ماہ رمضان اسلامی سال کا مبارک ترین مہینہ ہے جسے شہر القرآن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں قرآن نازل ہوا تھا اس مہینے کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے تا کہ وہ عوام الناس کو گمراہ نہ کر سکے۔ پورا سال غلطیاں اور گناہ کرنے والوں کو اللہ کی طرف سے موقع دیا جاتا ہے کہ وہ حق کے راستے پر واپس آجائیں اپنے سابقہ گناہوں کی معافی مانگیں اور اللہ کے راستے پر نئی زندگی جینے کا عہد کریں توبہ استغفار کریں اور اپنے آپ کو شیطان کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں واپس آجائیں اس مہینے کے فیوض و برکات کا یہ عالم ہے کہ اس میں نفل عبادت کا ثواب فرض نماز کے برابر ہے۔ گویا یہ ایک کھلے عام NRO ہے ہر مسلمان کے لیے جو دین محمدی کا تابع ہے خواہ وہ کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو۔ بزرگان دین اور اولیائے کرام اس لحاظ سے رمضان المبارک کو کمائی کا مہینہ قرار دیتے تھے تا کہ دنیا کی محبت میں اللہ سے جو تعلق ٹوٹ گیا ہے اسے پھر سے جوڑا جا سکے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مسلمانوں نے اس مہینے کو آخرت کی کمائی اور منافع کے بجائے دنیاوی کمائی اور منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے لیے بہترین موقع سمجھ لیا ہے۔
رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی اشیائے خورو نوش کی قیمتیں دو گنا کر دی گئی ہیں ایسا لگتا ہے کہ پورے ملک پر مہنگائی مافیا کا راج ہے روزہ داروں کے لیے افطار کا سامان آٹا چاول سبزی فروٹ ہر چیز کی قیمتیں جو پہلے ہی مہنگائی کی وجہ سے آسمان پر پہنچی ہوئی تھیں اب ساتویں آسمان پر ہیں کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ کیلا 400 روپے درجن اور سیب 450 روپے کلو دستیاب ہو گا۔ پاکستان میں پائی جانے والی حالیہ مہنگائی کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہمارے ہاں اس سال فروٹ اور سبزیوں کی پیداوار نہیں ہوئی ایسا نہیں ہے پیداوار وہی ہے مگر ذخیرہ اندوزی بلیک مارکیٹنگ اور پرائس مافیا نے گٹھ جوڑ کر کے قیمتوں کو دوگنا کر دیا ہے۔ اس کہانی کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کاشتکار یا کسان طبقہ جو یہ اشیائے خوراک پیدا کرتا ہے انہیں اتنی مہنگی قیمت کا کوئی
فائدہ نہیں پہنچا سارا ناجائز منافع مڈل مین آڑھتی سٹور مالکان اور بڑے تاجروں کو جا رہا ہے۔
مہنگائی کی اصل وجہ پر غور کرنے سے پہلے گزشتہ ایک ہفتے کی خبروں پر غور کریں کہ کہیں آج تک گراں فروشی کے الزام میں پورے ملک میں کوئی ایک بھی گرفتاری یا چالان ہوا ہو ہم نے پڑھا ہے، سنا ہے نہ دیکھا ہے۔ قیمتوں پر کنٹرول ضلعی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور ضلعی عملہ رمضان کا پورا مہینہ یہی شو کرتے ہیں کہ وہ مارکیٹوں میں مصروف ہیں لیکن عملاً ان کی کارکردگی صفر ہے۔ ڈیمانڈ سپلائی اصول کے تحت تاجر اور ریڑھی فروش خود ہی قیمت کا تعین کرتے ہیں ضلعی حکومتیں خاموش تماشائی ہیں بلکہ ضلع کے اعلیٰ افسران کی رمضان میں اپنی فکس منتھلی بھتہ خوری کے ساتھ ساتھ مفت فروٹ اور سبزی ان کے گھر پہنچ جاتے ہیں اور عوام کے لئے ظلم و زیادتی کا بازار گرم ہے۔ مادر پدر آزاد من مانی قیمتوں کے نظام کی ایک بنیادی وجہ ملک میں مقامی حکومتوں یا لوکل باڈیز کا نہ ہونا بھی ہے۔ گزشتہ ادوار میں سٹی ناظم یا میئر مقامی سطح پر قیمتیں معمول پر رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتے تھے لیکن گزشتہ حکومت کے دور میں لوکل باڈیز کو معطل کر دیا گیا اور آج تک لوکل باڈیز کے انتخابات نہیں ہو سکے کہ گلی محلے کی سطح پر عوام کی دیکھ بھال ہو سکے۔ ہر حکومت اور ہر پارٹی مقامی حکومت کے فنڈز ہڑپ کرنے کے لیے یہ پیسہ مقامی حکومت کو دینے کے بجائے اپنے ایم پی اے اور ایم این اے کو سیاسی رشوت کے طور پر دے دیتی ہے جو کہ قطعی غیر قانونی ہے۔
