شکریہ مانی پہلوان

149

خیال تو تھا میرا کہ سیاسی حوالے سے کوئی کالم لکھتا جس کی بنیاد چیف جسٹس بندیال صاحب کی اپنے کسی مذہبی بزرگ یا شاید پیر ہیں، سے ملاقات کی وائرل ویڈیو میں ہونے والی گفتگو کے صرف ایک جملے پر ہوتی، جس میں وہ کہتے ہیں ”جج دعا کرتے ہیں کہ فیصلے انصاف کے ہوں ایک دن ہم دعا مانگ رہے تھے تین کے ساتھ چوتھا بھی شامل ہو گیا۔ اس نے دیکھا دعا کر رہے ہیں اتنے میں ہم نے آمین کہا اور وہ چونکہ اسی لمحے شامل ہوا تھا اس نے بھی آمین کہنے کے ساتھ ہی پوچھا کون مر گیا ہے؟“۔ میں سوچ رہا تھا کہ آمین کہنے والے جب آمین کہہ رہے ہیں تو نہیں جانتے کہ دعائے خیر ہے یا مغفرت۔ کسی کے ہاں خوشی ہے یا وفات بس آمین کہتا ہے اور پھر مزید خیال آیا کہ قومی نوعیت کے فیصلوں میں بھی صادر شدہ فیصلہ پر آمین ہی کہتے ہوں گے بغیر جانے کہ اس فیصلے میں قومی حیات ہے یا مرگ۔ نفاق ہے یا اتحاد، افلاس ہے یا آسودگی اور پھر بہت ساری خبریں تھیں گنڈا پور کی گرفتاری میں تاخیر، عمران دور میں 600 افراد میں 3 ارب ڈالر بغیر سود کے قرض، قومی اسمبلی کا عدالتی حکم مسترد کرنا، بلاول بھٹو کا کہنا کہ ہم نہیں مانتے ملک میں کوئی انصاف کا ادارہ موجود ہے۔ مریم نواز کا عمرانیت کے سہولت کاروں کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ، عدلیہ کے بارے عمران نیازی، اسد عمر، فواد، شیریں مزاری کی 9/10 اپریل کے بعد تقاریر، دوسری جانب بے روزگاری، انسانیت کی تذلیل، زرعی ملک میں آٹے کے لیے جان کی بازی، ایم کیو ایم کو عمران کا ساتھ دینے کے لیے مجبور کرنا، آئی ایم ایف سے معاملات کی سیریز گویا بہت کچھ تھا کہ اچانک ویڈیو کال آ گئی۔ دوسری جانب گوجرانوالہ کے معروف پہلوان جناب عمران مصطفی المعروف مانی پہلوان تھے جو آقا کریمؐ کے در اقدس سے فون کر رہے تھے، کہنے لگے کہ آپ کو سرکارؐ کے در کی زیارت کراتے ہیں۔ زیارت کی حاضری دی، دل تھا کہ گویا پانی سے باہر گری مچھلی کو پانی میں پھینکا اور قرار آ گیا (الحمدللہ)۔ مانی پہلوان فن پہلوانی کے زبردست ماہر ہیں جب دنگل ہوا کرتے تھے تو کوئی ایسا دنگل مجھے یاد نہیں جس میں مانی پہلوان کی کشتی نہ ہو، جیسے اکی پہلوان کی پٹھی، گوگا پہلوان کا کنڈا، جھارا پہلوان کا سرونۂ (یہ سامنے پہلوان کی گردن پر ہاتھ کی کلائی کا کہنی سے نیچے اور ہاتھ سے اوپر کا حصہ) زور سے مارنا مشہور تھا جو سامنے پہلوان کے ہوش اڑا دیتا، ہوش آتی تو پہلوان چت ہوا پڑا ہوتا۔ امام بخش کی ٹنگی، رحیم بخش سلطانی والا کا ٹنگ کرانا مشہور تھا، اسی طرح
مانی پہلوان کا کنڈا بھی مخالف کے لیے جان کا عذاب تھا۔ مانی پہلوان کا میرے عزیز اور دوست ہونا الگ بات گوجرانوالہ کی صوم و صلوٰۃ کی پابند انتہائی نیک شخصیت جناب غلام مصطفی صاحب کے بیٹے معروف ڈینٹسٹ ڈاکٹر سجاد مصطفی کے بھائی اور پورا خاندان پرہیز گار صوم و صلوٰۃ کا پابند نیک نام کے طور پر جانا جاتا ہے۔ گوجرانوالہ صرف پہلوانوں نہیں فنکاروں اور دانشوروں کا شہر بھی ہے۔ ایک معروف لکھاری مفتون سنگھ دیوان کی بھی جب معروف مصنف کرنل محمد خان سے ملاقات ہوئی اس نے بتایا کہ میں گوجرانوالہ سے ہوں تو کرنل صاحب نے کہا یہ کیوں نہیں کہتے کہ شیرازِ ہند سے آیا ہوں یعنی ایران میں شیراز کے لوگ پڑھے لکھے اور دانشور ہیں۔ لوگوں کی تعداد بہت زیادہ تھی بہرحال مانی پہلوان کی کال نے دھیان پہ پلٹ دیا۔
بات کرے ہم سے کوئی تو ذکر مصطفیؐ کرے
یا پھر ہم سے گفتگو نہ کرے
