئیں گے دیکھنا ہوگا کہ کتنے اس زد میں آتے ہیں کیا ایسا ہوسکے گا قانون ساز ادارے میں جھاڑو پھرے گا؟ سیانے کہتے ہیں شاید ایسا نہ ہوسکے ایسا نہ ہوسکا تو بات بڑھ جائے گی۔ دو میں سے ایک کو جانا ہوگا۔ ریفرنسوں کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ ایک آدھ ریفرنس دائر کردیا گیا۔ حکومت بیس پچیس دن بعد اس وقت نظر ثانی اپیل میں جائے گی جب عدلیہ اصلاحات کا بل قانون بن جائے گا۔ ایک سینئر تجزیہ کار کے مطابق معاملات 22 اپریل تک طے نہ ہوسکے تو مارشل لاء مقدر بن سکتا ہے۔ یہ اس لیے بھی قرین قیاس ہے کہ 22 اپریل کو پنجاب کی نگراں حکومت کی میعاد ختم ہوجائے گی۔ 13 سیاسی جماعتیں راندہئ درگاہ، ایک جماعت کو شرف یاریابی،
کیسے پتا چلا؟ کیا آنکھیں بند ہیں روز مرہ کے واقعات جانبدار حالات کا مظہر ہیں کپتان کا مہینوں تک عدالتوں میں پیشیوں سے عملاً انکار۔ جوڈیشل کورٹ میں پیشی کے دوران ہنگامہ آرائی، جے آئی ٹی بنی، اس نے طلب کیا نو لفٹ ”وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا“ اس کے باوجود ڈھیروں مقدمات میں ڈھیروں ضمانتیں، فارن فنڈنگ کیس میں بھی ضمانت، خاتون جج کو دھمکی کیس میں نا قابل ضمانت وارنٹ قابل ضمانت وارنٹوں میں تبدیل، مقدمات جھوٹ ہیں یا سچے فیصلے آنے چاہئیں۔ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ 8 سال بعد ہوا تھا پھر سے سرد خانے کی نذر، بھرے جلسہ میں خاتون جج کو دھمکیاں کئی ماہ گزر گئے۔ ٹیریان کیس، توشہ خانہ کیس، توہین عدالت کیس، التوا میں روحانی رموز پوشیدہ ہیں؟ کپتان اپنے بیانئے دھمکیاں کالیں کسی ڈر خوف کے بغیر عوام تک پہنچاتے ہیں۔ اداروں میں نام لے لے کر کھلے بندوں تنقید کیا قابل گرفت نہیں؟ بھکر میں اسلحہ سے بھری گاڑی پکڑی گئی، دو افراد گرفتار، مبینہ طور پر انہوں نے اعتراف کیا کہ علی امین گنڈا پور نے گاڑی زمان پارک پہنچانے کا کہا تھا۔ گنڈا پور پر پولیس چوکی پر حملے کا بھی الزام ہے۔ انہیں عدالت کے باہر سے گرفتار کرلیا گیا۔ عنقریب ضمانت کی درخواست دائر کردی جائے گی۔ مراد سعید کو بھی گرفتاری سے روک دیا گیا۔ اپنے سارے لیڈر آزاد ہیں۔ رانا ثنا اللہ کی ساری کوششیں ناکام۔ آرزوئیں دم توڑ گئیں۔ بیرکوں کی صفائی بیکار گئی۔ انسانی حقوق کے نام پر جمہوریت پھل پھول رہی ہے۔جمہوریت کا فروغ اصل مطمع نظر، انتخابات، قومی اسمبلی سے استعفیٰ منظور کرنے کی رٹ پھر نا منظوری کی درخواستیں، صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل، 63 اے کی تشریح، پنجاب حکومت کی تبدیلی جس کے نتیجے میں مار دھاڑ، ہنگامہ آرائی، پیٹرول بموں کے حملے، مورچہ بندیاں، جمہوری بکھیڑوں ہی سے فرصت نہیں، جمہوریت ملک میں اسی رنگ ڈھنگ سے چل رہی ہے۔ قومی مفادات پس پشت ہر طبقہ پر ذاتی مفاد، سیاسی مفاد، سیاسی رجحانات، محبت پیار عشق مستی غالب، 14 مئی کو الیکشن ہوگئے تو کیا دو تہائی اکثریت مل جائے گی؟ نہ ملی تو پی ٹی آئی نتائج تسلیم نہیں کرے گی۔ عدالتوں سے رجوع کریں گے۔ نتائج کالعدم ہوں گے۔ مقصد ملک میں عدم استحکام انتشار اور افراتفری پھیلانا ہے۔ دو تہائی اکثریت مل گئی تو گریٹر گیم شروع ہوجائے گی۔ کپتان مبینہ طور پر کیے گئے کچھ بیرونی وعدے نبھائیں گے۔ پاکستان کے تین ٹکڑے ہونے کی دھمکی خالی از علت نہیں۔ ہمارے پاس کچھ نہیں بچا جو بچا ہے وہ بھی لٹانے کی سازشیں کی جا رہی ہے۔ ان سازشوں میں کون مہرے کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ عدم استحکام اور معاشی تباہی اس مرحلہ پر انتخابات کا انعقاد کیا رنگ لائے گا؟ عدالتوں کا احترام آئین کی پابندی برحق اس پر کسی محب وطن کو انکار نہیں لیکن الیکشن اسی وقت ملکی ترقی کا ضامن ہوتے ہیں جب ملک میں استحکام اور امن و امان کی فضا قائم ہو حکومت عدالت فیصلہ کے خلاف راستہ اختیار کرنے کے نتائج سے آگاہ ہے اسی لیے بعض حلقوں کے مطابق شاید وہ 25 اپریل سے قبل پنگا لینے کے موڈ میں نہ ہو اور اپنے ہاتھ پاؤں مضبوط کرنے کے بعد میدان میں اترے جبکہ دیگر ماہرین سیاست کا خیال ہے کہ تین چار ہفتوں کے بعد بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہوگا۔ انتخابات کی صورت میں بہت سے معاملات حکومت کے ہاتھوں سے نکل جائیں گے۔ مشاورت کے بعد ہی وزیر اعظم نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جس میں آرمی چیف، فوج کے دو اہم ترین عہدیداروں اور وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی۔ شنید ہے کہ اس میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے تمام پہلوؤں پر غور و خوض کے بعد جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں اگرچہ پی ٹی آئی کے عہدیداروں کو انتخابات کے بارے میں کچھ نظر نہیں آیا۔ جبکہ اعلامیہ میں واضح طور پر دہشت گردی کے خلاف جس ہمہ جہت آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس میں معاشی، سیاسی، سماجی کوششوں کو بھی شامل حال رکھا جائے گا۔ سارے فیصلے اعلامیوں میں نہیں بتائے جاتے۔ وزیر اعظم سے آرمی چیف کی اوپر تلے تین ملاقاتوں میں بہت کچھ طے ہوا ہے۔ ایگزیکٹیو آرڈر سمیت اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔ سیاسی استحکام سے متعلق سخت اقدامات کے اشارے مل رہے ہیں۔ با خبر ذرائع کے مطابق کپتان کے سارے کارڈ ختم ہوچکے، اب وہ ان دیکھے ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے پلاننگ شروع کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے عید بعد باہر نکلنا ہے جو نہیں نکلے گا اللہ اس سے ناراض ہوجائے گا (نعوذ باللہ کیا کپتان ولایت یا نبوت کا اعلان کرنے جا رہے ہیں) وہ ریاست اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کی ریڈ لائن کراس کرنے کی غلطی کر بیٹھے ہیں۔ ان کی بہت سی غلطیاں معاف ہوچکیں لیکن اب سوچا جا رہا ہے کہ آئینی بحران اسی طرح چلتا رہا ہر ادارہ اسی طرح اپنے فیصلے کرتا رہا تو کوئی کسی کے حکم پر عملدرآمد نہیں کرے گا۔ اسی سوچ کے تحت حالیہ ملاقاتوں میں اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔ ایک سینئر تجزیہ کار کا کہنا درست ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے بغیر حکومتی فیصلوں پر عملدرآمد ممکن نہیں۔ تاہم یہ بھی درست ہے کہ حکومت نے اسٹیبلشمنٹ کو اعتماد میں لے کر ہی قدم بڑھائے ہیں۔ کپتان کا سحر ٹوٹ رہا ہے۔ فیصلے کے بعد جشن منانے کی کال پر ملک کے صرف تیرہ شہروں میں دو تین ہزار سے زیادہ لوگ نہ نکلے۔ گھمسان کی جنگ میں ریفرنسوں کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹ کو گیم چینجر قرار دیا جا رہا ہے اور بھی کئی سازشیں بے نقاب ہوئی ہیں جس کے بعد چہروں پر پریشانی صاف دکھائی دیتی ہے۔ اسی دوران اسلام آباد کے رمنا تھانے میں ایک مجسٹریٹ کی مدعیت میں کپتان کے خلاف پاک فوج کے افسروں کے نام لے کر ان پر الزامات لگانے کے سلسلے میں ایک مقدمہ قائم کیا گیا ہے جس میں تین دفعات لگائی گئی ہے۔ اس پر سب خاموش ہیں فکر لاحق ہے کہ شاید اب بچنا مشکل ہے۔ ظہیر کاشمیری نے کہا تھا ”موسم بدلا رت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئے۔ فصل بہار کے آگے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے موسم بدل رہا ہے جنونی اقتدار کے شوق میں خاصے بے باک ہو رہے ہیں۔ لیکن اللہ جانے فصل بہار کے آنے تک کتنے گریبان چاک ہوں گے۔ 22,11,10 تین تاریخیں اہم ہیں تقسیم صف بندی سامنے آگئی۔ گند صاف ہونے والا ہے یا مزید پڑنے والا ہے وقت بتائے گا۔

تبصرے بند ہیں.