ماہ رمضان کا روایتی جوش و خروش ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ افطار پارٹیاں ختم ہو چکی ہیں گھروں میں بچوں کی افطاری کے لیے جو متعدد کھانے تیار ہوتے تھے وہ سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ مہنگائی اور آ مدنی میں کمی سے ہر گھر کا بجٹ خسارے کا بجٹ ہے۔ صدقات و خیرات جو رمضان مبارک کا لازمی حصہ تھے وہ بھی دم توڑ چکے ہیں۔ مسجدوں میں ہونے والی افطاریاں اب نہیں ہوتیں۔ رمضان میں جو ہر طرف اسلامی ثقافت کا رنگ نظر آتا تھا وہ سب مہنگائی کی نذر ہو چکا ہے۔ عید شاپنگ کے نام پر بچوں کے نئے کپڑوں، جوتوں اور فیشن آئٹم کی خریداری اب ایک خواب ہو گئی ہے۔ اس لیے اب زیادہ تر فیملیاں اس عید پر گزشتہ عید والے کپڑے زیر استعمال لانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ مہنگائی نے بچوں سے ان کی خوشیاں اور رونقیں چھین لی ہیں۔ مہنگائی کا سب سے زیادہ اثر متوسط طبقے پر پڑا ہے جو اب غریبوں کی صف میں شامل ہو چکے ہیں۔
ویسے تو حکومتوں کے سالانہ رمضان سبسڈی پیکیج ہر دور میں غلط استعمال ہوئے ہیں لیکن اس دفعہ کی فری آٹا سکیم بندے مار سکیم میں تبدیل ہو چکی ہے جس میں اب تک پنجاب میں 10 افراد لقمہئ اجل بن چکے ہیں۔ حکومت نے غریب گھرانوں کے لیے مفت آٹے کی فراہمی کا اعلان نہایت عجلت میں کیا یہ ایک سیاسی فیصلہ تھا کہ حکومت کی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا جا سکے۔ اس میں حکومتی نیک نیتی پر شک نہ بھی کیا جائے تو پھر بھی اس سکیم پر عمل درآمد کا جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ عوام کے لیے خاصا ذلت آمیز تھا مگر بات عزت نفس کی پامالی تک نہیں رہی بلکہ اس میں فی تھیلا آٹا کے حصول کے خواہش میں لوگ جان سے گزر گئے مگر حکومت نے پھر بھی قابل عمل طریقہ اختیار نہیں کیا۔ اصل میں حکومت کا یہ ایک اچھا فیصلہ تھا لیکن ملک کی بیورو کریسی کی نا اہلی کی وجہ سے ایک طرف تو عوام کو بھکاری بنانے کا تاثر پیدا ہوا ہے دوسری طرف یہ سارا ڈھونگ عوام کے لیے خطرناک ہو گیا کیونکہ آٹا لینے میں جان کا خطرہ ہے یہی سکیم اگر ہوم ورک کر کے شروع کی جاتی تو یہ آٹا ضرورت مند کے گھر کی دہلیز پر عزت کے ساتھ بھی پہنچایا جا سکتا تھا حکومت کے پاس کروڑوں غریب فیملیوں کا پورا ڈیٹا نادرا کے ریکارڈ میں موجود ہے جو باقاعدہ مصدقہ طور پر رجسٹرڈ ہیں پھر قطاریں لگوانے کی کیا ضرورت تھی۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جو ماضی میں اپنی زائد گندم دوسرے ممالک کو ایکسپورٹ کر کے اس سے زرمبادلہ حاصل کرتا رہا ہے۔ آخر کیا وجہ ہوئی ہے کہ عثمان بزدار کے ”دور خلافت“ میں ایک سال پہلے اپنی گندم ایکسپورٹ کی گئی اور پھر اسی سال اپنے ملک میں گندم کے بحران کے بعد ارجنٹ بنیادوں پر گندم منگوائی گئی اور اس کے بعد اب یہ سلسلہ شروع ہو گیا ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم اپنی ضرورت کے مطابق گندم پیدا نہیں کر سکتے۔ آج بھی ہمارا یہ چیلنج ہے کہ اگر کسان کو سہولتیں فراہم کریں ایک پائیدار زرعی پالیسی بنائیں تو 2 سال کے اندر پاکستان دوبارہ گندم ایکسپورٹ کرنے کی پوزیشن میں آ سکتا ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.