آقا کریمﷺ کا ذکر جہاں میرے لیے طاقت و قوت کا سرچشمہ ہے وہاں میری کمزوری بھی ہے۔ یوں تو آقا کریمﷺ کے اہل بیتؓ کی حیثیت، عظمت اور دین کے لیے قربانیوں سے زمانے واقف ہیں، عالمین واقف ہیں۔ صحابہ اجمعینؓ جیسی جماعت دنیا میں پہلے آئی نہ قیامت تک آئے گی۔ آقا کریمؐ کی حیات طیبہ کو پڑھا یا سنا ہی جائے تو صحابہ اجمعینؓ کا تذکرہ جا بجا ملے گا یوں تو معیار اور رتبہ کوئی مقرر کرنے کی حیثیت نہیں رکھتا مگر پسندیدگی کے اعتبار سے جس نے جس کو دلجمعی سے پڑھا یا سنا وہ شخصیت من میں بس گئی۔ مجھے یاد ہے حضرت بلالؓ بن رباح کے متعلق میں نے ایک کتاب شروع کی شاید دو برس سے زیادہ گزر گئے اور پہلے وہ ابواب بھی نہ پڑھے جا رہے تھے صبح اٹھ کر نماز تلاوت سے فارغ ہو کر یہ کتاب پڑھتا جو مجھے میرے بڑے بھائی پا جی اعظم صاحب کے بیٹے پروفیسر حسین اعظم (کینیڈا) نے تحفہ کی۔ میرے گھر میں کام کاج کے لیے ہیلپر میری بیوی سے کہتا کہ صاحب جی کوئی کتاب پڑھتے ہیں اور سسکیوں سے روتے ہیں یہاں تک کہ ہچکیاں بند نہیں ہوتیں۔ دراصل یہ حضرت بلالؓ کی زندگی تھی۔ آقا کریمؐ کی محفل میں روحانی طور پر داخل ہو جاتا تھا جو مجھے حقیقی زندگی سے نکال کر 14 سو سال پیچھے لے جاتا اس موضوع پر تفصیل سے مضمون میری کتاب ”میں اور میری روح“ میں زیر طباعت ہے جو قسط وار شائع بھی ہو چکی۔ حضرت بلالؓ تو شاید 7 ویں مسلمان تھے جبکہ اس وقت میری کیفیت اور روح حضرت خبابؓ کی طرف جو ایمان لانے والوں میں چھٹے نمبر پر تھے، کی طرف لپکے جا رہی ہے۔
لوگ آج کل اپنے رزق کے مسائل لے کر پیروں، فقیروں کا رخ کرتے ہیں۔ عقیدت اور رہنمائی اور بات ہے مگر دینے والی صرف اللہ کی ذات ہے۔ آپ سے صرف ایک واقعہ شیئر کرتا ہوں جیسا کہ حضرت خبابؓ بن ارت کو زمانہ جاہلیت میں کچھ لوگوں نے ان کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر مکہ میں بیچ ڈالا اسلام قبول کرنے کے بعد مشرکین نے آپؓ کو کمزور اور بے یارومددگار پایا جس کے غلام تھے بن وائل نے کوئی ایسا ظلم نہیں تھا جو ان پر نہ توڑا آگ، تپتے پتھروں پر گھسیٹنا، مارنا اور درندگی کے پہاڑ توڑنا، تپتے کوئلوں پر لٹایا کہ بدن کی چربی نکل جائے ایک ناقابل بیان انسانیت کیا حیوانیت سوز داستان سے گزرے مگر ایمان میں لغزش نہ آئی۔ آتا ہوں میں ایک واقعہ کی طرف ہجرت کے بعد ایک دن میرے آقاﷺ کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت عمرؓ نے مسجد میں گزرتے ہوئے حضرت خبابؓ جو غلامی سے پہلے تلواریں بنانے اور لوہے کا کام کرتے تھے مگر غلامی کے بعد ہر روز ہر لمحہ موت کا سامنا کیا۔ حضرت عمرؓ نے ان کے پیٹھ سے پھٹے ہوئے کُرتے جس میں سے بدن کا کوئلے کی وجہ سے بنا ہوا ہے گڑھا نظر آ رہا تھا۔ گڑھے پہ پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا خبابؓ یہ مجھے دو (یعنی دین کے لیے سختیاں اور اس کا اجر) اور مجھ سے سب کچھ لے لو اور گزر گئے خبابؓ خاموش رہے۔ آقا کریمؐ نے کہا کہ خباب آپ نے اتنی مشقت کیوں اٹھائی، اتنی مشقت سختی کیوں کر دیکھی (مراد کیا تھی یہ اللہ کے نبیؐ ہی جانتے ہیں) حضرت خبابؓ نے جواب دیا، یا رسول اللہﷺ میں آپ سے عشق، محبت اور مودت رکھتا ہوں تو آقا کریمؐ نے کہا، اچھا تو پھر تیار رہو کیونکہ جو مجھ سے محبت کرتا ہے اس پر آزمائشیں اس طرح آتی ہیں جیسے نشیب کی طرف پانی (مفہوم)۔ یعنی حضرت خبابؓ والی کائنات کے سامنے بیٹھے ہیں اور دیدار کے علاوہ اتباع کے علاوہ نظر کرم کے علاوہ کوئی مطالبہ نہیں۔ اور ہم ہیں کہ دنیا داری کے تعفن، سرمائے اور مفادات میں لتھڑے پیروں کے سامنے بندگی کے انداز میں دنیا مانگ رہے ہیں اور آقا کریمؐ کے غلام صرف دیدار، نظر کرم، شفاعت اور خوشنودی مانگتے ہیں تنگ دامنی کی وجہ سے مزید گنجائش نہیں پھر لکھوں گا۔ شکریہ مانی پہلوان دھیان پلٹ دیا اور دراقدس پر مجھے یاد رکھا۔ میرے والدین، بھائیوں جناب اعظم پا جی اور معظم بھائی کی مغفرت اور درجات کی بلندی کی دعائیں اور میرے خاندان کی خیر مانگی۔ جزاک اللہ

تبصرے بند ہیں.