پاکستان میں قانون موم کی ناک بن چکا ہے جسے طاقتور جس طرف چاہے موڑ دے۔ تحریک انصاف کے رہنما، سابق وزیر قانون اور معروف وکیل بابر اعوان کا جملہ آج بھی میرے کانوں میں گونجتا ہے۔ ”نوٹس ملیا ککھ نہ ہلیا“۔ بس یہ ہے اس ملک میں قانون کی حکمرانی اور بالادستی۔ اس ملک میں قانون صرف لوگوں کو خوار کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ اس قانونی حراسگی کا متاثرہ نہایت مظلوم طبقہ اوورسیز پاکستانی بھی ہیں۔ یہ لوگ اپنی جوانیاں، دن رات ایک کر کے دیار غیر میں کام کرتے ہیں۔ قیمتی زرمبادلہ ملک میں بھجواتے ہیں۔ یہ پاکستان کی برآمدات کے برابر ملک میں پیسہ بھجواتے ہیں۔ یہ اربوں ڈالر بھجوانے والے جس سلوک اور عزت کے مستحق یہ انھیں آج تک دی ہی نہیں گئی۔ اس کے بجائے ان کے ساتھ قانون کے نام پر جو سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ وہ نہایت تکلیف دہ اور پریشان کن ہے۔ میں ذاتی طور پر سیکڑوں لوگوں کو جانتا ہوں جو عدالتی ہراسگی کا شکار رہے ہیں۔ ان میں سے ایک محمود بھٹی بھی ہیں۔ یہ فرانس میں مقیم ہیں اور ایک بڑا فیشن برانڈ چلاتے ہیں۔ یہ پاکستان میں پیدا ہوئے۔ قدرت نے بچپن میں ہی ماں باپ چھین لئے۔ یہ ان خوش قسمت پاکستانیوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی تقدیر لکھی۔ اس شخص نے فرانس کی گلیوں سے کچر ا صاف کیا۔ کوڑے میں سے کھانا ڈھوند کر کھایا۔ فٹ پاتھ پر سویا۔ لیکن سخت محنت اور لگن نے اسے فرانس کا فیشن آئیکون بنا دیا۔ان پر تین فلمیں بن چکی ہیں اور کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ یہ فرانس میں رہتے ہیں لیکن ان کا دل پاکستان میں رہتا ہے۔ یہ پاکستان میں بہت سے کمرشل پراجیکٹس کے انویسٹر اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ لیکن گذشتہ دور میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ان کے اس دل کے ہزاروں ٹکڑے کر دیئے جو صرف اور صرف پاکستان کے لئے دھڑکتا ہے۔ جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار تھے۔ محمود بھٹی بھی ان دنوں پاکستان آئے ہوئے تھے۔ اتوار کا دن تھا۔ محمود بھٹی نجی ہسپتال کی زیر تعمیر پارکنگ کا معائنہ کر رہے تھے کہ اچانک درجنوں گاڑیوں کا ایک قافلہ ہسپتال آکر رکا۔ میڈیا کیمروں کے ساتھ بڑی گاڑی سے اترنے والے شخص نے زور زور سے کہنا شروع کر دیا کہ کہاں وہ ڈیزائنر ڈاکو، اسے میرے پاس لے کر آؤ۔ وہ یہ جملے با آواز بلند بار بار کہہ رہے تھے۔ ہسپتال میں داخل ہو کر مریضوں کو کہنا شروع کر دیا کہ ڈاکوؤں کے پاس کیوں آگئے ہو؟ ریاست پاکستان ایک طرف کہتی ہے کہ اوورسیز پاکستانی اپنے ملک میں انویسٹ کریں۔ دوسری طرف جوپاکستان میں آ کر یہاں انویسٹ کرتے ہیں ان کی ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے۔ خیر محمود بھٹی کو چیف جسٹس کے سامنے لایا گیا۔ تو محمود بھٹی نے پوچھا کہ آپ یہ ڈیزائنر ڈاکو مجھے کہہ رہے ہیں۔ تو وہ بولے ہاں تمہیں کہہ رہا ہوں۔ تو محمود بھٹی نے کہا کہ یہ بد تمیزی ہے۔ اس بات پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے چلانا شروع کر دیا کہ اس کا پاسپورٹ لے کر ایف آئی اے کو دیا جائے اور نام ای سی ایل میں ڈال دیں۔
مسلسل میرے ساتھ بدتمیزی کرتے رہے۔ میری بیوی جو کہ فارنر ہے وہ یہ باتیں سن کر چکر اکر گر پڑی۔ میں نے فوراًاپنے ملازموں کو بھیجا وہ پاسپورٹ لے آئے اور ایف آئی اے والوں کے حوالے کر دیا۔ اصولی طور پر کسی جج کے پاس ہسپتال کو چیک کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے۔ یہ محکمہ صحت کا کام ہے کہ وہ آئیں، چیک کریں اور اگر کوئی بے ضابطگی ہے تو ہسپتال سیل کر دیں۔ پھر کیس عدالت میں جائے تو جج اس کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ لیکن سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا اس طرح ہسپتال میں آنا اور مجھے بے عزت کرنا۔ حالانکہ میں انھیں جانتا تک نہیں تھا۔ سمجھ سے بالاتر تھا۔بعد میں مجھے پتا چلا کہ ان کا ایک بھائی جو ڈاکٹر ہے اور میڈیکل بزنس میں ہے۔ اسی لئے حکومت پنجاب کے کڈنی ہسپتال کو بھی زیر عتاب لایا گیا۔ سابق چیف جسٹس ہسپتال کے دورے کے موقع پر اس قدر ذاتی عناد پر اتر آئے کہ انھیں میرے لباس پر بھی اعتراض تھا۔ حالانکہ میں انٹرنیشنل فیشن ڈیزائنر ہوں۔ اگلے دن مجھے زندگی میں پہلی بارعدالت جانا پڑا۔ جہاں مجھے کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔ میرے وکیل نے کہا کہ آپ نے کوئی بات نہیں کرنی۔ میں نے کہا کہ میں بات کروں گا۔ میں نے سابق چیف جسٹس سے کہا کہ میرا فرنچ پاسپورٹ ہے کہ آپ فرانسیسی سفارتخانے سے بات کیے بغیر نہیں لے سکتے۔ تو ثاقب نثار بولے میں نے تو آپ کا کوئی پاسپورٹ نہیں لیا۔ ایف آئی اے سے کہا کہ ان کا پاسپورٹ واپس کر دیں اور خود اٹھ کر چلے گئے۔ بعد میں مجھے بالواسطہ طور پر کہلوایا گیا کہ میں ڈیم فنڈ میں پیسے جمع کراؤں۔ میں فوری طور پر فرانس واپس چلا گیا۔ ٹینشن اور ڈپریشن کے باعث مجھے ایک سٹنٹ ڈلوانا پڑا۔ میری اور بھی بہت سے پراجیکٹس میں انویسٹمنٹ تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ میں کہاں پھنس گیا ہوں۔میرے پارٹنر نے 25 لاکھ ڈیم فنڈ میں جمع کرا دیئے۔ کہانی صرف اتنی نہیں۔ محمود بھٹی نے 1987 میں لاہور میں ایک مربع زمین خریدی تھی۔ اس کا نگران ایک وکیل کو بنایا اور اتھارٹی لیٹر دے دیا جیسا کہ مغربی ممالک میں ہوتا ہے۔ لیکن ان موصوف وکیل نے یہ زمین اپنے اور اپنی بیوی کے نام کرا لی۔ معلوم ہونے پر ان کا اتھارٹی لیٹر کینسل کر کے سٹے آرڈر لیا گیا۔ میں لاکھوں روپے خرچ کر کے پیرس سے پاکستان پہنچا۔ جج صاحب سے ٹائم لے کر ائر پورٹ سے سیدھا سیشن جج کی عدالت پہنچا۔ لیکن جج صاحب نے ملنے سے انکار کردیا۔ شام کو ساڑھے سات بجے عدالت کھول کر میرا سٹے آرڈر کینسل کر دیا۔ لاہور چیمبر میں بیٹھے ہم دوستوں کو یہ سب بتاتے ہوئے محمود بھٹی کی آنکھوں سے آنسو آگئے۔ وہ اس زمین پر اپنی ماں کے نام سے ایک یتیم خانہ بنانا چاہتا تھا۔ وہ سیکڑوں طالب علموں کو تعلیمی وظائف دے رہا تھا۔ بیواؤں اور یتیموں کی کفالت اپنے ذمے لے رکھی تھی۔ محمود بھٹی زندگی بھر کی محنت کرنے کے بعد اب پاکستان کے لئے کچھ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اب وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے پاکستان میں کسی بھی کام سے توبہ کر لی ہے۔ ہمارے سسٹم نے اسے عزت دینے کے بجائے ذلیل کر دیا۔ اس وکیل نے اس پر 17 مقدمات بنوا دیئے۔ جس میں آئے دن اسے کسی نہ کسی عدالت میں پیش ہونا پڑتا ہے۔ وہ دو کروڑ روپے وکیلوں کو فیس دے چکا ہے۔یہ کیسا قانون اور عدالتیں ہیں جس کا دل چاہے وہ کسی پر مقدمہ کر دے۔بنا کسی قصور کے لوگ عدالتوں میں دھکے کھائیں۔ صرف دس منٹ میں نمٹائے جانے والے مقدمے میں لوگ دس دس سال عدالتوں کے چکر کاٹیں۔ محمود بھٹی کی اس مثال کے بعد کیا کسی بڑے اوورسیز پاکستانی کو قائل کیا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان میں انویسٹ کریں۔ اگر کوئی بھی مسئلہ ہوا تو پاکستان کی عدالتوں سے انھیں انصاف ملے گا۔ حکومت اور چیف جسٹس صاحب کو چاہیے کہ وہ محمود بھٹی اور ان جیسے دیگر اوورسیز متاثرین کو فوری انصاف دیں۔ ورنہ ہمارے اپنے بھی ہم پر اعتماد کرنا چھوڑ دیں گے۔ ہماری عدالتیں اور ججز مراعات کے اعتبار سے دنیا کے پہلے دس ممالک میں شامل ہیں جبکہ انصاف کی فراہمی کے اعتبار سے 140 ویں نمبر پر۔ جب تک کسی ملک میں انصاف قائم نہیں ہو گا وہ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ جج کی کرسی پر بیٹھنے والے کو سوچنا ہو گا کہ یہ ملک ترقی کیوں نہیں کر رہا؟۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.